کڑوا سچ... تلاش گمشدہ(گنجائش اور برداشت کھو گئی )

آج تک یہی سنا اور پڑھا کہ ماں کے قد موں تلے جنت ہے مگر اس عہد میں یہ بھی دیکھ لیا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو دنیا ہی میں اپنی جنت اجاڑ لیتے ہیں آپؐ نے ایک مو قع پر فر مایا تھا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بیٹے ماؤں کو ذلیل کریں گے اور بیویوں کے فر مانبردار ہوں گے ۔

اسٹیٹ بنک فنانس ڈیپارٹمنٹ کے جوائنٹ ڈائریکٹر غلام ربانی کے ہاتھوں کراچی میں ماں کاقتل وہ ہولناک وا قعہ ہے جس سے فر ش ہل گیا عرش کانپ اٹھا اور اہل دل کے دل پیاسے پرندوں کی طرح پھڑپھڑانے لگے ۔اس وا قعہ سے چند روز قبل شکر گڑھ میں بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتل اور وجہ بھابی کے ساتھ دیور کا عشق اور ناجائز تعلق اور بھابی کو پانے کے لیے پھر سگے بھائی کا خون بھی ایسا ہی وا قعہ تھا ۔جو زلزلے اور آفات کو دعوت دینے کے لیے کافی ہے شاید یہ معتدل افراد کی بد قسمتی ہے کہ وہ اس انتہا پسند عہد میں جینے پر مجبور ہیں جس عہد کے افراد درندہ صفت حیوانوں سے بھی بد تر ہیں ۔ یاشاید ان کے ذمے انہی درنددوں کوانسان بنانے کا عظیم تر مقصد پورا کرنا ہے ۔

ہمارے اندر رنگ ،نسل برادری ،فر قے ،علاقے ،مذہب،عقیدے کی کڑواہٹ اس قدر رچ چکی ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کے لئے ایک فیصد گنجائش بھی باقی نہیں رکھی ۔

ہم اس قدر کٹھور،ضدی،ہٹ دھرم ،انتہاپسند ہوچکے ہیں کہ ہم نے از خود یہ طے کر لیا ہے کہ ہمارا ہی فر قہ جنتی صرف ہم ہی سہی اور باقی جہنمی اور غلط ہیں کسی کو اپنے اعلیٰ حسب و نسب اور ذات پر اتنا فخر ہے کہ وہ باقیوں کو نیچ اور کمتر سمجھتا ہے۔اسی طرح سر عام عدم بر داشت کے مناظر چوکوں ،سڑکوں اور بازاروں میں عام افراد کے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے ہر روز دیکھے جاتے ہیں کہیں لین دین کا جھگڑا ہے تو کہیں زمین کا ،کہیں عورت پر جھگڑا ہے تو کہیں صرف اس بات پر کہ میں پہلے بل ادا کروں گا ،کہیں بس کی سیٹ پر فساد ہے تو کہیں باپ بیٹا میت کے جنازے پر الجھ رہے ہیں کہ اس کے ساتھ قبر میں قرآن جائے نہ جائے ،کہیں فساد ہے کہ مرنے والے کے لیے ختم پڑھا جائے یا نہ پڑھاجائے،کہیں فتنہ ہے کہ چاند نظر آیا روزہ ہے ،کہیں ہسپتالوں کے کم بیڈز اور زیادہ مر یض جھگڑرہے ہیں کہ پہلے وہ یا پہلے وہ ۔

یہاں تو موبائل کے Busyہونے ،پک نہ ہونے،اچانک بند کرنے پر گھروں کے گھر اجڑ جاتے ہیں کہیں نمک زیادہ ہونے پر ہنگامہ ہے تو کہیں چینی کم ہونے پر فساد غرض اسلامی جمہوریہ پاکستان عدم برداشت کا وہ نمونہ ہے جس میں نہ اسلام ہے نہ جمہوریت اور نہ ہی پاکیزگی یہاں تو انتشار کا نہ ختم ہونے والا کھیل معاشرے میں زہر کی طرح پھیل چکا ہے جس کا علاج کسی حکیم کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں ۔

معاشرے کی اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس عہد کی مثال زمانہ جہالیت سے دی جاسکتی ہے جس میں انسان کا دشمن ہی نہیں بلکہ اسے فتنہ و نحوست سمجھ کر قتل بھی کر سکتا تھا اس عہد میں وہ سب کچھ نئے انداز کے ساتھ ہورہا ہے جو تب اس وقت کے طریقوں کے مطابق کیا جاتا تھا ۔سنا ہے کہ UAE کی حکومت نے وزارت ِ برداشت کا قیام عمل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔اگر ہمارے ہاں ایسی وزارت قائم ہو تو وزیر اور اس کا عملہ عدم بر داشت کی ایسی بھیانک تصویر بن سکتا ہے جس کی ویڈیو نیٹ پر اَپ لوڈ ہونے کے بعد ریسلنگ کے شائقین میں اچھا بزنس کر سکتی ہے ۔کیونکہ آج کل ریسلنگ کا کھیل خاصہ ٹھنڈا پڑ گیا ہے مذہب کے نام پر جاری فر قہ واریت کا یہ کھیل تماشہ جس میں تمام شاخیں دوسروں کو مشرک اور خود کو توحید پر ست ثابت کرنے کے چکر میں اﷲ کے گھر یعنی مسجد کو اس طرح تقسیم کر چکے ہیں کہ ایک فرقہ پر عمل پیرا شخص دوسرے فرقے کی مسجد کے سامنے سے گزرتے ہوئے منہ پھیر کر گزرتا ہے ۔

صرف یہی نہیں سب کی اپنی نماز ہے سب کا اپنا جمعہ سب کی اپنی عید سب کا اپنا جنازہ ارے ہم سے تو ہولی دیوالی اور تیرت والے ہی اچھے جو کلمہ گو نہ ہوتے ہوئے بھی کم ازکم ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں تو شامل ہوتے ہیں ہم حب رسو ل ؐ کے دعویدار اور شفاعت کے خواہش مند احکامات الٰہی جاننے کے باوجود اپنے پاس قرآن مقدس جیسے نایا ب نسخہ کیمیا کے ہوتے ہوئے گمراہی کی دلدل میں ایسے دھنس چکے ہیں جیسے ہم خود ہی چلا چلا کر کہہ رہے ہوں آبیل مجھے مار۔ بات چلی تھی ماں کے قاتل بنک آفیسر بیٹے سے ۔

یہ تو وہ بیٹا تھا جس نے ماں کو مار دیا نہ جانے اس بے تر تیب ہجوم جسے چند دانش ور قوم کہتے ہیں اس میں کتنے ہی بیٹے ہیں جو گیلے اور ٹھنڈے بستر پر سو کر خشک اور گرم بستر کی راحت دے کر جوان کر نے والی ماؤں کو بات بات پر ذلیل و رسوا کر تے ہیں ۔یہاں کتنے ہی دیور ہیں جن کی بھابیوں پر نیت خراب ہے ،کتنے ہی بھائی دوسروں کی بہنوں کی عزتوں کے دشمن اور کتنی ہی بہنیں بھائیوں پر دیوانوں کو تر جیح دیتی ہیں ۔

یہ معا شرہ یہ ریاست جس میں اہل مسند کو گھمنڈ ہے کہ یہاں براجمان شریفوں کو خدا نواز رہا ہے لیکن دراصل حقیقت یہ ہے کہ عدم برداشت کے بھنور میں پھنسی ہماری کشتی کو فر قہ واریت اور تعصب کے اس طوفان کا سامنا ہے جو ہمیں دکھائی تو نہیں دے رہا لیکن یقناً یہ ہمیں تباہ کرے گا ۔مجھے ہر روز اپنی چشم بصیر ت سے ایسے واقعات کا مشاہدہ کرنے کا مو قع ملتا ہے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں ۔جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں APCیعنی آل پارٹیز کانفرنس کا بڑا ٹرینڈ چل نکلا ہے ان APC'sمیں بیٹھے سیاسی مخالفین کے انداز سے ٹپکنے والی بلا کی منا فقت ایک دوسرے کے لیے عدم بر داشت اور باہم نفرت دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دلوں میں کس قدر بغض اور عداوت ہے چہروں پر سجی جھوٹی مسکان دراصل منافقت کی وہ انتہا ہے جس پر عبداﷲ بن اُبی بھی ہوتا تو ان کو اپنا استاد مانتا ۔کیا یہ سچ نہیں کہ مفادات کے نام پر بنی اساتذہ ،ڈاکٹرز،صحافیوں ،کلرکس ،پروفیسرز،نر سز ،پائیلٹس،سٹوڈنٹس ،مزدور،کسان ،اقلیت ،خواتین کی تنظیموں کے اپنے اندر مو جود انتظامیہ اور ممبرز ایک دو سرے سے انتہا کا حسد رکھتے ہیں اور مو قع ملنے پر مرنے مارنے کو تیار ہوتے ہیں کیا کوئی یہ مان سکتا ہے کہ کسی خوف کے با عث اگر میاں صاحب مشرف کو کچھ نہیں کہتے تو وہ اٹک قلعے کی تمام تکلیفیں بھول کر انہیں معاف کر چکے ہیں ؟ نہیں ہم سب موقع پر ست ہیں ہمارے سینوں میں انتقام کی بھڑکتی آگ نے پیار محبت کے جذبات کو جلا کر راکھ کر دیا ہے کبھی اپنے ارد گرد کسی میت پر جمع ہونے والے لو گوں کو دیکھیں جو اس مو قع پر بھی خو ش گپیاں ترک نہیں کر تے بلکہ اکثر تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں اس مسلک کے لوگوں کا تو جنازہ پڑھنا ہی جائز نہیں کا ش میرے ہاتھ میں وہ اوزار ہوکہ جس سے میں نفرت اگلتی زبانوں اور بغض بھرے دلوں کو مسلمانوں کے سینو ں سے نکال پھینکوں ۔کوئی دوا ساز کمپنی ،کاش کوئی ایسا انجکش ہی تیار کر لے یا کوئی ایسے قطرے تیار کر لے جو اس قوم کو لگائے یا پلالئے جائیں کہ اس کی گمشدہ گنجائش اور بر داشت واپس آجائے اور لو گ پھر سے ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں اور ایک دوسرے کی عزت نفس کا احترام کرنے لگیں شاید ایسا فاومولا طب یا سائنس کے پاس تو نہیں لیکن ایسا فار مو لا ہمارے پاس ہے اور وہ ہے قرآن حکیم سنت رسولؐ احادیث مبارکہ اور وہ عمل جو صحابہ ،تابع،تابعین اور اولیاء نے کیا مجھے عدم بر داشت نفرت اور حسد کی سیاہ رات محبت کے نہ ختم ہونے والے دن میں تبدیل کرنے کے لیے کسی مجد د،کسی ولی کا انتظار ہے میں اپنے معا شرے میں عدم بر داشت کے باعث بڑھتی شرح اموات پر ماتم کرنے کے بجائے چند لمحے سچی کھلکھلاتی مسکراہٹ کا تحفہ دینا چاہتا ہوں خود کو اور سب کو یہ وہ سچ ہے جو پڑھنے میں کڑوا مگر تا ثیر میں میٹھا ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ ایک دن باہم حسد اور نفرت محبت میں بدلے گی ۔(انشاء اﷲ)
Qazi Naveed Mumtaz
About the Author: Qazi Naveed Mumtaz Read More Articles by Qazi Naveed Mumtaz: 28 Articles with 21717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.