اف یہ کھلاڑی لفظوں کے

از: افشاں ناز
جس طرح زبان اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک ایسی نعمت ہے جس کا شکر کبھی بھی ادا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ زبان ہی ہے جو جب تک لفظ ادانہ کرے لفظ اس کے محتاج اور اگر ادا کر دے تو یہ لفظوں کی محتاج بن جاتی ہے۔ زبان ہی ہے جو انسان کو درجات فضیلت کی معراج عطا کرتی ہے اور یہی حقیر تر بھی بنا دیتی ہے دنیا میں نام اور مقام پیدا کرنے کیلئے جن چند چیزوں کی ضرورت پیش آتی ہے اُن میں سے ایک آدمی کا صاحب عمل اور صاحب کردار ہونا ہے جبکہ صرف لفظوں کا لڑیاں پروکر خیالات کے گلدستے بنانے والے کبھی بھی حقیقت کے آئینے میں فٹ نہیں آتے۔ آئیے!حقیقت کی تصویر کر پلٹ کر آج کچھ ایسے کھلاڑی ہیں پاکستان میں جب شام کے 7بجتے ہیں تو ہائی بلڈ پریشر عارضہ، قلب اور درد سر کے مریض اگر بھولے سے کسی نیوز چینل کے سامنے بیٹھ جائیں اور ریٹنگ کے چکر میں نشر ہونے والے ٹاک شاکرتے ہیں تو تو ان کی باڈی ریٹنگ کا بیڑا غرق کر دیتا ہے۔ جہاں لفظوں کے کھلاڑی اپنے دلائل اور نظریات کوبھر پور انداز میں پیش کرتے ہوئے لوگوں کی ذہن سازی میں لگے ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بکثرت اور وافر مقدار میں تجزیہ نگار موجود ہیں جو اگر برآمد کر کے بدلے میں کچھ باعمل اور متحرک افرادی قوت درآمد کر لی جائے تو ملک میں پھیلے اعصابی امراض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اختلافات لفظوں کے کھلاڑیوں کے تجزیوں یا لفاظی پر نہیں اختلاف یہ ہے کہ یہ کھلاڑی دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے تو اخلاقیات کی تمام حدین پھلانگ جاتے ہیں مگر اپنے متعلق ایک لفظ بھی بولنا درکنار سوچنے کا بھی حق نہیں دیتے ۔ آجکل ان کا ٹارگٹ دو قومی نظریہ قائد اعظم علامہ اقبال کی شخصیت ہمارے قومی تہوار ہماری اقدار روایات اور مغربی تہذیب کی وکالت اور اپنے مذہب کی بات کرنے والوں کا انتہا پسند اور تنگ نظر ثابت کرنا ہے یہ اہداف ان کے اپنے مقرر کردہ ہیں ان کے چینلز کے مالکان کے یاپھر انھیں اس ذہن سازی کے عوض بہت کچھ ایسا میسر آرہا ہے کہ یہ جس کا کھانا اس کا گانا کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔ آج کے دانشور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ حالیہ ویلنٹائن ڈے پر بعض دانشور یہ کہتے پائے گئے کہ اگر انگریزوں کی بنائی پینٹ ، بوتل ، بلیڈ ، گاڑی، جہاز، فون استعمال کیا جاسکتا ہے تو یہ دن منانے میں کیا حرج ہے تو ان اہل عقل کو کون سمجھائے کہ انگریزوں نے جس نسخہ کیمیا کو استعمال میں لاکر یہ ایجادات کیں وہ قرآن کی شکل میں ہمارے لیے اُترا تھا جس میں سے ہم نے سوائے ثواب کے کوئی کام نہ لیا اوروہ ترقی یافتہ بن گئے اور آج اگر ہم یہ اشیا ء استعمال کر تے ہیں تو اُس کی قیمت اداکرتے ہیں کیا مغرب یہ قبول کرے گا کہ عام سوہن حلوے گندم نمک اگر وہ ہم سے خرید لے تو عید میلاد النبیؐ یا سوگ محرم منائے تو پھر یہ کیا بے عقلی ہے کہ یہ دلیل منہ پھاڑ کر T.Vپہ دی جائے کیونکہ ہم اُں کی بنائی اشیاء استعمال کرتے ہیں لہٰذا اپنی تہذیب میں ان کی بد تہذیبیان بھی شامل کر لیں۔ آپﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ جو مسلمان جس قوم کے ساتھ مشابہت رکھتا ہو گا وہ روز قیات انھی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ یعنی اپنی اقدار ، روایات، تہذیب ، ثقافت کی بجائے مغربی معاشرے کے رنگ میں رنگ کر ہم کبھی دنیاوی لحاظ سے اہل عقل ودانش ہونے کے علاوہ خودکو صالحین یا مقربین میں شمار نہ کر سکیں گے۔ اور کتنا ہی بڑا اہل عقل دانشور تجزیہ نگار اظہار رائے کا داعی اگر مقرب اور صالح نہیں اور اس کی لفاظی سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں اُنھیں اپنا مذہب اپنے عقائد بوجھ لگتے ہیں اُنھیں ایسی گنجائش دی جاتی ہے کہ وہ فحاشی ، عریانی، بے ادبی ، جھوٹ اور منافقت کو بُرا سمجھنے کے بجائے اسے اثر حاضر کی ضرورت سمجھیں نماز ، روزہ ، حج، زکوٰۃ، تلاوت ، تبلیغ وغیرہ ضروری سمجھیں تو پھر ان کھلاڑیوں سے اُسی طرح پناہ مانگی چاہیے جیسے ان کے آقا سے اعوذبااﷲ پڑھ کر مانگی جاتی ہے۔ مدلل ، مدبر ، مفکر ہونا یقینا وہ اعزاد ہے جو خوش نصیب لوگوں کو حاصل ہوتا ہے اور بقول شاعر
پروں میں طاقت پرواز رکھنا
بہت مشکل ہے یہ اعزاز رکھنا

اگر اﷲ تعالیٰ کیس کو یہ فن دیتا کہ وہ زبان کو استعمال میں لا کر دلیل کے ذریعے کسی کو قائل کرسکے اور اس کا دل جیت سکے تو اُسکے اﷲ کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی موجودہ افغان صدر اشرف غنی جب وزیر خزانہ تھے تو انھوں نے امریکی مفادات کی محافظ بلیک واٹر کی باجی ۔۔۔۔۔۔کو ایک سال میں 286سکول بنانے کا کنٹریکٹ دیا۔ سال بعد معلوم ہوا کہ صرف تین سکول بنے ۔ وزیر صاحب کو غصہ آیا تو امریکنز کے ایک جملے نے سب ٹھنڈا کر دیا کہ حضور لوئی برجر US Aidکی بھیک سے آپ کے ہاں سکول بنارہی ہے کوئی آپ کے پیسے سے نہیں لیکن ہمارے اہل عقل کو تو کبھی یہ سوال پوچھنے کو توفیق نہیں ہوئی کہ اسلام آباد کا بے نظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا توسیع منصوبہ کن قواعد و ضوابط کے تحت لوئی برجر کو دیا گیا جبکہ اس منصوبے پر پیسہ حکومتی خزانے سے خرچ کیا جارہا ہے ۔ مہنگائی بیروزگاری اسلام سے دوری بے حیائی جہالت بے ادبی جیسے موضوعات کبھی بھی ہمارے دانشوروں کی بحث و مباحثہ میں شامل نہیں رہے۔ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ بیشتر لفظوں کے کھلاڑی با اثر شخصیات اداروں اور طاقتوروں کے ہاتھ شکار ہو چکے ہیں نہ صرف اُنھیں سنتے ا ن پر یقین کرتے بلکہ ان کے نظریات کا پرچار کرتے ہیں ۔ جسطرح ہم ہر رواز بکثرت خود پر لگے تنگ نظری انتہا پسندی کے الزام سہتے ہیں اور برداشت کرتے ہیں اسی طرح روشن خیال مافیا کو بھی ملک میں پھیلتی بے حیائی عدم مساوات غیر اسلامی اقدار اور منفی روایات کے فروغ میں بیرونی طاقتوں کے مددگار ہونے کے صداقت پر مبنی حقائق سُننے ہوں گے ۔ یہاں قرارداد مقاصد، قانون ناموش رسالت، اسلامی نظریاتی کونسل وغیرہ اہل دانش کے گلے میں ہڈی کی طرح چُبھ رہی ہے۔ مگر آج بھی کروڑوں لوگ اپنے ریڈیو T.vچینلز پر اوقات نماز پنجگانہ اذان نشر نہ ہونے اور یسے تہوار جن کا کبھی ہم سے تعلق نہیں رہا ان کے حوالے سے گھنٹوں کی ٹرانسمیشن کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ پاکستان لبرٹی ، گلبرگ، کفٹن، ڈیفنس، کینٹ، بلیو ایریا، یا چند سیکٹرز کا نام نہیں جہاں سب حلال ہے پاکستان اُن ستر فیصد محنتی اورجفا کش لوگوں کا نام ہے جو آج بھی اس نعرے کو اپنے دل میں لگائے دھرتی ماں کے سینے سے اناج اُگاتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا ’’لاالٰہ الااﷲ‘‘ آج پاکستان میں جتنا خوف نمازی عبادت گزار، داڑھی والے ، دعوت تبلیغ والے اور ترویجِ قرآن اور نفاذ اسلام والے محسوس کرتے ہیں اُتنی ہی آزادی کلبز، جواخانوں، شراب خانوں اور گرین ہاؤسسز کو حاصل ہے ۔ یہاں سکول کالج یونیورسٹیوں میں بے حجاب گھومنا اور آوارگی کا مظاہر ہ کرنا تو مایوب نہیں مگر دعوت تبلیغ پر پابندی ہے ۔ یہ وہ دور ہے جس دور میں مسلمان اسلام پر ظلم ڈھار ہے ہیں یہ رب کی اُس بے خوف اور بے آواز لاٹھی سے بے خبر ہیں جو ہمیشہ اُن پر پڑی ہے ۔ جنھوں نے رب کی نافرمانی کی اس کے احکامات میں ردوبدل کیا اپنے نظریات اور خیالات کو احکامات الٰہی سے مقدم جانا اور اسلام کو مغلوب کرنے کی کوشش کی یہ بحث وہم یا خام خیالی نہیں تاریخ گواہ ہے کہ اﷲاور اﷲ والے مشکل میں تو رہے مگر جھوٹ اور منافقت کی سیاہ رات کو سچ کی روشنی میں انھوں نے ہی تبدیل کیا اور اب بھی ایسا ہی ہو گا۔ (انشااﷲ) شہنشاہ اکبر کا دین الٰہی اسی کے ساتھ ختم ہو گیا لیکن آج بھی اُس ڈرامہ گیر بادشاہ کے ڈرامے چلتے ہیں ۔ ٹیپو سلطان ، حید علی، طارق بن زیاد ، صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم ، غازی علم الدین شہید، شیر شاہ سُوری جیسے کئی عالی مرتبت لوگوں کے ڈرامے تو کیا ڈاکو مینٹریاں ہی نہیں چلتیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے پرتوی راج کی شہاب الدین غوری کے ہاتھ عبرتناک شکست کی سچی کہانی یہ قوم دیکھے گی تو ان کا ایمان تازہ ہوگا لیکن ہم نے تو جمائی راجہ، ناگن جیسے بکواس ڈرامے دکھا کر اپنی جیبیں بھرنی ہیں ۔ چالباز یہ بھول جاتے ہیں کہ بازی پلٹ بھی سکتی ہے اوریہ بھی ممکن ہے کہ تماشائی خود تماشہ بن جائیں اور لوگ یک زبان ہو کر اپنے ذہنوں میں وسوسے ڈالنے والوں، نظریات کی گِرہ میں الجھانے والوں اور مذہب سے بیگانہ کرکے مغرب سے ملانے والوں کو یہ کہیں یار ہم پناہ مانگے ہیں ان سے کہاں سے آگئے ہیں اُف یہ لفظوں کے کھلاڑی۔یہی ہے تصویر کا دوسرا رُخ
Qazi Naveed Mumtaz
About the Author: Qazi Naveed Mumtaz Read More Articles by Qazi Naveed Mumtaz: 28 Articles with 21577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.