بھاڑ میں جائیں۔ ۔بلدیاتی نمائندے ۔
(ajmal malik, faisalabad)
ہم پنجابی ایسے جنگل کے باسی جہاں شیرحاکم ہیں اورشیروں نے ہمیں الو بنا رکھا ہے۔ہم نے بلدیات میں ووٹ ڈال کر اپنے اندر سے کچھ بوم(چھوٹے اُلو) منتخب کر لئے ہیں اور کچھ چغد(بڑے اُلو)۔نومنتخب اُلوشیروں کے لئے۔ دن رات ۔تُو ہی تُو کا الاپ راگتے ہیں۔انسان خطا کا پتلا ہے اوراپنی خطا دوسرے پر تھوپنا سیاست ہے ہم سارے خطاکار ہیں اوریوں ہم سیاست دان بھی ہیں ۔امریکی کہاوت ہے کہ’’ میں سیاسی لطیفوں پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ کئی لطیفے الیکشن جیت بھی جاتے ہیں‘‘۔مجھے تو یہ کہاوت پاکستانی لگتی ہے۔بلدیاتی ادارے جمہوریت کی ایسی نرسریاں ہیں جہاں سے سیاسی جماعتیں مستقبل کے لیڈرز توڑتی ہیں۔پاکستانی نرسریاں کئی سال سے بندپڑی ہیں۔ |
|
|
پریشان نمائندے کی تخیلاتی تصویر |
|
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک لطیفہ کئی
بار زیر نگا ہ رہا۔ بظاہر تویہ لطیفہ کسی دل جلے کی حالات حاضرہ پر جلی
کُٹی جیساہے۔کیونکہ طعنےمارنا، جملےکسنا اور انگلی اٹھانا بہت ہی آسان ہے۔
پہلے لطیفہ ۔
اردوپڑھاتے ہوئے استادشاگردوں سے:میں رو رہا ہوں۔تم رو رہے ہو۔ہم رو رہے
ہیں۔؟گرائمر کی رو سے بتائیں یہ کونسا زمانہ ہے۔ ؟
بچہ : جناب ! یہ ن لیگ کا زمانہ ہے
واقعی آج کل ن لیگ کا زمانہ ہے۔وفاق میں تیسرا زمانہ جبکہ پنجاب میں تو ن
لیگی زمانہ ٹھہر ہی گیا ہے۔ استاد جی نے گرائمر کا سوال توایک بار ہی پوچھا
تھا لیکن لاہو رچھوڑ کر سارے پنجابیوں کا جواب وہی ہے جو شاگردوں کا
تھا۔میں رو رہا ہوں۔تم رو رہے ہو۔ہم رو رہے ہیں۔؟ جنوبی پنجاب توگردن کچھ
ایسی چل رہی ہے۔’’ میر ےابو رو رہے تھے۔ ہم رو رہے ہیں اورمیرے بچے روئیں
گے‘‘۔ کلاس میں گرائمر کی اچھوتی تشریح جس دل جلے نے کی تھی۔وہ بلدیاتی
الیکشن جیتنے والےاُن چئیرمین یا کونسلرز جیسا تھا جن کے اختیارات حکومت کے
پاس ہیں ۔بالکل ویسے ہی جیسے پیپلزپارٹی کے چئیرمین تو بلاول ہیں لیکن
اختیارات آصف علی زرداری کے پاس ہیں۔ کہتے ہیں کہ پنجابی کی زبان نہ چلتی
ہو تو وہ گونگا ہو گا او ر ہاتھ نہ چلتے ہوں تو بیمار۔ پنجاب میں جیتنے
والے بلدیاتی نمائندے چار ماہ سے بیمار ہیں۔عوامی خدمت وہ اس لئے نہیں کر
رہے کیونکہ خادم اعلی نے یہ ذمہ داری لے رکھی ہے۔تعمیرات کے لئے ایک ٹکا
بھی ملنے کی امیدنہیں کیونکہ اورنج ٹرین چلے گی توبلدیات کی دال گلے گی۔حتی
کہ گلیوں میں خاکروب بھی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔
چوتھی شادی کی خواہش لےکر ایک رنڈوے نے میرج بیورو فون کیا تو انہوں نے
پوچھا آپ کی تین بیویاں کیسے فوت ہوئیں۔؟
رنڈوا:پہلی نے زہر کھا لیااور دوسری بھی زہر کھا کر مر گئی۔
میرج بیورو:اور تیسری ۔؟
رنڈوا:اس کو میں نے ماردیا کیونکہ وہ زہر نہیں کھاتی تھی۔
پنجاب کے حکمرانوں نے تین بار بلدیاتی نمائندوں کو زہر کھلایا ہے لیکن وہ
زندہ ہیں۔2013 میں ن لیگ الیکشن جیتی تو بلدیات کا شور مچ گیا ۔ الیکشن
شیڈول جاری ہوا۔ کا غذات نامزدگی جمع ہوئے لیکن الیکشن نہ ہوئے۔امیدواروں
کو بننا تو’’ ماموں‘‘ چاہیے تھا لیکن الو بن گئے۔ دوبارہ شیڈول آیا ۔
دوبارہ کاغذات جمع ہوئےاور اس بارامیدواربڑا اُلو ( چغد) بن گئے ۔الیکشن
پھر ملتوی۔فیسوں کی مد میں کروڑوں روپے خزانے میں چلے گئے ۔ سرکاری خزانہ
بھی ایسا کشکول ہے جس میں سے چیزیں کبھی باہر نہیں نکلتیں۔تیسری بارالیکشن
سے پہلےنئی حلقہ بندیوں کا شیڈول آگیا ۔ حلقہ بندیاں ہوئیں تویونین کونسلز
کا جغرافیہ ٹو ٹ گیا۔ امیدواروں کے پینل ٹوٹ گئے اور فیسیں واپس ملنے کی
امیدبھی ٹوٹ گئی۔ناامیدی کی امید پر اکتوبر سےدسمبر 2015 تک حکومت نے تین
مرحلوں میں الیکشن کروا دئیے۔ جیتنے والے آج لیگی حکومت میں ’’بلاول ‘‘
بنے بیٹھے ہیں اور ہارنے والے ’’جیالے‘‘۔پنجاب میں مخصوص سیٹوں پر الیکشن
کا شیڈول جاری کرکے چوتھی بار فیس وصول کرلی گئی ہے۔امیدواروں نے پھر شوق
سے زہر مار کیا۔ اچانک آرڈیننس میں ترمیم کر کے الیکشن کے بجائے متناسب
نمائندگی کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے۔امیدوار پھر سے شاگر د کے جواب کی
تعبیر بن گئے۔
آئیٹم سانگ فلم انڈسٹری کا ایسا لازمی جزو ہیں ۔یہ گانے گلیمر میں لتھڑے
ہوتے ہیں۔فلم کو تڑکا لگاتے ہیں ۔ان گانوں میں ہیروئن کے بجائے بھڑکتی
۔تڑپتی خوبروآئیٹم گرل کوسٹیج پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔گانے کے بول تیکھے ہوتے
ہیں اورماڈل ۔مرچی ۔جوبے ہنگم گانے پر اتنا تھرکتی ہے کہ دیکھنے والےکا انگ
انگ خود۔ کوریو گرافی کرنے لگتا ہے۔سینماٹو گرافی میں ایسے ایسے پوز دکھائے
جاتے ہیں جو آواروں کو مزید آوارگی پر قائل کرتے ہیں۔لڑکی کو آئیٹم کہنے
سے قبل میں نے صرف بم کے ساتھ آئیٹم سنا تھا۔اب تو لوگ ماڈل کو ہی آئیٹم
بم کہنے لگے ہیں۔
پنجاب میں ن لیگ کی حکومت پوری فلم ہے۔جس میں صوبائی وزیرقانون وبلدیات
رانا ثنا اللہ آئیٹم ہیرو ہیں۔بلدیاتی فلم انہوں نے ہی ریلیز کی ہے۔ رائٹر
، ڈائریکٹراور پروڈیوسربھی وہی ہیں۔اپوزیشن کے لئے بھڑکتے۔ تڑپتے ڈائیلاگ
بھی وہی بولتے ہیں۔فلم کی نمائش پورے سرکٹ میں کامیابی سے جاری رہی ۔
آئیٹم سانگ نہ ہونے کی وجہ سے بلدیاتی نمائندے رو۔ رہے ہیں۔۔اوررانا ثنا
اللہ ’’ بلدیات ٹو‘‘کی ریلیز میں مصروف ہیں۔کھڑکی توڑ کامیابی کے لئے مخصوص
سیٹوں پر چناو اور بلدیاتی سربراہاں کےانتخاب جیسی خامیوں دور کرنا
پڑیں گی۔ وگرنہ شو فلاپ رہے گا ۔ پارٹ ون سے تو یہ پیغام ملا ہے کہ بلدیاتی
نمائندے بھاڑ میں جائیں۔
ہم پنجابی ایسے جنگل کے باسی جہاں شیرحاکم ہیں اورشیروں نے ہمیں الو بنا
رکھا ہے۔ہم نے بلدیات میں ووٹ ڈال کر اپنے اندر سے کچھ بوم (چھوٹے اُلو)
منتخب کر لئے ہیں اور کچھ چغد(بڑے اُلو)۔نومنتخب اُلوشیروں کے لئے۔ دن رات
۔تُو ہی تُو کا الاپ راگتے ہیں۔شفیق الرحمن لکھتے ہیں کہ ’’اُلو اپنازیادہ
وقت ۔ زیادہ اُلو بننے میں صرف کرتا ہے ۔ اُلو کا محبوب مشغلہ رات بھر
بھیانک آوازیں نکال کر پبلک کو ڈرانا ہے۔۔ وہ جانتا ہے کہ پبلک کیا چاہتی
ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اُلو ۔تُو۔ ہی۔ تُو کا وظیفہ پڑھتا ہے۔ اگر یہ سچ
ہے تو وہ ان خود پسندوں سے ہزار درجہ بہتر ہے جو ہر وقت میں ہی میں کا ورد
کرتے رہتے ہیں۔‘‘ مزید حماقتیں سے اقتباس۔
انسان خطا کا پتلا ہے اوراپنی خطا دوسرے پر تھوپنا سیاست ہے ہم سارے خطاکار
ہیں اوریوں ہم سیاست دان بھی ہیں ۔۔جبکہ امریکی کہاوت ہے کہ’’ میں سیاسی
لطیفوں پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ کئی لطیفے الیکشن جیت بھی جاتے
ہیں‘‘۔مجھے تو یہ کہاوت پاکستانی لگتی ہےکیونکہ سیاسی لطیفے پاکستان میں
بھی جیت جاتے ہیں۔ یہاں برےنمائندوں کوایسے ووٹر منتخب کرتے ہیں جوووٹ نہیں
ڈالتے۔پاکستانی الیکشن ناپسندیدہ امیدواروں میں سےسب سے کم ناپسند آدمی کے
انتخاب کا نام ہے۔بلدیاتی ادارے جمہوریت کی ایسی نرسریاں ہیں جہاں سے سیاسی
جماعتیں مستقبل کے لیڈرز توڑتی ہیں۔پاکستانی نرسریاں کئی سال سے بندپڑی
ہیں۔شائد چئیرمین اور کونسلرزاس سال بھی گرائمر ہی پڑھتے رہ جائیں۔ ممکن ہے
بلدیات پارٹ ٹو اسی سال ریلیز ہو جائے۔؟ لیکن قسمت کی پڑیا اورنج ٹرین کی
ریلیز سے مشروط ہے۔
آپ کی شادی اسی سال متوقع ہے۔نجومی نے لڑکی سے کہا۔’’ہاں میرے لئے ماموں
زاد کا رشتہ بھی ہے اورچچا زاد کا بھی ۔ جانے کون خوش قسمت ہوگا۔؟
نجومی :آپ کی شادی چچا زادسے ہوگی اور ماموں زاد خوش قسمت ہوگا۔ |
|