جبر جنسی پاکستان میں،
(فاروق سعید قریشی, Karachi)
آج مورخہ 12 تاریخ ہے۔ اتوار کا دن ، جسکا
مظلب ہے دیر تک سوتے رہنے کا دن۔ آج کے دن وہ لوگ جو دفتروں میں کام کرتے
ہیں، اتوار کو ایک نعمت سمجھتے ہیں۔ اور تقریبا ادھے دن تک سوتے رہتے ہیں۔
اور مجھ جیسے بے کار لوگ اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے سکوں سےاپنے کچھ
کام نمٹا لیتے ہیں۔ اسلئے میں بھی آج کے دن کو غنیمت جانتے ہوئے کچھ لکھنے
کا ارادے سے اپنے کمرے میں آکر بیٹھ گیا ہوں، ارادہ تو کچھ اور لکھنے کا
تھا، کہ گزشتہ تین روز قبل فیس بک پر ایک پوسٹ نظر سے گزری، عنوان تھا۔End
Zaberjinsi پہلے تو پریشان ہوا،کہ یہ کون سےنیا لفظ ایجاد ہوگیا، اور اسکا
مطلب کیا ہے۔ تفصیلات پڑھیں تو دن میں تارے نظر آگئے، اور مجھے " چینل ون"
کا مشہور پروگرام اور ٹاک شو، " ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ " کا ایک پروگرام
یاد گیا، جو انہوں نے غآلباََ گزشتہ مہینے کیا تھا، یاد آگیا، جسمیں انہوں
نے ایک خبر پر تبصرہ کیا تھا، کہ کراچی میں کوئی خاتون ہیں ، پڑھی لکھی اور
آزاد خیال ہیں، اور جسم فروشی کے پیشہ سے کئی سال سے وابستہ ہیں، آجکل ایک
فارن ایڈڈ این جی او چلا رہی ہیں، اور کافی اثر رسوخ والی خاتون ہیں۔ انہوں
نے کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک تین روزہ سیمینار منعقد کروایا
ہے۔ جس میں کراچی کی مشہور کال گرلز کے علاوہ جسم فروشی سے وابستہ خواتین
کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ہے، اس پروگرام میں ڈاکٹروں نے سیر حاصل
معلومات ، اور جسمانی طور ہر ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا ہے اور روشنی
ڈالی ہے۔ اس سیمینار میں شہر اور حکومت کے عمائیدین اور افسران، اور سیاسی
نمائندوں نے بھی شرکت کی ہے۔ اور اس میں دوسری ایسی این جی اوز کے نمائندوں
میں بھی شرکت کی ہے، اور اختتامی تقریب سے اس سیمینار کی آرگنائزر نے حکومت
سے مطابہ کیا ہے کہ اسمبلی میں ایک ایسا بل لایا جائے، جس سے اس جنسی اور
جسم فروشی کے کاروبار سے وابستہ خواتین کو تحفظ حاصل ہو۔ او ر انہوں نے یہ
بھی اعلان کیا کہ ایسے ہی سیمینار کو لاہور اور اسلام آباد میں بھی
آرگنائیز کریں گی۔
اس بل اور قرارداد کو سیمینار میں موجود ایک بڑی تعداد نے اون کیا ہے، مزے
کی بات یہ ہے، کہ اس پروگرام کے بعد لاہور اسمبلی کے خواتیں کے حق میں ایک
ایسا مکروہ بل پاس کیا ہے، جسمیں خواتین کو بے لگام اور من مانی کرنے کی
پوری اجازت دی گئی ہے، اور اسکے ایک ہفتہ بعد لاہور ، اسلام آباد، کراچی
میں " وومن ڈے " کے نام سے ایک پروگرام بہت ساری تقاریب ہوئیں، جس میں سب
سے زیادہ پسندیدہ ، تقریب ، زبر جنسی کا تھا، جس کا اہتمام بھارت کی ایک ،
این جی او نے کیا، جسکا نام ہے، ناری بچاؤ تحریک ۔۔۔ میڈیا نے اور اخبارات
کے اس خبر اور تقاصیل کو بریکنگ نیوز کے طور ہر پیش کیا ہے۔اور نیٹ پر بھی
اسکی بھر پور تشہیر کی گئی ہے۔ فیس بک پر اس خاتوں نے اسکی کی بھرپور تشہیر
کی ہے، اور اس پروگرام کی تصاویر شایع کی ہیں۔
جب میں نے ان پوسٹس پر کمنٹس کئے ، اور قرآن اور سنت کی روشنی میں ، اسلام
میں عورت کی حرمت اور تقدس، حیاء ، حجاب اور پردہ کی بات کی اور یہ سوال
کیا کہ زبرجنسی کوتو سب ہی جرم سمجھتے ہیں، اور وہ بڑے بدبخت لوگ ہیں ، جو
ایسی حرکتیں کرتے ہیں، لیکن یہ بتائیں کہ اگر عورت خود مرد کو دعوت گناہ دے
اور بہ رضائ رغبت زناء کرے ، اسکو آپ کیا کہیں گی۔
اور اگر عورتیں جس طرح کا لباس زیب تن کررہی ہیں، جس میں وہ اپنے جسموں کی
نمائش کرتی نظر آتی ہیں، اور انپر اچھی بری نگاہ پڑی ہے، اسکے بارے میں آپ
کیا کہیں گی، اور آپ جو یہ زبر جنسی کے تحریک چلا رہی ہیں، یہ تو بزات خود
دعوت گناہ ہے۔ دوسرا یہ کہ ہندو ناری تو آجکل ایسے مسائل سے دوچار ہے، اور
وہاں اس چیز کو برا نہیں سمجھا جارہا، جبکہ پاکستان میں شاز نادر ہی اسطرح
کے واقعات ہوئے ہوں، اور اگر ہونے بھی ہیں ، تو اسپر عوامی رد عمل بھی سخت
ہوا ہے سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ آپ مسلمان عورت کے تقدس کو ہندو ناری سے کیوں
موازنہ کرنا چاہتی ہیں، جبکہ اسلامی معاشرہ میں اور اسلامی قوانیں میں زانی
مرد ہو یا عورت دونوں کو سنگسار کرنے کی سزاء ہے،۔
میری ان باتوں کو شاید ہو ہضم نہ کرسکیں اور، میری سائیڈ پر پہلے ناپسندیدہ
انطاظ سے مجھے نوازا، اور میری سائیڈ بند کروانے کی دھمکیان دین اور خطرناک
تنائج کو واویلا بھی کیا، تشویش اسبات کی ہے، کہ ہمارا معاشرے کی پڑھی لکھی
خواتیں، اور نوجوان بچیان انکے لیٹریچر کو لوگوں میں تقسیم بھی کررہی ہیں،
اور آزادی نسوان کے نام پر قبول بھی کر رہی ہیں، مجھے یقین ہے، جسطرح اس
عنوان پر پوسٹس مجھے ارسال کی گئی ہیں، نہ جانے کتنے مرد اور خواتیں کو بھی
پہنچی ہونگی۔ کیونکہ آجکل انٹر نیٹ ہر پڑھے لکھے گھر میں موجود ہے، جسے
لڑکے اور لڑکیان استعمال کرتے ہیں، اور اس سے متعثر ہورہے ہونگے،۔
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے، جسمٰن کرپشن پہلے اداروں ، اور حکومت
تک محدود تھی، پھر آزاد میڈیا نے ترقی کے نام پر اور ہمارے ازلی دشمن بھارت
اور یہود و نصارا، جس طرح اسے میڈیا کے ذریعہ عام کیا ہے۔ اور بے حیائی کا
پرچار کیا ہے، وہ مجھے اور آپ سبکو معلوم ہے، ہمارا دشمن For Gemeratio war
کے ذریعہ ہمارے ملک کو اخلاقی ، معاشی، اقتصادی ، اور سماجی طور پر جسطرح
حملے کرنے پر لگا ہوا ہے، کبھی ویلینٹائین ڈے، کبھی مڈر ڈے، اور اب وومن ڈے
کے نام پر تباہ و برباد کرنا چہتا ہے۔۔ اور ہم جانتے بوجھتے دشمنوں کی
مکروہ سازش کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں، اور خاموش ہیں۔ اس سے تو اسبات کا
اندازہ ہوتا ہے، کہ ہم اندرونی طور پر اس حد تک معذور ہوچکے ہیں، کہ نہ
زبان ہلا سکتے ہیں، اور نہ آواز بلند کرسکتے
ہیں۔اور ایمان کے کمزور ترین درجہ سے بھی نیچے آچکے ہیں۔ ہماری قومی حمیت،
غیرت، عزت کو لقوہ ہوچکا ہے، دراصل ہمارے خون کی حرارت دم توڑ چکی ہے۔ اور
ہم ایک اللہ عزوجل کو ایک ایسے عذاب بھیجنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ جو ہماری
نسلوں ، ہمارے بچون کو تباہ برباد کردے گا۔ اور جبر جنسی / رضا جنسی بنکر
ہمارے گھرون میں داخل ہوچکی ہوگی۔ اور ہم اسے بھی اسی طرح قبول کرلیں گے،
جیسے آج ہم ہر بات پر کہتے ہیں،، ( کیا کریں جی جیسی اللہ کی مرضی ) یار
رکھیں ایک نسل وہ تھی جس نے پاکستان کی خاطر آگ کا دریا پار کیا تھا،۔ اس
وقت ہم بچے تھے، آج ہماری نسل کی بھی نسل آرہی ہے۔ اور ہم قصور وار ہیں ان
دونوں نسلوں کے، کیونکہ نہ تو یم اچھے دادا بن سکے ہیں اور نہ ہی اچھے
نانا،، جو اپنے بچون اور انکے بچون کو اپنے اسلاف کی کہانیاں سنایا کرتے ،
اور انہین بتاتے ، آج کی دونوں نسلیں، بھارتی اداکاروں، اور اداکاراؤن کی
تقلید میں لگے ہوئے ہیں، آج ہر لڑکی گھر سے نکل جانے کو تیار ہے، آج ہر
لڑکا ہم سے فرار چاہتا ہے، کیونکہ جو کردار ہمیں ادا کرنا تھا، وہ نہیں
کیا، نہ ہم اپنی اولادون کو ایک اچھا مسلمان بنا سکے، نہ اچھا انسان، اور
نہ ہی ایک اچھا بیٹا، اور یہی وہ ورثہ ہے جو وہ آگے منتقل کرینگے،
میں آج 65 سال کا ہوں، لیکں میں زندہ ہوں، اور اتنا حوصلہ اور ہمت رکھتا
ہوں، بیشک میں ایمان کے کمزور ترین درجہ پر سہی، لیکن مجھے وہ ننھی چڑیا کی
کہانی آج بھی یاد ہے، جس نے سمندر سے ٹکر لی تھی، اور سمندر کو دھمکی دی
تھی، کہ میرا بچہ واپس کردے، ورنہ میں تجھے ختم کردونگی، اور سمندر نے اسکا
بچہ اسے واہس کردیا تھا،،، کسی نے پوچھا، کہ تم اتنے بڑے اور عظیم الشان ہو
، ایک ننھی چڑیا کی دھمکی سے ڈر گئے،،، اور سمندر نے جواب دیا تھا، نہیں
میں اس سے نہیں ڈرا ، بلکہ اسکی اندر کی ممتا کے عزم سے ڈر گیا ۔ اور اسکی
خود اعتمادی سے۔ آج اگر ہم اپنی حالت دیکھیں تو ہم میں اس چڑیا جتنا حوصلہ
اور عزم باقی نہین رہ گیا۔۔
آج بھی ہم پاکستان کی فرسٹ جنریشن بنکر عہد کریں ، کہ اپنی نسلوں کے لئے
کچھ کرنا ہے، تو بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اور کر گزرین گے، ہمیں اپنی بیماری ،
معذوری ، کمزوری کی دلدل سے نکلنا ہوگا، اور کوشش کرنی ہوگی، لیکن چڑیا
والے عزم کے ساتھ اور ارادے کے ساتھ،ہمیں اپنی نسلوں کے تحفظ کے لئےکچھ
کرنا ہوگا جو لکھنا جانتے ہیں تو لکھنا ہوگا سچ بتانا ہوگا، انہیں اپنے
بزرگون کے کہانیاں سنا کر، تقریر سے، تحریر سے، سڑکوں کے کنارے کتبے لیکر،
اپنی قوم کو اپنے آستین کے سانپوں کے بارے میں۔ انکی غیرتوں کو جگانا ہوگا،
ان میں اسلام کے بارے میں اور انکے کردار کے بارے میں۔۔۔ کیونکہ ہمارا اپنا
حال یہ ہیں، بقول علامہ اقبال ؒ؛۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زباں سے کہہ تو دیا لا الہہٰ
الاللہ ۔۔۔۔۔ دل و نگا ہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔ |
|