منڈیاں کمپلیکس دو سوار۔۔۔سننا۔۔۔ہمارا شوق یا مجبوری
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
کبھی آپ کو اتفاق ہو۔۔۔ سوزوکی میں بیٹھنے
کا ۔۔۔اور۔۔۔پھر۔۔۔جب آپ کو زلزلے نما جھٹکے لگنے شروع ہو جائیں اور ساتھ
میں ایک ہی آواز آرہی ہو ۔۔۔ منڈیاں کمپلیکس دوسوار۔۔۔تو آپ سمجھ جاؤ کہ آپ
ایبٹ آباد کی سوزوکی میں سفر کررہے ہو ۔ جو راستے میں اس قدر بریکیں لگاتی
ہے کہ انسان کا کھایا پیا سب کچھ ہضم ہو جاتا ہے۔ ۔۔ ہمارے ڈاکٹر صاحبان و
حکیم حضرات اگر ان سوزکیوں میں سفر کر لیں تو ان کو ہاضمہ و معدہ کے علاج
کا مفت اور آسان طریقہ ِعلاج مل جائے مگر شاید اُن کو بھی اس بات کا اندازہ
ہے تب ہی وہ بذات ِ خود منڈیاں ایبٹ آباد کی سوزوکی میں سفر نہیں
کرتے۔۔۔مگر۔۔۔اگرایبٹ آباد سے کمپلیکس تک کا سفر مشہور سائنس دان نیوٹن
کرتا تو وہ اس کے اوپر بھی کوئی فارمولا بناتا تو تب ہی ڈاکٹر زصاحبان کے
ساتھ سب ہی لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ سفر سوزوکی میں ہو یا اپنی گاڑی میں
۔۔۔ایبٹ آباد سے ایوب میڈیکل کمپلیکس کا سفر اس کی زندگی کا یادگا ر سفر بن
جاتا اور اپنے شاگردوں اور اپنی محافل میں ہر لمحہ وہ اسی سفر کے تبصرے
کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس یادگاری سفر کو یادگار بنانے کے لیے میں سب ہی با
اثر افراد کا شکرگزار ہوں کہ ہم کو انھوں نے کم از کم اتنا موقع تو دیا کہ
ہم اسی سفر کو اپنے لیے دلچسپی کا ذریعہ بنا سکتے ہیں ویسے بھی ہمارے پورے
ایبٹ آباد میں باعزت لوگوں کے لیے کوئی بھی مخصوص پارک یا تفریح گاہ نہیں
اور نہ ہی ان صاحبا ن کی توجہ اس طرف کو جاتی ہے خیر پارک والا تبصرہ تو
علیحدہ ایک موضو ع ہے ۔ ابھی میں بات کر رہا تھا ایبٹ آباد سے کمپلیکس کا
سفر ۔۔۔۔ چناروں کا شہر۔۔۔محبت و دل والوں کا شہر۔۔۔شعبہ تعلیم و ہنر کا
شہر۔۔۔با ذوق و با ادب محبِ الوطن لوگوں کا شہر ۔۔۔شہر ِ ایبٹ آباد۔۔۔ اس
شہر کی خوبصورتی اور اس خوبصورتی پر لگی نظر ِ بد ہماری سڑکیں۔۔۔جو کہ اس
شہر نایاب کو انتہائی مشکلات سے دوچار کرنے میں اہم کردار بڑی خوبصورتی کے
ساتھ ادا کر رہی ہیں۔ ایبٹ آباد جو کہ ایک بہت وسیع و عریض علاقہ ہے اور اس
کے ساتھ لا محدود گاؤں منسلک ہیں یہ ہی نہیں بلکہ ڈسٹرک کوہستان،
بٹگرام،مانسہرہ اور ڈسٹرک ہری پورکے عوام الناس اگرچہ وہ ذاتی کام ہو یا کہ
دفتری، عدالتی کام ہو یا علاج معالجہ کے مطلق امور، خرید و فروخت ہو یا
سہولیات ِ تعلیم سے آگاہی، پرنٹ میڈیا سے متعلق ہو یا سیر و سیاح سب ہی
ایبٹ آباد شہر کا رخ کرتے ہیں کیونکہ اس شہر نایاب میں زندگی کی تمام
سہولتیں موجو د ہے اور یہ ہزارہ ڈویژن کے اندر دل کی حیثیت بھی رکھتا
ہے۔مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ شہر ایبٹ آباد کو آتے تو سب ہی ہیں مگر
شہر کے اندر دن بدن بڑھتی ہوئی ٹریفک ، ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑ کیں ، روڈ کے
اوپر جگہ جگہ پارکنگ، پارکنگ پر موجود ریڑھی بان اور دکانداروں کے راج کی
طرف توجہ کوئی نہیں دیتا ۔۔۔نہ جانے کیوں۔۔۔؟؟؟ شاید ایبٹ آبادکو میٹرو اور
اونج ٹرین سے الرجی ہے ۔۔۔ارے بھائی میٹر و یا اورنج ٹرین جیسی سہولیات تو
درکنا ر ہمارے اس روڈ کو کُشادہ تو کر دو۔۔۔ !مگر کرے گا کون۔۔۔؟؟؟ کس کی
توجہ اس طرف جائے گئی۔۔۔؟؟؟ جب کبھی خدا نخواستہ کوئی بھی حادثہ ہزارہ
ڈویژن کے کسی بھی علاقے میں کسی بھی وقت ، کسی کے ساتھ بھی درپیش آ جائے تو
اکثر مریض ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی ٹریفک جام کی بدولت راستے میں ہی اپنے
خالق حقیقی کو جاملتے ہیں۔ اور بہت کم اور خو ش قسمت ہوتے ہیں وہ مریض جن
کو جس وقت ایبٹ آباد لایا جارہا تھا اس وقت ٹریفک جام نہیں تھی ۔ ۔۔ لمحہ
فکریہ تو یہ ہوتا ہیکہ جب لوگ اپنے مریض کو ایوب میڈیکل کمپلیکس لا رہے
ہوتے ہیں تو وہ اس کی صحت یابی سے زیادہ ٹریفک کے جام نہ ہونے کی دعا کر
رہے ہوتے ہیں۔ یہ تو صرف صحت کی سہولیات سے متعلق میں نے بیان کیا ہے جس کے
تجربے سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہوں ۔ کیونکہ وہ لمحہ انتہائی درد ناک
لمحہ ہوتا ہے اور انسان اس کیفیت میں ہوتا ہے کہ نہ جانے کیا ہو گا۔۔۔؟؟اسکا
مطلب یہ نہیں کہ بے جا ٹریفک کا مسلۂ صرف مریضوں اور ان کے لواحقین کو ہی
ہے، بلکہ یہ وہ زہر قاتل ہے کہ جو ہر فرد کو متاثر کر رہا ہے۔۔۔ اور یہ ایک
ایسا لاعلاج کینسر میں تبدیل ہو جائے اس سے قبل ہم کو اسکے تدارک کے اسباب
پیدا کرنے ہونگے کیونکہ کینسر سے متاثر حصے کا پھر علاج ناممکن ہو جاتا ہے۔ |
|