بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
ایمان کے بعد سب سے پہلا حکم جو انسان کی زندگی سے متعلق ہے وہ نماز ہے، جس
میں خالق ورازق کائنات سے مناجات ہوتی ہے، جو اﷲ تعالیٰ سے مانگنے کا اہم
ذریعہ ہے۔ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایمان کے علاوہ صرف نماز کی فرضیت
مکہ مکرمہ میں ہوئی، باقی تقریباً سارے احکام مدینہ منورہ میں نازل ہوئے۔
اﷲ تعالیٰ نے تمام احکام جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ حضور اکرم ﷺ پر دنیا
میں نازل فرمائے مگر نماز ایسا مہتم بالشان عمل ہے کہ اس کی فرضیت کا تحفہ
اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو بڑے اعزاز کے ساتھ آسمانوں کے اوپر بلاکر
معراج کی رات میں عطا فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب عمل نماز کو
اس کے وقت پر ادا کرنا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی آخری وصیت بھی نماز کے اہتمام کے
متعلق تھی حالانکہ اس وقت آپ ﷺ کی زبان مبارک سے الفاظ بھی صحیح طریقہ سے
نہیں نکل رہے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے جو کتاب کل قیامت تک آنے والے انسانوں کی
رہنمائی کے لئے نازل فرمائی ہے اس میں نماز کے اہتمام کی بہت زیادہ تاکید
فرمائی ہے، چنانچہ اس پاک کلام میں تقریباً ۷۰۰ جگہ نماز کا ذکر ملتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مؤمنین کی صفات میں نماز کی وقت پر ادائیگی اور
اس میں خشوع وخضوع کو خاص طور پر ذکر فرمایا ہے، بلکہ جنت الفردوس میں دخول
کا خاص سبب نماز کے اہتمام کو ذکر فرمایا ہے۔
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت
سامنے آئے تو مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس پر صبر کرے اور نماز کا خاص اہتمام
کرکے اﷲ تعالیٰ سے تعلق قائم کرے۔ نبی اکرم ﷺ پانچ فرض نمازوں کے علاوہ سنن
مؤکدہ وسنن غیر مؤکدہ، نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء اور
تحیۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے۔ حضور اکرم ﷺ بھی ہر پریشانی کے وقت نماز
کی طرف متوجـہ ہوتے تھے ۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے
جاتے۔ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ سفر
سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔
نماز ایسی عبادت ہے جو روزانہ پابندی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے ان گھروں (یعنی
مسجدوں) میں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے جو زمین کے تمام حصوں میں اﷲ
تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں اور جوآسمان والوں کے لئے ایسے ہی چمکتے
ہیں جیسا زمین والوں کے لئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ اندھیروں میں بکثرت
ان مساجد کو جانے والوں کو نبی رحمت ﷺکی زبانی قیامت کے دن پورے پورے نور
کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور ان کے ایماندار ہونے کی گواہی دی گئی ہے۔ نماز
ہی ایسی عبادت ہے کہ ہر نماز کو قائم کرنے سے قبل اس کی ندا (اذان) لگائی
جاتی ہے اور پھر ایک مرتبہ مزید اقامت کہہ کر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اس
وقت صرف نماز کی ادائیگی مطلوب ہے تاکہ ہر شخص اپنی مصروفیات چھوڑکر اس اہم
عبادت میں لگ جائے۔
نماز ہی ایسی عبادت ہے کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے پچپن سے ہی اس کے اہتمام
کرنے کی تعلیم دی ہے چنانچہ والدین کو فرمایا کہ ۷ سال کی عمر میں اولاد کو
نماز کا حکم کریں اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ان کی پٹائی کریں
تاکہ بلوغ کے بعد ایک نماز بھی فوت نہ ہو کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات میں
نماز کے فوت ہونے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں بلکہ بعض احادیث میں کفر تک
کی وعید وارد ہوئی ہے۔
نماز ہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں زکاۃ کی طرح مال کی شرط نہیں، روزہ کی
طرح وقت معین یعنی ماہ رمضان کی شرط نہیں، نیز حج کی طرح استطاعت کی شرط
نہیں بلکہ نماز کی ادائیگی ہر وقت مطلوب ہے خواہ مرد ہو یا عورت، غریب ہو
یا مالدار، صحت مند ہو یابیمار، طاقت ور ہو یا کمزور، بوڑھا ہو یا نوجوان،
مسافر ہو یا مقیم، بادشاہ ہو یا غلام، حالت امن ہو یا حالت خوف، خوشی ہو یا
غم، گرمی ہو یا سردی، حتی کہ جہاد وقتال کے عین موقعہ پر میدان جنگ میں بھی
یہ فرض معاف نہیں ہوتاہے۔
احادیث صحیحہ میں وارد حضور اکرم ﷺکے ارشادات کے پیش نظر پوری امت مسلمہ کا
اتفاق ہے کہ کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کی حساب لیا جائے گا۔ حضور
اکرم ﷺ نے نماز کے اہتمام پر آخرت کی کامیابی کا وعدہ کیا ہے مگر ضروری ہے
کہ نماز کو ان شرائط وآداب کے ساتھ ادا کیا جائے جو نبی اکرمﷺ کی تعلیمات
میں موجود ہیں۔ نماز ہی ایسی عبادت ہے جس کے متعلق نبی اکرم ﷺنے ارشاد
فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی ادائیگی میں ہے۔ نماز انسان کو بے
حیائی اور گناہوں سے روکتی ہے۔ اس عظیم عبادت کے لوازمات مثلاً وضو وغسل
ومسواک، مسجد کی طرف جانا وغیرہ خود مستقل عبادت ہیں جن کی شریعت اسلامیہ
میں خاص اہمیت وفضیلت ہے۔ یہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں اﷲ تعالیٰ کے کلام
کی تلاوت فرض ہے۔ یہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں اﷲ تعالیٰ کے سامنے سجدہ
کرنا فرض ہے اور نماز کے دوران سجدہ کی حالت میں بندہ اپنے رب کے سب سے
زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ متفق ہے کہ ہر بالغ مردو عورت کو
نمازکا خاص اہتمام کرنا چاہئے کہ ایک نماز بھی فوت نہ ہو۔ خواتین کے شرعی
عذر کے علاوہ کسی بھی شخص پر نماز معاف نہیں ہے۔ اگر کھڑے ہوکر نماز ادا
نہیں کرسکتا ہے توبیٹھ کر ادا کرے گا، اگر بیٹھ کر بھی ادا نہیں کرسکتا ہے
تو لیٹ کر ہی ادا کرے گا،حتی کہ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ اشارہ سے
بھی نماز پڑھ سکتا ہے تو اس کو پڑھنی چاہئے، یعنی یہ خیال کرے کہ میں اب
رکوع میں ہوں اور اب میں سجدہ میں ہوں اور دل ہی دل میں جو نماز میں پڑھا
جاتا ہے، اسے پڑھتا رہے۔ اگر قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز نہیں پڑھ سکتا ہے تو
جس طرف ممکن ہو رخ کرکے نماز پڑھ لے۔ اگر کسی شخص کی کوئی نماز چھوٹ جائے
تو اس کی قضا کرنا لازم اور ضروری ہے۔ مگر انتہائی افسوس اور فکر کی بات ہے
کہ امت مسلمہ کی اچھی خاصی تعداد اس اہم فریضہ کو ادا کرنے کے لئے تیار
نہیں ہے، جبکہ قرآن وحدیث میں نماز نہ پڑھنے والوں یا نماز میں کاہلی اور
سستی کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حتی کہ بعض علماء نے
نماز چھوڑنے والوں کو کافر تک کہا ہے۔
قرآن وحدیث کے چند وہ دلائل پیش خدمت ہیں جن میں نماز نہ پڑھنے والوں یا
نماز میں سستی وکاہلی کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، نیز
قرآن وحدیث کی روشنی میں چاروں ائمہ کی آراء ان کے مذہب کی معتبر کتابوں کے
حوالے کے ساتھ ذکر ہیں۔
نماز کو چھوڑنے یا اس میں سستی کرنے پر خالق کائنات کے ارشادات:
٭ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انھوں نے نماز ضائع کردی اور
نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، وہ غی میں ڈالے جائیں گے۔ (سورہ مریم آیت
۵۹)۔ نمازنہ پڑھنے والوں کو جہنم کی انتہائی گہری اور شدید گرم وادی غی میں
ڈالا جائے گا،جہاں خون اور پیپ بہتا ہے۔ (تمام مشہور ومعروف تفاسیر)
٭ تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے، نہ
مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ (سورۂ المدثر ۴۲ و۴۴) اہل جنت، جنت کے
بالاخانوں میں بیٹھے جہنمیوں سے سوال کریں گے کہ کس وجـہ سے تمہیں جہنم میں
ڈالا گیا؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں نہ نماز پڑھتے تھے اور نہ ہی
مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ غور فرمائیں کہ جہنمی لوگوں نے جہنم میں ڈالے
جانے کی سب سے پہلی وجـہ نماز نہ پڑھنا بتلایا کیونکہ نماز ایمان کے بعد
اسلام کا اہم اور بنیادی رکن ہے جوہر مسلمان کے ذمہ ہے۔(تمام مشہور ومعروف
تفاسیر) ٭ ان نمازیوں کے لئے خرابی (اور ویل نامی حہنم کی جگہ)ہے جو نماز
سے غافل ہیں۔ (سورۂ الماعون۴ ، ۵) اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو نماز یا تو
پڑھتے ہی نہیں، یا پہلے پڑھتے رہے ہیں پھر سست ہوگئے یا جب جی چاہتا ہے پڑھ
لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنالیتے ہیں یہ سارے مفہوم اس میں
آجاتے ہیں اس لئے نماز کی مذکورہ ساری کوتاہیوں سے بچنا چاہئے۔ (تمام مشہور
ومعروف تفاسیر) ٭ وہ (منافقین) کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور بُرے دل سے
ہی خرچ کرتے ہیں۔ (سورۂ التوبہ ۵۴) اس آیت میں خالق کائنات نے نماز میں
کاہلی یاسستی کرنے والوں کو منافقین میں شمار کیا ہے، حضور اکرم ﷺ نے بھی
متعدد مرتبہ نماز میں کاہلی کرنے والوں کو منافقین میں شمار کیا ہے۔ نیز
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ منافقوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔
اﷲ ہماری حفاظت فرمائے۔
نماز کو چھوڑنے یا اس میں سستی کرنے پر محسن انسانیت ﷺ کے ارشادات:
٭ ہمارے (اہل ایمان) اور ان کے (اہل کفر) درمیان فرق کرنے والی چیز نماز
ہے، لہذا جس نے نماز چھوڑدی اس نے کفر کیا۔ (مسند احمد، ابوداود، نسائی،
ترمذی، ابن ماجہ) نماز کا چھوڑنا مسلمان کو کفر وشرک تک پہنچانے والا ہے۔
(صحیح مسلم) جان کر نماز نہ چھوڑو، جو جان بوجھ کر نماز چھوڑدے وہ مذہب سے
نکل جاتاہے۔ (طبرانی) اسلام میں اس شخص کا کوئی بھی حصہ نہیں جو نماز نہیں
پڑھتا۔ (بزار) جو شخص قرآن پاک یاد کرکے بھلا دیتا ہے اورجو فرض نماز چھوڑ
کر سوتا رہتا ہے اس کا سر (قیامت کے دن) پتھر سے کچلا جائے گا۔ (بخاری) میں
چاہتا ہوں کہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں، پھر جمعہ نہ پڑھنے والوں کو
ان کے گھروں سمیت جلا ڈالوں۔ (مسلم) جس شخص نے تین جمعہ غفلت کی وجـہ سے
چھوڑ دئے، اﷲ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتے ہیں۔ (نسائی، ترمذی) جو شخص
نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے
پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ
ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور
ہوگا، نہ(اس کے پورے ایماندار ہونے کی) کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا
کوئی ذریعہ ہوگا۔ اور وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف
کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، مسند احمد، طبرانی)
سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمینؒنے اپنی کتاب
﴿رسالۃ فی حکم تارک الصلاۃ﴾ میں علماء کی مختلف رائیں تحریر کی ہیں، جو حسب
ذیل ہیں : حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کافر ہے اور
ملتِ اسلامیہ سے نکل جاتا ہے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اگر توبہ کرکے نماز کی
پابندی نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام
شافعی ؒ کہتے ہیں کہ نمازوں کو چھوڑنے والا کافر تو نہیں، البتہ اس کو قتل
کیا جائے گا۔حضرت امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے
گا، البتہ حاکم وقت اس کو جیل میں ڈال دے گا۔ اور وہ جیل ہی میں رہے گا
یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز شروع کردے یا پھر وہیں مرجائے۔ قرآن وحدیث کی
روشنی میں چاروں ائمہ کی آراء کو بے شمار علماء کرام نے تحریر کیا ہے، میں
اختصار کے مدنظر صرف دو دو کتابوں کے حوالے ذکر کررہا ہوں اور یہ ایسے جلیل
القدر فقہاء وعلماء ہیں جن کی علمی خدمات سے کل قیامت تک استفادہ کیا جاتا
رہے گا، ان شاء اﷲ۔ مذہب امام ابوحنیفہؒ: (حاشیہ ابن عابدین ۳۵۲/۱۔۳۵۳،
احکام القرآن للجصات ۸۱/۳۔۸۳)، مذہب امام مالکؒ: (مواہیب الجلیل ۴۲۰/۱۔۴۲۱،
الخرشی علی خلیل ۲۲۷/۱۔۲۲۸)، مذہب امام شافعیؒ: (المجموع للنووی ۱۷/۳۔۱۹،
روضۃ الطالبین ۱۴۶/۲)، مذہب امام احمد بن حنبلؒ: (المغنی لابن قدامہ ۴۴۴/۲،
المبدع لابن مفلح ۳۰۵/۱ ۔ ۳۰۷)۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اگر بندہ سچے دل سے توبہ
کرے تو اﷲ تعالیٰ دنیا میں بڑے بڑے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ سورۃ الزمر
آیت نمبر ۵۳ میں فرمان الٰہی ہے: کہہ دو کہ ا ے میرے وہ بندو! جنہوں نے
اپنی جانوں پر زیادتی کررکھی ہے (یعنی گناہ کر رکھے ہیں) اﷲ کی رحمت سے
مایوس نہ ہوں۔ یقین جانو اﷲ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ
بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ اسی طرح سورۃ النساء آیت نمبر ۴۸ میں اﷲ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے: بیشک اﷲ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو
شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لئے چاہتا ہے معاف
کردیتا ہے۔ آخرت میں اﷲ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرے گا یا نہیں ، ہمیں معلوم
نہیں، لہٰذا ہمیں دنیا میں رہ کر گناہوں سے بچنا چاہئے کہ نہ معلوم کونسا
گناہ ہمیں جہنم میں لے جانے کا سبب بن جائے، اور اگر کوئی گناہ ہوجائے تو
ہمیں فوراً اﷲ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا چاہئے۔
لہذا اگر ہم نماز کی ادائیگی میں کاہلی وسستی کررہے ہیں تو آج بلکہ ابھی
توبہ کرکے نماز کا اہتمام شروع کریں، جو نمازیں چھوٹ گئی ہیں توبہ واستغفار
کے ساتھ ان کی قضا کریں۔ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ
سوائے اﷲ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چنانچہ بعض بچپن میں، بعض
عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو
لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن
انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ
ہم افسوس کرنے یا خون کے آنسو بہانے سے قبل اس دنیاوی فانی زندگی میں ہی
اپنے مولاکو راضی کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری روح ہمارے بدن سے اس حال
میں جدا ہو کہ ہمارا خالق ہم سے راضی ہو۔ آج ہم صرف فانی زندگی کے عارضی
مقاصد کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزارتے ہیں اور دنیاوی زندگی کے عیش
وآرام اور وقتی عزت کے لئے جد وجہد کرتے ہیں، حالانکہ اﷲ کا فرمان ہے: اور
یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی
نہیں۔ (سورۂ آل عمران ۱۸۵)
نماز پڑھئے قبل اس کے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نماز کا
اہتمام کرنے والا بنائے۔ |