پاکستان کے ھیرو اور فرعون

لکھاری کا کام صرف نشاندھی کرنا، توجہ دلانا ھوتاھے۔دو مثالیں پیش ھیں۔ لاھور میں منصورہ کے پاس ایک بنک کی برانچ میں مجھے اکثر جانا پڑتا تھا اور وھاں تقریبا ھمیشہ ایک جیسا ھی ماحول پایا جاتا تھا۔ اندر داخل ھوتے ھی بائیں ھاتھ ایک محفل نظر آتی،جس کے درمیان ایک جوان شمع محفل بن کرلیڈری کر رھا ھوتا۔ سروس کاوئنٹر پر سسٹم خراب ھے کی گردان روزانہ کا معمول تھی۔ اکثر سٹاف فون پرگپ شپ میں مصروف ھوتا اور ایک جونئیر بندہ سب بندوں کو ڈیل کرتا رھتا،رقمجمع کروا کر رسید لینے کیلئےلمبا انتظار کرنا پڑتا اور کاوئنٹر سے رقم لینا ایک الگ تکلیف دہ مسئلہ تھا کیونکہ سسٹم خراب رھتا تھا۔ خراب یا بند ائیر کنڈیشنر کی وجہ سے یہ سٹاف خود پنکھوں کے آگے بیٹھا رھتا اور کسٹمرز ایک پنکھے کے آگے پسینے میں نہاتے رھتے- نہ جانےاس بنک میں ان حالات کی کیا وجہ تھی۔ مینجر کے کمرے کی طرف نظریں اٹھتی تو جناب اکثر غائب ھی پائے جاتے تھے اور اگر ھوتے تو فون پر مصروف پائے جاتے۔ باقی تفصیل چھوڑ دیتے ھیں۔

لیکن ایک دن ایسا آیا کہ بنک سٹاف میں ایک خاتون آفیسر کا اضافہ ھو گیا اور میں جب بھی بنک جاتا مجھے اتنی حیرت ھوتی کہ میں ان خاتون کے کاموں کے بارے میں تحقیق کرنے پر مجبور ھو گیا، اس تحقیق کا نتیجہ ملاحظہ کریں۔ میڈم کے سروس کاؤئنٹر کے اندرونی جانب نیچے گھسنے اور نظر رکھنےکی وجہ یہ تھی کہ سٹاف کھانے کھا کر بچا کھچا سالن،روٹی پلیٹوں سمیت وھاں رکھ دیتا تھا اور غالبا زیادہ بدبو آنے پر اٹھایا جاتا تھا۔ میڈم نے نیچے خود گھس کر وہ برتن نکالے،سٹاف اور صفائی کرنے والے کی سرعام بڑی مناسب کلاس لی اور آئندہ وھاں کھانا کھانا منع کر دیا۔ بنک میں داخل ھوتے ھی خوشبو اور ٹھنڈک کا استقبال حیران کرنے لگا۔کمپیوٹر کی تاروں میں ھاتھ ڈال ڈال کر دیکھنے کی وجہ یہ تھی کہ کمپیوٹر نیٹ ورک کی تاریں چوھے نہ جانے کب سے کاٹ گئے تھے اور سٹاف نیٹ ورک خراب ھے کا سبق پڑھنے میں مصروف رھتا تھا۔ اس خاتون نے سخت نوٹس لیا۔ فوری طور پر نئی وائرنگ کروائی گئی اور کچھ دن میں سسٹم ٹھیک ٹھاک کام کرنے لگے۔ سروس کائونٹر کا ایک جونیر بندہ تو کام کرتا ھی تھا،باقی دونوں سینیر بھی اپنے کام چھوڑ کر بنک کے کام کرنے لگے،میڈم اکثر سر پر آ کر کھڑی ھو جاتی اور داخلی دروازے کے اندر والی محفل کا حال تو بڑا عجیب ھوا۔ شمع محفل جوان،لیڈر سے خادم بن گیا، بھاگ بھاگ کر کسٹمرز کے کام کرنے لگا اور باقی لوگ بھی سر جھکا کر کام کرنے لگے۔ البتہ مینجرصاحب اپنی پرانی روٹین ھی میں رھے، ان کی صحت پر نہ پہلے کوئی اثر تھا نہ اب کوئی فرق پڑا۔

دوسری مثال لاھور، اقبال ٹائون کے عبدالغفور ناز کی ھے۔ اقبال ٹائون کی آبادی کافی تھی لیکن صفر سے ایک مثالی رھائشی علاقے کی منزل ابھی بہت دور تھی۔ٹرانسپورٹ نہیں تھی اس شخص نے بھاگ دوڑ کر کے سرکاری بسوں کا روٹ اقبال ٹائون سکیم موڑ تک کروا لیا تھا اور اقبال ٹائون مین روڈ پر اس شخص نے اپنے ھاتھوں سے 37 نمبر بس کے بورڈ لگائے تھے۔ چوریاں بہت ھوتی تھیں،تھانے کی ضرورت تھی لیکن ابھی محکمے کی طرف سے خاموشی تھی۔ اس شخص نےبھاگ دوڑ کر کے متعلقہ حکام کو مجبور کر دیاکہ تھوڑی آبادی کو بھی پولیس چوکی کی سہولت دے دیں۔ 3 مرلے کے چھوٹے گھروں میں 5فٹ کی گلی چھوڑنے اور نہ چھوڑنے پر جرمانے سے مڈل کلاس لوگ تنگ تھے۔ عبدالغفور ناز نے چکر لگا لگا کر ڈی جی ایل ڈی اے کو آخرکار قائل کر لیا اور 5فٹ گلی لازمی چھوڑنے کی پالیسی ختم کر دی گئی۔ اقبال ٹائون سکیم بڑی تیزی سے ترقی کرنے لگی اور پرانے غریب لوگ جو سالہا سال سے یہاں کچے گھروں میں مقیم تھے، جن کیلئے ان کے کچے گھر پکے گھروں سے زیادہ قیمتی تھے۔ کسی نئی جگہ جا کر بسنا ان کیلئے ممکن ھی نہ تھا،ان کے سر پر دربدری کا خوف منڈلانے لگا۔ عبدالغفور ناز نے ان کیلئے بے مثال جدوجہد کی اور ایک ایسا وقت آیا کہ یہ شخص کچی آبادیوں کے مکینوں کو لے کر وزیراعلی کے گھر کے باھر دھرنا دے کر بیٹھ گیا اور کامیاب جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچی آبادی کے لوگ جس جس جگہ مقیم تھے ان لوگوں کو اس جگہ کے مالکانہ حقوق دے دئے گئے۔ پوسٹ آفس کی منظوری کروا کر نائٹ پوسٹ آفس کے بھی آرڈر کروا لئے۔ اقبال ٹائون ڈونگی گرائونڈ میں اردگرد سے بارش کا تمام پانی اکٹھا ھو کر جوھڑ بن جاتا۔ اردگرد کے رھائشی گھروں کی بنیادیں کمزور ھونے اور بیماریوں کے خوف سے پریشان رھتے تھے۔ ایک لمبے عرصے کی کوشش کے بعد یہ شخص آخرکار کیس جیت گیا اور گرائونڈ سے پانی کی نکاسی کیلئے لاکھوں روپے کیلاگت سے مشینری لگا دی گئی اور اس شخص کی محنت سے بارشوں کے دنوں میں جوھڑ بننے والے گراوئنڈ کو ماڈل پارک کا درجہ دے دیا گیا۔ اس علاقے میں سوئی گیس کی کمی کے مسلے کو حل کروانے کیلئے عبدالغفور ناز کی کامیاب کوششوں پرعلاقے کے لوگ ان کے شکرگزار ھیں۔ کارنامے اور بہت لیکن مثال ختم کرتا ھوں۔

مذکورہ بالا مثالوں میں میڈم جن لوگوں سے نبرد و آزما رھی اور عبدالغفور ناز کا جن لوگوں سے پالا پڑا ، ان میں سے اچھے لوگوں کو نکال کر جو لوگان سے جھگڑا کرتے رھے،ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے رھے،یہ راستے کے روڑا نما لوگ اور ان جیسے لوگ ھمارے چاھے جتنے بھی قریبی ھوں،رشتہ دار ھی کیوں نہ ھوں، یہ ھمارے معاشرے کے فرعون ھیں۔ یہی وہ فرعون ھیں جو اپنے جیسوں سمیت ھمارے معاشرے کی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ھیں اور ان کی وجہ سے عوام کی تکلیفوں میں خوامخواہ کا اضافہ ھو جاتا ھے۔ان کی کرپشن،محکمانہ لاپروائیاں قابل نفرت ھیں۔ان کے شرمناک کردار سے اپنی بھرپور نفرت کا اظہار کیجئے۔

اور عبدالغفور ناز اور میڈم اور ان جیسے دوسرے لوگ ھمارے رشتے دار ھوں یاھمارے کچھ بھی نہ لگتے ھوں ھماری معاشرے کے ھیروھیں،جو اپنی سوچ اور اپنے اچھے کردار کے ذریعے چھوٹے چھوٹے فرعونوں سے لڑ کرعوام کیلئے بےشمار آسانیوں اور راحتوں کا سبب بنتے ھیں۔عبدالغفور ناز کو جرنل ضیا الحق کی طرف سے ملنے والا سپیشل دعوت نامہ میں نے خود پڑھا تھا جس کو اس مجاھد نے نظر انداز کر دیا تھا۔میں نے ایک دفعہ ان کے ایک کام کی طرف توجہ دلائی کہ یہ کام آپ نے کروایا لیکن بینر دوسرے لوگوں کے نام کے لگے ھیں۔ تو یہ شخص مسکرایا، کہنے لگا کہ میں اپنے نام کیلئے کام نہیں کرتا اور لوگوں سے صلے کا کبھی سوچا بھی نہیں۔ واقعی ایسے لوگ بے لوث ھوتے ھیں۔ آپ لوگ جب بھی ایسے لوگوں سےملیں تو اپنی بساط کے مطابقان کا ساتھ دیں، ان کی تعریف ضرور کریں۔ ھو سکے تو ان کی خدمات کا تحریری شکریہ ان کو پیش کریں۔

ھمارے معاشرے کےفرعونوں کیلئے خاص طور پرغور کا مقام ھے۔ زندگی میں اور موت کے بعد انھیں برے الفاظ ھی میں یاد کیا جاتا ھے۔انھیں ھیرو بننے کی کوشش کرنی چاھئے۔ فرعونوں کے گروہ سے نکل کر ھیروز کی صف میں آنا مشکل لگتا ضرور ھے لیکن ھے نہیں۔ اگر اپنی سوچوں کو تبدیل کر لیا جائے اور اپنا کام ایمانداری سے کرنے کا عہد کر لیا جائے،انسانوں کی خدمت کا ذھن بنایا جائے تو فرعون سے ھیرو بننے کا سفر چند لمحوں میں طے ھو سکتا ھے۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117110 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More