پولیس میں کرپٹ اور کریمنل کی موجودگی کی بازگشت ۔ احتساب کون کرے گا؟

پولیس کے طرز عمل کے بارے میں 20فروری کی اشاعت میں شائع ہونے والے میرے کالم پر قارئین کی جانب سے آنے والے تعریفی تبصروں نے مجھے خود اپنی تحریر دوبارہ پڑھنے پر مجبور کیا تویقین کریں کہ مجھے مزا نہیں آیا ، ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جانا چاہیے تھا۔اسی احساس نے مجھے جلد ہی درج ذیل تحریر لکھنے کا بہانا دیا۔

یہ بات سچ ہے کہ پولیس میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے ۔ حالانکہ پولیس کی تنخواہوں میں اضافے کے نتیجے میں معصوم لوگوں کو امید تھی کہ کرپشن ختم نہیں تو کم ضرور ہوجائے گی ۔لیکن اب لگتا ہے کہ معاملہ کچھ الٹا ہوگیا ہے ۔ویسے تو ہمارے ملک کے سب ہی اداروں میں کرپشن زہر کی طرح نہیں’’ سیلاب ‘‘کی طرح پھیل رہی ہے۔مختلف رپورٹس کے مطابق پولیس اس معاملے میں سب سے آگے ہے ۔

ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں پولیس میں کرپشن یا بدعنوانی کا تناسب86فیصد ہے ۔سروے کے مطابق سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر کرپشن کا تناسب 84فیصد ، پارلیمنٹ میں طب کے شعبے میں 66، تعلیم میں 64 اوراین جی اووز میں 62کرپشن کا تناسب ہے۔بین الاقوامی ادارے کے سروے سے بھی یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہماری پولیس اس معاملے میں بہت تیز ہے ۔ اس کا کوئی ثانی نہیں۔

پولیس کی کرپشن یا پولیس میں کرپشن پراپنی تحریر کی روشنی ڈالتے ہوئے مجھے ایک واقعہ بہت شدت سے یاد آرہا ہے ۔اس کی شدت کا تقاضہ ہے کہ اسے بیان کردیا جائے۔اس لیے اسے قارئین کی نظر کرتا ہوں۔

میر اکرام الحق پولیس سروس آف پاکستان کے ایک ایماندار اور دیانتدار آفیسر تھے ، ہمارے ملک میں میں عمواََ ایسے افسران نایاب ہوتے ہیں۔میر اکرام الحق کراچی میں اس وقت ایس ایس پی ایسٹ ہوا کرتے تھے جب شہر صرف چار اضلاع میں تقسیم تھا ۔بعدمیں وہ ڈی آئی جی ہوکر کوئٹہ میں تعینات کردیے گئے ۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ کوئٹہ میں پھیلی کرپشن اور کرمنل ایکٹویٹی نے انہیں اس کا سدباب کرنے کے دوران مجبور کیا کہ وہ ملک سے ہی چلے جائیں۔ نتیجے میں وہ ملک کو خیر باد کہہ گئے ۔میں جو واقعہ بیان کررہا ہوں وہ میرصاحب نے مجھے خود بیان کیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلع شرقی میں ایس ایس پی مقرر ہونے کے بعد وہ جب ایک روز ضلع کے ہیڈکوارٹر کے دور پر گئے تھے تو انہوں نے سپاہیوں سے خوراک کے حوالے سے دریافت کیا ۔زیر تربیت سپاہیوں نے جھجکتے ہوئے جواب دیاکہ’’ ٹھیک ہے سر ‘ـ‘۔سپاہیوں کے اس جواب پر انہوں ڈی ایس پی ہیڈکوارٹر کو ہدایت کی کہ ’’ ٹریننگ کے اصولوں اور قواعد کے تحت تمام رنگروٹوں اور سپاہیوں کو خوراک پوری ملنی چاہیے جس میں روزانہ دوددہ بھی شامل ہونا ضروری ہے‘‘۔ میر صاحب کا کہنا تھا کہ مجھے امید تھی کہ میرے حکم کے بعد تمام زیر تربیت اور تربیت یافتہ سپاہیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی ۔لیکن صورتحال اس کے برعکس نکلی ۔چند روز بعد ہی ایک سپاہی ان کے سامنے پیش ہوا اور ان سے درخواست کہ ’’ سر دودھ کے حوالے سے جو حکم آپ نے جاری کیا وہ برائے مہربانی واپس لے لیں ہم لوگ یہ افورڈ نہیں کرسکتے ‘‘۔ سپاہی کے اس مؤقف پر میر اکرام صاحب نے کہا کہ کیوں ، وہ کوئی پیسوں کے عوض تھوڑی ملے گا ، اس میں افورڈ کرنے کی کیا بات ہے ؟ ــسپاہی نے جواب دیا کہ سر ہر افسر اسی طرح کہتا ہے لیکن ہوتا ایسا نہیں ، اس لیے سر پلیز ہمارا دودھ بن کرادیں ، سپاہی نے مزید بتایا کہ سر آپ کے حکم کے بعد دودہ تو مل رہا ہے مگر غیر معمولی طور پر اچھا بھی مل رہا ہے ، بس ڈر ہے کہ تنخواہ کے وقت کہیں ہم لوگوں کے پیسے دودھ کی مد میں نہ کاٹ لیے جائیں ۔یہ مؤقف سنکر ایس ایس پی حیران ہوگئے ، انہوں نے یقین دلایا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ میر اکرام کا کہنا تھا کہ چند ماہ بعد جب میرا تبادلہ ہوا تو وہ سپاہی میرے پاس آیا اور کہا کہ ’’ سر وہ ہی ہو ا نہ جس کا ڈر تھا ، ا ٓپ کے تبادلے کے بعد دودھ تو بند ہوگیا مگر جتنے عرصے دودھ ملتا رہا اس کے پیسے اب تنخواہوں میں سے کاٹے جارہے ہیں ‘‘۔

پولیس شائد واحد محکمہ ہے جہاں ابتدائی تربیت کے دوران ہی رشوت دینی پڑتی ہے ۔اس ضمن میں قومی احتساب بیورو (نیب ) کے ایک سابق افسراسلم پرویز ابڑو کی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس میں سپاہی کے اپائٹمنٹ کے لیے 80ہزار تا ایک لاکھ روپے رشوت لی جاتی ہے ۔رپورٹ کے مطابق بھرتی ہونے والے سپاہی کے لیے ایک ایسا قانون موجود ہے جو پولیس کی کتابوں میں نہیں لکھا ہوا ہے مگر اس غیر قانونی ’’ قانون ‘‘ کے تحت پولیس کے ان سپاہیوں کو پانچ سو تا ہزار روپے پر ٹریننگ سے مثتثنی ہونے کی سہولت فراہم کرتی ہے ۔ یہ رشوت انسٹریکٹر کو دینی پڑتی ہے ۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹریننگ کے دوران غیر حاضر ہونے کا بھی ایک الگ بدنام قانون موجود ہے جس کے تحت دو سو تا پانچ سو روپے فی یوم کے حساب سے ٹرینٹی سپاہی کو چھٹی مل جایا کرتی ہے ۔اس مقصد کے لیے لائن افسر، ناممکن کام کو ممکن بنادیتا ہے اور صرف مذکورہ رقم کے عوض ۔

نیب افسر نے مذکورہ رپورٹ کی اس رپورٹ کا کیا نتیجہ نکلا یہ علم نہیں ہوسکا ۔ تاہم رپورٹ میں واضح کردیا گیا ہے کہ پولیس یونیفارم کی خریداری میں بھی اعلیٰ کوالٹی کا کپڑا دکھا کر انتہائی گھٹیا کپڑے کے یونیفارم تیار کرکے فراہم کردیے جاتے ہیں ۔ اس طرح اس مد میں لاکھوں روپے کی کرپشن کردی جاتی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پولیس کے کرپشن زدہ نظام میں ’’ ویزا سسٹم ‘‘ کے نام سے بھی ایک بدنام نظام موجود ہے یہ نظام ان اہلکاروں کی سہولت کے لیے ہے جو ڈیوٹی کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ گھر بیٹھے تنخواہ لینا چاہتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے ایسے پولیس اہلکاروں کو اپنے انچارج کو پچاس فیصد رقم اپنی تنخواہوں میں سے دینی پڑتی ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ رقم عام طور پر لائن افسر کو دینی پڑتی ہے جو اس رقم کا حصہ نظام کے تحت اپنے سینئرز کو پہنچادیتا ہے ۔ اس طرح ویزا کی سہولت حاصل کرنے والے اہلکاروں کی ملازمت کا مکمل تحفظ بھی کیا جاتا ہے۔

پولیس میں کرپشن صرف یہی نہیں ہے بلکہ ایک کرپشن وہ بھی ہے جس کا ان دنوں میں اخبارات میں چرچا ہے ۔ یعنی اعلیٰ سطح پر فنانشل امور میں مبینہ طور پر شیئر کے حصول کے لیے سرد جنگ جو ان دنوں ڈی آئی جی فنانس اور آئی جی سندھ کے درمیان چل رہی ہے ۔ کرپشن تو پھر بھی معاشرے کا حصہ بن چکی ہے لیکن خوف پولیس کے نظام میں موجود وردی پوش مجرموں سے آتا ہے ۔ حال ہی میں ڈی آئی جی سی آئی ڈی کو آئی جی سندھ نے خط میں ہدایت کی ہے کہ کورنگی ، لانڈھی اور کورنگی صنعتی ایریا میں لوگوں کو بلاجواز گرفتار کرکے ان سے بھاری رشوت لیکر چھوڑ ے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان واقعات کو عام لوگ اور سیاسی حلقے اغوا برائے تاوان سے تشبیع دے رہے ہیں۔آئی جی نے ڈی آئی جی سی آئی ڈی کو ہدایت کی کہ اس بارے میں تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کی جائے ۔

کراچی کے شہری اس خبر پر بھی حیران اور پریشان ہیں کہ کیماڑی سب ڈویژن میں تعینات اے ایس پی بلال قیوم ، اسمگلروں اور دیگر جرائم پیشہ کا سہولت کار ہے ۔چونکہ اس قدر سنگین الزام کے باوجود مذکورہ اے ایس پی کو اہم پوسٹ سے نہیں ہٹایا گیا ۔اس لیے خدشہ ہے کہ اس معاملے کو بھی کسی بھی طرح دبادیا جائے گا۔ اس کا اختیار پولیس کے پاس ’’صوابدیدی ‘‘ ہے ۔ اس اختیار کے تحت تفتیش کے دوران کسی کو بھی پولیس بے قصور قراردے سکتی ہے ۔

آج کراچی پولیس پر اس قدر الزامات کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کا احتساب کرنے والی ’’ سائیں سرکار ‘‘ کے متعدد وزرا ء اور دیگر خود کرپشن میں ملوث ہیں۔ یہ بات عام ہے کہ کراچی میں ایڈیشنل آئی جی سمیت تمام اسامیوں پر تقرر سیاسی معہ مالی اثر ورسوخ کے بغیر ناممکن ہے ۔ سب ہی جانتے ہیں کہ تھانوں میں انسپکٹر یا سب انسپکٹرکو ایس ایچ او لگنا ہو یا سب ڈویژن میں ڈی ایس پی کو ایس ڈی پی او بغیر اعلیٰ افسران کی مٹھی گرم کیے یا صوبائی حکمرانوں کے براہ راست حکم کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ یہی نہیں ہر ہفتہ یا ماہانہ ایک لم سم رقم اور دیگر فرمائشیں بھی اسٹیش ہاؤس آفیسرز (ایس ایچ اوز) کو پوری کرنا پڑتی ہیں۔ اسی طرح ٹریفک پولیس کے سیکشن آفیسرز (ایس او) جنہیں عام زبان میں چوکی انچارج کہا جاتا ہے کو دیگر غیر قانونی فرمائشیں پوری کرنی پڑتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایس پی ، ڈی ایس پی ، ایس ایچ او اور ایس او کی شکل میں ایک ہی طرح کے چہرے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ پولیس کے اندر کرپشن کے نظام میں ایک انتظامی کرپشن یہ بھی ہے کہ متعدد سب انسپکٹرز ، انسپکٹرزایس ایچ او لگنے کی خواہش لیے ہی ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں ، اسی طرح متعددڈی ایس پی اور ایس پی بھی اپنی ڈویژن میں تقرری کی خواہش لیے ملازمت پوری کرجاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ایس ایچ او لگنے کے لیے غیر قانونی شرائط کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔

اگر حکمراں نیک نیتی سے خود جائزہ لیں تو انہیں ایسے سینکڑوں ایماندار اور باصلاحیت پولیس افسران نظر آئیں گے جو کسی بھی موجودہ طرم خاں ایس ایچ او اور ایس ڈی پی او سے کم نہیں ہونگے۔سوال یہ ہے کہ کون سے حاکم ان امور پر توجہ دیں گے وہ جو خاتون ایم این اے اور سابق صدر کی بہن کا پرس اٹھانے کی ذمہ داری کے عوض وزیر داخلہ بن بیٹھے یا وہ جو بھنگ کے بغیر اپنی رات نہیں گزارسکتے ؟۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165847 views I'm Journalist. .. View More