روزانہ ہی ہم زندگی گزارنے اور
جینے کے ڈھنگ کے لئے طرح طرح سے خیالات کی کھیتی میں بیج ڈال کر سوچ سے
آبیاری کرتے ہیں۔ زمین کو ہموار کرنے کا عمل مستقبل کی اچھی فصل کی امید
میں آنکھوں میں لہلاتے کھیت کا منظر بسا لیتے ہیں۔ اور ماضی بنجر اور سخت
زمین کی طرح پہلی فصل کے بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ کوشش میں
اگر کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو۔ تو اسے پورا کرنے کی حتی الوسیع سعی کی جاتی
ہے۔ مگر قدرتی آفات یا نا گہانی آفت سے ہونے والے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں
ہوتا۔
بیج سے پیدا ہونے والا پودا دو بار جینے کی جنگ لڑتا ہے۔ پہلے بیج سے اور
پھر زمین سے نکلتے وقت۔ اس کے بعد وہ حالات کے رحم و کرم پر چلا جاتا ہے۔
بارش کی کمی بیشی اور دھوپ چھاؤں میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے میں محتاج دعا
ہو جاتا ہے۔ وہاں وہ کسی کو بہت زیادہ خوشی دیتا ہے تو کسی کو مایوسی و
اداسی۔
اسی طرح انسان بھی دو طرح سے جینے کی جنگ کرتا ہے۔ پہلی بار ماں کی کوکھ تو
دوسری بار زمین کی گود۔ پھر حالات اور ماحول اس کی نشو ونما میں تبدیلیوں
کا باعث ہوتے ہیں۔ خوشیاں لہلاتے کھیتوں کی طرح پروان چڑھتی ہیں۔ دکھ
تکلیفیں نا گہانی آفت سے تباہ حال فصل کا منظر پیش کرتی ہیں۔
کوشش میں اگر کمی ہو تو حالات کی ذمہ داری قسمت پر ڈال دی جاتی ہے۔ جو رو
دھو کر شکوہ پر ختم ہوتا ہے۔ محنت کی آبیاری سے صبر و شکر کی فصل تیار ہوتی
ہے۔ خیالات کی کھیتی میں شکوہ کی فصل کاٹی جاتی ہے۔ ہر نئی فصل کے بونے اور
کاٹنے میں جو نتائج سامنے آتے ہیں۔ وہ کھیتی کے تیار کرنے کے مراحل میں
اختیار کی جانے والی حکمت عملی پر منحصر ہوتے ہیں۔ پورا انسانی معاشرہ انہی
بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ جو اسے فراہم کی جاتی ہیں۔ محنت اور کوشش کے
بغیر حاصل ہونے والے نتائج شکوہ و الزام پر منتج ہوتے ہیں۔
کہنے والے تو یہاں تک بھی کہہ دیتے ہیں۔ قصور ہمارا نہیں ملک کی بنیاد ہی
غلط رکھی گئی تھی۔ بنیاد رکھنے والے تو کوشش اور محنت سے گلشن کو مہکاتے
ہیں۔ اب پرانے پودوں پر انحصار کی بجائے نئی فصل کی آبیاری بھی ضروری ہوتی
ہے۔ مضبوط جڑیں وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھی ہو کر کھوکھلی اور زمین سخت ہو جاتی
ہے۔ نئے پودوں کے لئے زمین ہر بار ہموار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ نئی
جڑیں اپنے وجود کو سینچ سکیں۔
جب نئے پودوں میں خود پنپنے کی صلاحیت نہ ہو تو شکوہ انہی پر رہ جاتا ہے۔
زندگی جینے اور گزارنے کے ڈھنگ میں محنت کے پھل سے صبر و شکر رہے تو شکوہ
زبان پر نہیں آتا۔ بلکہ فصل پروان چڑھتی ہے۔ کمزور پودے زندگی تو پالیتے
ہیں۔ مگر طوفانی حالات کے تھپیڑوں سے اپنے آپ کو نہیں بچا پاتے۔ بالٹی بھر
دودھ پینے سے دیسی گھی اور مکھن کی توانائی حاصل نہیں ہوتی۔ پانی اپنا رنگ
دکھاتا ہے۔ اور انہیں بھی ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ محنت توانائی کو پانی کی
حجابت سے آزاد کر دیتی ہے۔ جب تک اپنی صلاحیتوں کو انہی اصولوں کا پابند نہ
کیا جائے تو شکوے مسلسل کئے جاتے رہیں گے۔ اور ان کا نشانہ محسن بنیں گے۔
جو انفرادیت میں والدین اور اجتماعیت میں قائدین ہوتے ہیں۔ جو آزادی دلاتے
ہیں۔ ایک کردار و گفتار میں تو ایک روح و افکار میں۔
دوسروں کی اُٹھی انگلی کو بندوق کی نالی سمجھنے والے صرف کوے ہو سکتے ہیں۔
کیونکہ راہزنی کرتے کرتے سب انہیں اپنے دشمن نظر آتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود
اپنے دشمن ہوتے ہیں۔ |