زانی مرد صرف زانیہ عورت یا مشرکہ عورت سے
نکاح کرے گا، اور زانیہ عورت صرف زانی مرد یا مشرک مرد سے نکاح کرے گی اور
مومنوں پر اس (نکاح) کو حرام کردیا گیا ہے(سورہ نور)
زانیہ کے لئے صرف زانی سے نکاح کی اجازت کی احادیث
حضرت عبد اللہ بن عمر و (رض) بینا کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے
ام مھزول نامی ایک عورت سے نکاح کرنے کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) سے اجازت طلب کی وہ عورت زنا کرتی تھی اور اس پراُجرت لیتی تھی تو
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کے سامنے یہ آیت پڑھی :
…………(النور : ٣)
(مسند احمد ج ٢ ص ٥٩ قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ٦٤٨٠، ٧٠٩٩، ٧١٠٠، شیخ
احمد محمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند ضعیب ہے اور اس کے راویوں کی توثیق
بھی کی گئی ہے۔ حاشیہ مسند احمد ج ٦ ص ٣٥۔ ٣٤، دار الحدیث قاہرہ، المعجم
الاوسط رقم الحدیث : ١٨١٩، حافظ الہیثمی نے کہا امام احمد کی سند صحیح ہے،
مجمع الزوائد ج ٧ ص ٧٤، سنن بیہقی ج ٧ ص ١٥٣، المستدرک ج ٢ س ٣٩٦)
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ
مرثد بن ابی مرثد ایک ایسا شخص تھا جو مکہ سے قیدیوں کو لا کر انہیں مدینہ
پہنچاتا تھا، مکہ میں ایک زانیہ عورت تھی جس کا نام عناق تھا وہ مرثد کی
دوست تھی، اس نے مکہ کے کسی قیدی سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کو مدینہ
پہنچائے گا، اس نے کہا میں مکہ گیا حتیٰ کہ ایک چاندی رات میں، میں مکہ کی
دیواروں میں سے ایک دیوار کے سائے پہنچا پس عناق آگئی۔ میں نے دیوار کے
ساتھ کسی شخص کا سایا دیکھا تھا میں جب وہاں پہنچا تو میں نے اس کو پہچان
لیا، اس نے کہا مرثد ہے ؟ میں نے کہا مرثد ہوں، اس نے کہا خوش آمدید، میرے
پاس آئو، میں اس رات اس کے پاس ٹھہرا۔ میں نے اسے کہا اے عناق ! اللہ نے
زنا کو حرام کردیا ہے، اس عورت نے (مکہ کے لوگوں سے) کہا اے خیمے والو ! یہ
شخص تمہارے قیدیوں کو چھڑا کرلے جاتا ہے، سو آٹھ آدمیوں نے میرا پیچھا کیا
میں الخندمہ (مکہ کا ایک پہاڑ) کی طرف گیا اور کسی غار میں گھس گیا وہ غار
کے سر پر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے وہاں پیشاب کیا اور ان کا پیشاب میرے سر
پر پڑا، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں مجھ سے اندھا کردیا، میں اپنے اس ٠ قیدی)
ساتھی کے پاس پلٹا وہ بہت بھاری جسم کا تھا حتیٰ کہ اذکر گھاس کے پاس پہنچا
اور میں نے اس کی بیڑیاں کھولیں، پھر میں اس کو اٹھا کرلے گیا اور وہ بھی
میری مدد کرتا رہا، حتیٰ کہ میں اسے لے کر مدینہ پہنچ گیا، پھر میں رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو اور میں نے پوچھا : یا
رسول اللہ ! کیا میں عناق سے نکاح کرلوں ؟ میں نے یہ سوال دو مرتبہ کیا،
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے اور مجھ کوئی جواب نہیں دیا
حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوگئی : زانی مرد صرف زانیہ عورت یا مشرک عورت سے نکاح
کرے گا، اور زانیہ عورت صرف زانی مرد یا مشرک مرد سے نکاح کرے گی اور
مومنوں پر اس (نکاح) کو حرام کردیا گیا ہے۔ (النور : ٣)
(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٧٧، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٠٥١، سنن
النسائی رقم الحدیث : ٣٢٢٨، المستدرک ج ٢ ص ١٦٦، سنن کبری للبیہقی ج ٧ ص
١٥٣ )
زانیہ سے مومن کے نکاح کی ممانعت کی توجہیات
سورۃ النور : ٣، اور مذکور الصدر احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی
مسلمان مرد زانیہ عورت سے نکاح نہیں کرسکتا اور کوئی مسلمان عو رت زانی مرد
سے نکاح نہیں کرسکتی، اس مسئلہ میں فقہاء کے مسالک حسب ذیل ہیں :
(١) یہ ممانعت عام نہیں ہے بلکہ ام مھزول اور عناق کے ساتھ مخصوص ہے جیسا
کہ ابھی احادیث کے حوالوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
(٢) ابو صالح نے کہا یہ ممانعت اہل الصفہ کے ساتھ مخصوص ہے۔
(٣) حسن بصری نے کہا یہ ممانعت ہر زانی اور ہرزانیہ کے لئے عام نہیں ہے
بلکہ اس زانی اور زانیہ کے ساتھ مخصوص ہے جس کو حد میں کوڑے لگ چکے ہوں اس
کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا : جس زانی کو کوڑے مارے جا چکے ہوں، وہ صرف اپنی مثل کے ساتھ
نکاح کرے۔
(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٠٥٢، المستدرک ج ٢ ص ٢٦٦، مسند احمد ج ٢ ٣٢٤،
کنز العمال رقم الحدیث : ٤٤٢٩٧)
(٤) اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اکثر اور غالب زنا کرنے والے اپنی مثل زانیہ
سے ہی نکاح کرنے میں رغبت رکھتے ہیں۔ کرخی نے کہا ہے کہ فاسق خبیث جو زنا
کرتا ہے وہ کسی نیک خاتون سے نکاح کرنے کو پسند نہیں کرتا، وہ اپنی مثل
فاسقہ یا مشرکہ سے نکاح کرنے کو پسند کرتا ہے، اسی طرح فاسقہ خبیثہ عورت
کسی نیک با شرع اور متقی مرد سے نکاح کرنے کو پسند نہیں کرتی بلکہ اس سے
متنفر ہوتی ہے (جیسا کہ اس دور میں آزاد اور فیشن ابل الٹرا ماڈرن لڑکیاں
کسی نمازی داڑھی رکھنے والے شخص سے نکاح کرنے سے نفرت کرتی ہیں) بلکہ وہ
اپنے جیسے فاسق (آزاد فیشن زدہ) مرد سے نکاح کرنے کو پسند کرتی ہیں اور یہ
حکم عام، اکثر اور غالب افراد کے اعتبار سے ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ نیک کام
تو صرف پرہیز گار لوگ کرتے ہیں حالانکہ بعض اوقات فاسق لوگ بھی نیک کام
کرلیتے ہیں، اسی طرح اس آیت کا محمل یہ ہے کہ زنا کرنے والا مرد اور زنا
کرنے والی عورت صرف اپنے جیسے شخص سے نکاح کرنا پسند کرتے ہیں۔
زانیہ سے مؤمن کے نکاح کی ممانعت کا منسوخ ہونا
(٥) علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی ٦٦٧ ھ لکھتے ہیں :
………(النور : ٣٢)
تم میں سے جو مرد اور عورت بے نکاح ہوں، ان کا نکاح کردو اور اپنے نیک
غلاموں اور باندیوں کا بھی۔
اس آیت میں مطلقاً بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کرنے کا حکم دیا ہے
خواہ وہ زنا کار ہوں یا نہ ہوں اور جن سے ان کا نکاح کیا جائے خواہ وہ زنا
کار ہوں یا نہ ہوں۔
ابو جعفر النحاس نے کہا یہ اکثر فقہاء اور اہل فتویٰ کا قول ہے کہ جس شخص
نے کسی عورت سے زنا کیا ہو اس کے لئے اس عورت سے نکاح کرنا جائز ہے اور اس
کے علاوہ دوسرے شخص کے لئے بھی اس عورت سے نکاح کرناجائز ہے۔ حضرت ابن عمر،
سالم، جابر بن زید، عطا، طائوس، امام مالک بن انس اور امام اعظم ابو حنیفہ
اور ان کے اصھاب کا بھی یہی قول ہے، امام شافعی نے کہا سعید بن مسیب کا قول
صحیح ہے کہ یہ آیت انشاء اللہ منسوخ ہے۔
روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کے زمانہ میں ایک مرد نے ایک عورت سے زنا کیا
اور دونوں کو سو سو کوڑے مارے پھر ان کا ایک دوسرے کیساتھ نکاح کردیا اور
ان کو ایک سال کے لئے شہر بدر کردیا۔ حضرت عمر، ابن مسعود اور حضرت جابر
(رض) سے بھی اس کی مثل مروی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا اس کا اوّل زنا ہے
اور اس کا آخر نکاح ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کسی کے باغ سے پھل
چوری کرے پھر اس کے مالک سے اس باغ کے پھل خریدلے، اس نے جو چوری کی تھی وہ
حرام ہے اور جو مال خریدا ہے وہ حلال ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی نے
اسی اثر سے استدلال کیا ہے۔
(الجامع الاحکام القرآن جز ١٢ ص ١٥٧۔ ١٥٦، ملخصا، مطبوعہ دار الفکر بیروت،
١٤١٥ ھ) |