طلباء مدارس کے نام

انسان کو زندگی میں بہت سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر منصوبہ بندی کے ساتھ کام انجام دیے جائیں تو پریشانیاں کافی حد تک کم ہوجاتی ہیں۔ جب خود منظم نہ ہوں تو کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم ایک اچھی زندگی بسرکرسکیں گے۔ بے روزگاری ملک کا گمبھیر مسئلہ ہے۔ ہنر مند اور تکنیکی علوم سے بہرہ مند نوجوان ملکی معیشت اور صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ملک میں بیروز گاری اور غربت کے خاتمے کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اورآسانی سے اپنے خاندان کی معاشی کفالت بھی کر سکتے ہیں۔ جد ید دور کا تقا ضہ ہے کہ نوجوان تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل کورس کریں۔ بے روزگاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے جن میں اکثر سرکاری ملازمت کے متلاشی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ وقت وحالات بدل چکے ہیں۔ سرکاری اداروں کی بڑی تعدادنجی تحویل میں دیے جاچکے،باقی بھی دے دیے جائیں گے اس لیے ملازمت کے متلاشی بے روزگاروں کو بھی اپنا ذہن بدلنا ہوگا۔

پرائیویٹ سیکٹر میں وہی لوگ کھپ سکتے ہیں جنھیں کوئی ہنر آتا ہو۔ جو تعلیم یافتہ ہوں اور مطلوبہ اہلیت اور قابلیت پرپورے اترتے ہوں۔ بے روزگاروں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو تعلیم یافتہ اور ہنرمند بھی ہے لیکن پھر بھی دفتردردفترخاک چھان رہے ہیں۔ صبح و شام اخبارات میں ’’ضرورت ہے‘‘ کا اشتہار تراشتے ہیں۔ خوشی خوشی سیویاں بناتے ہیں ان کی فوٹوکاپیاں کرتے ہیں اورپوسٹ کردیتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ ان کے بھی اچھے دن آنے والے ہیں۔ اول تو انٹرویو کال لیٹر مشکل سے آتا ہے۔اوراگر آ بھی جائے تواس میں درج انٹرویوکی تاریخ گزر چکی ہوتی ہے پھربھی خوش قسمتی سے کوئی نوجوان انٹرویو دینے بھی پہنچ پاتا ہے تواپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود منتخب ہو نہیں پاتا۔ اسے طفل تسلی دے کرخوش گوار خوابوں کے حوالے کردیاجاتاہے۔ ایسے نوجوانوں میں سے کچھ حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر منزل کی راہیں متعین کرتے ہیں جب کہ کچھ نوجوان حالات سے گھبرا کر مایوسی کو تقدیر سمجھ لیتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اوروہ دوسروں کو کوستے ہوئے اندھیری راہوں میں گم ہوجاتے ہیں۔

ملک میں نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تعلیم یافتہ تو ہے لیکن کوئی ہنر نہیں جانتا۔ یہ طبقہ ہمیشہ حصول تعلیم کو بے کار سمجھتا ہے اورشکوہ کرتاپھرتا ہے کہ تعلیم حاصل کرکے ہمیں کیامل گیا؟ نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو ہنرمند ہے مگران پڑھ ہے۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ہنر سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھاپاتے …… نوجوانوں کاایک طبقہ ایسا بھی ہے جوتعلیم اور ہنردونوں سے محروم ہے اورمفت کی روٹی کھانے کا عادی ہے۔ ایسے نوجوان اکثر اپنے والدین سے جھوٹ بولتے نظرآتے ہیں کہ ’’میں کام کی تلاش میں جاتاہوں مگرکام نہیں ملتایاکام بہت سخت مگر تنخواہ بہت کم ہے‘‘۔ یہ نوجوان خود توپریشان رہتے ہیں……گھروالوں اورمعاشرے کے لے بھی مستقل پریشانیوں اورمسائل کاسبب بن جاتے ہیں ۔

ملک کے نوجوانوں کو ایسا ماحول فراہم نہیں کیا گیا کہ جس میں رہ کر ان کی صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع مل سکے۔ نوجوانوں کو یہ بتانے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی کہ وہ کس طرح سے اپنی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں استعمال کرسکتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ جو لوگ نوجوان نسل کی رہنمائی کرسکتے ہیں وہ اپنا کردار ادانہیں کررہے ۔ ملک میں تعلیم عام کرنے کے دعویداروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ طبقوں میں بٹی ہوئی مہنگی تعلیم کے باعث صرف ان گھرانوں کے بچے، نوجوان منزل تک پہنچ پاتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوتے ہیں جب کہ ملک کے نوے فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ نوجوانوں پر یہ الزام غلط ہے کہ وہ اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ ہمارے ملک کے نوجوان کسی سے کم نہیں ہیں۔ انھیں صرف مناسب رہنمائی کی ضرورت ہے۔

یہ قومی فرض کون نبھائے گا؟ صرف نصیحتیں کی جاتی ہیں کہ نوجوان راہ راست پر آجائیں اور اپنی تمام تر توجہ حصول تعلیم پر مرکوز کریں، لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ نوجوان ڈپریشن کا شکارکیوں ہیں؟ اور اس کا حل کیا ہے؟۔ نوجوانوں پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ملک کے نوجوانوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کمزور اعصاب کے نوجوان ہمت ہار جاتے ہیں اور غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ جب کہ باہمت نوجوان نامساعدحالات کے باوجوداپناراستہ تلاش کرکے منزل کو پالینے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں۔

پیارے پاکستان میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد مدارس میں تعلیم وتربیت حاصل کررہی ہے۔ 2015ء کی رپورٹ کے مطابق صرف وفاق المدارس العربیہ کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کی تعداد پچیس لاکھ سنتالیس ہزارآٹھ سوباون ہے۔ ان کے علاوہ لاکھوں طلباء دیگر مدارس میں علم حاصل کررہے ہیں ۔ چنددہائیاں قبل معاشرے میں حافظ قرآن اور علماء حضرات کی بہت بڑی کمی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ رمضان المبارک کے پہلے پندرہ دنوں میں قراء حضرات قرآن پاک ختم کرتے،اگلے پندرہ دن کسی اور مسجد میں تراویح پڑھاتے تھے۔ بعض مساجد میں قاری صاحبان ماہ رمضان کے پہلے عشرے میں ہی قرآن کاختم کردیاکرتے تھے اس طرح ایک ایک قاری صاحب تین تین مساجد میں تراویح پڑھاتے تھے۔ علماء کرام کی صورت حال بھی یہی تھی۔ حافظ قرآن خطبہ جمعۃ المبارک، نمازعیدین ، نکاح اور نمازجنازہ بھی انہی کو پڑھاناپڑتا تھا۔ مدارس کی تعداد اتنی زیادہ نہ تھی۔ کئی کئی میل کے فاصلے پر اکادکامدرسہ ہوتاتھا۔ جہاں نوجوان دینی علوم کی پیاس بجھاتے تھے۔ آج الحمدﷲ جگہ جگہ مدارس قائم ہیں۔ بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے مسائل میں دینی طبقہ بھی جکڑاہواہے۔ مساجداورمدارس کی ضرورت سے حفاظ اور علماء کرام کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے مدارس میں ملازمین کی تعداد 1918،بلوچستان10573،پنجاب42041،خیبرپختونخوا34276،سندھ30580،آزادکشمیر1853،اورگلگت بلتستان کے مدارس کے عملے کی تعداد 638ہے۔ ان میں ملعمین اورملعمات سمیت دیگر ملازمین بھی شامل ہیں۔ یہ صرف وہ ادارے ہیں جو وفاق المدارس العربیہ سے رجسٹرڈ ہیں جبکہ ان اداروں سے تعلیم مکمل کرنے والے طلباء کی تعداد لاکھوں میں ہے گویاکہ طلب کم رسد انتہائی زیادہ ہے۔ تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں کہ پہلے زمانے کے علماء کرام نہ صرف دینی علوم سے آشناتھے بلکہ انہوں نے کئی کئی ہنر بھی سیکھ رکھے تھے.

کافی تعداد علماء کی ایسی بھی تھی جو تجارت سے وابستہ تھے. آج اکثروبیشتر علماء اور قراء حضرات تدریس, امامت خطابت کے علاوہ دیگر ملازمتوں کونامناسب یااپنی شان کے خلاف تصورکرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہماری انڈسٹری تعلیمی ادارے دفاتر اور کئی دیگر محکمے آج بھی علماء سے خالی ہیں۔ راقم الحروف نے وطن عزیز کی انڈسٹریز میں ملازمت کی ہے وہاں کی حالت زار دیکھ کر رونا آتاہے۔ خاص طور پرفیکٹریوں کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوراکثروبیشتر ایسے ہیں جنہوں نے مدارس اور اسکولوں کامنہ تک نہیں دیکھا۔ بچپن سے گھر سے نکلے اور زندگیاں فیکٹریوں اورکارخانوں میں روزی روٹی کمانے میں بیت گئیں۔ وہ تعلیم سے تودور کی بات فرائض سے بھی ناآشنا ہیں۔ باپ دادا بن گئے غسل کے طریقے کا علم نہیں۔ اگر مذہبی طبقے کے لوگ کوئی ہنرسیکھ کر ان اداروں میں ملازمت اختیارکرلیں تونہ صرف روزگار ملے گا بلکہ وہاں کے دیگر ملازمین بھی دینی مسائل سیکھ جائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ ہنر کونسے سیکھے جائیں ؟پلمبر ،سٹیل فکسر الیکٹریشن ویلڈنگ فرنیچر موبائل ریپئرنگ الیکٹریکل ،الیکٹرونکس،مکینیکل ،کیمیکل اور سول کے کئی شارٹ کورسز چند ماہ میں بآسانی سیکھے جاسکتے ہیں یہی کورسز حکومت نے ملک بھر میں ووکیشنل اکیڈمیزکے تحت شروع کر رکھے ہیں۔ تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے کہ اﷲ تعالی نے مذہبی لوگوں کو کمال ذہانت سے نواز رکھا ہے اگر یہ لوگ ہنر سیکھ کر انڈسڑیوں کارخ کرلیں تو بہت جلد ترقی کرسکتے ہیں۔
Munawar Javed
About the Author: Munawar Javed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.