وہ پہاڑوں کی بلندیوں سے بلند ہوجاتا ہے
(syed imaad ul deen, samundri)
میں جب بچہ تھا تو یہ گمان کرتا کہ بڑا
آدمی وہ ہے جس کا قد لمبا ہو۔ چنانچہ میں پنجوں کے بل کھڑا ہونے کی کوشش
کرتا تو کبھی کسی اونچی جگہ پر کھڑا ہو جاتا تاکہ خود کو بڑا ثابت کرسکوں۔
جب کچھ شعور میں ارتقاء ہوا تو علم ہوا کہ بڑا آدمی وہ نہیں جس کا قد لمبا
ہو بلکہ وہ ہے جس کی عمر زیادہ ہو۔ چنانچہ میں جلد از جلد عمر میں اضافے کی
تمنا کرنے لگا تاکہ بڑا بن سکوں۔
جب زندگی نوجوانی کی عمر میں داخل ہوئی تو پتا چلا کہ بڑے آدمی کا تعلق عمر
سے نہیں دولت سے ہوتا ہے ۔ جس کے پاس اچھا بنک بیلنس، لیٹسٹ ماڈل کی کاریں
، عالیشان مکان ہو اصل میں بڑا آدمی ہے۔
جب میں نے یہ دولت اور آسائشیں حاصل کر لیں تو محسوس ہوا کہ میں ابھی تک
بڑا آدمی نہیں بن پایا۔ اندر کےچھوٹے پن کی ایک خلش سی محسوس ہونے لگی۔یہ
خلش اتنی بڑھی کہ راتوں کو اچانک آنکھ کھل جاتی اور یہ سوال ہتھوڑے کی طرح
دماغ پر اثر انداز ہوتا۔ چنانچہ میں دوبارہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے نکل
کھڑا ہوا کہ ” بڑا آدمی ” کون ہے؟
میں کافی لوگوں کے پاس گیا مگر سب نے الگ الگ جواب دیا جوگیوں نے کہا کہ
دنیا چھوڑ دو ، یہ دنیا تمہارے پیچھے چلنے لگے گی اور یوں تم بڑے آدمی بن
جاؤگے۔دنیا داروں نے مادی سازو سامان میں اضافے کا مشورہ دیا۔ فلسفیوں نے
علم میں اضافے کے ذریعے لوگوں پر دھاک بٹھانے کے لئے کہا۔ لیکن ان میں سے
کسی جواب سے تشفی نہ ہوئی کیونکہ ہر جواب انسانوں کا بنایا ہوا تھا۔
پھر خیال ہوا کہ یہ بات کیوں نہ اسی سے پوچھ لی جائے جو سب سے بڑا ہے۔
چنانچہ خدا سے لو لگائی اور اس کی کتاب اٹھائی قرآن کو دیکھا تو علم ہوا کہ
خدا کے نزدیک “بڑا آدمی” وہ ہے جو تقوٰی اختیار کرلے، خود کو اپنے خالق کے
سامنے ڈال دے، اپنی ہر خواہش کو اس کے حکم کے تابع کرلے، اپنا جینا ، مرنا
خدا سے وابستہ کرلے ، اپنی جسم کی ہر جنبش پر رب کا حکم جاری کردے، اپنے
کلام کے ہر لفظ کو اسکے رعب کے تابع کرلے، اپنے دل کی ہر دھڑکن اسکے یاد سے
معمور کرلے اگر یہ سب ہوجائے تو خدا اس شخص کو اتنا بڑا کردیتا ہے کہ وہ
پہاڑوں کی بلندیوں سے بلند ہوجاتا ہے اور چاندوسورج کی چمک سے بھی زیادہ
چمکنے لگتا ہے
انہی خدا کے نیک بندوں کو اسلام میں اولیاء اللہ کہا جاتا ہے- |
|