ضرورت مند طالب علموں کی مدد اور ہمارا تعلیمی نظام

تعلیم ترقی کا زینہ ہے لیکن بہت سے طلباء وطالبات اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ان کی مدد کرنا ہم سب کا فرض ہے اور یہ ہی ملت کی تعمیر کا اصل طریقہ کارہے ،آل پاکستان میمن یوتھ سمیت اس ملک میں بہت سے ایسے ادارے اور تنظیمیں ہیں جھنوں نے اس وقت مستحق طلبہ وطالبات کی مدد کا بیڑا اسی جزبے سے اٹھا رکھا ہے ۔ ایسی تنظیموں کا اہم پروجیکٹ یہ ہے کہ مختلف سیلیبس کی کتابیں اکٹھی کرکے ضرورت مند طلباء و طالبات میں مفت تقسیم کی جائیں تاکہ بچے ایک سال کی تعلیم مکمل کرکے اگلے مرحلے میں چلے جائیں اس طرح عوامی خدمت کرنے والی تنظیمیں پرانی جماعت کی کتابیں حاصل کرکے اس جماعت میں آنے والے نئے طلباء وطالبات کو مفت میں مہیا کرتی ہیں۔قائرین کرام کیا ان نیک کاموں کی ذمہ داریاں صرف چند ہی تنظیموں کے ذمہ عائد ہیں کیا ہم اس عظیم جدوجہد میں ان لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسی تنظمیں جو مستحق طلباء وطالبات کی مدد کرتی ہیں ان سے ملاقات کرنا یا رابطہ کرنا آپ کی دسترس سے باہر ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایسے ضرورت مند طلباء وطالبات کو مکمل نظر انداز کردیں اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں یقیناً ہمیں اپنے گلی محلے میں ہی ایسے مستحق خاندان نظر آجائینگے جو محض اپنے بچوں کو اس لیے نہیں پڑھا سکتے کہ کہ اس قدر مہنگے دور میں ان کے لیے اپنے بچوں کاتعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا اب ممکن نہیں رہاہے وہ حکومتیں جو اس قو م سے تعلیم اور روزگار کا نام لیکر ووٹ حاصل کرتی ہیں وہ ہی لوگ اقتدار میں آکر ایسے بھول جاتے ہیں جیسے وہ اس قوم کو جانتے ہی نہیں ہیں ،مگر ہم لوگ جو ایک قوم ہیں مل کر ہر آفت ہر مصیبت اور ہر اس خاندان کی مدد کرسکتے ہیں جو لوگ اس ملک کی ترقی کی عظیم سیڑھی جسے تعلیم کہتے کو سر کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ایسے میں صاحب حیثیت لوگوں سے میں اپنی اس تحریر میں درخواست کرونگا کہ وہ اس عظیم جدوجہد میں جس میں آل پاکستان میمن یوتھ کے نوجوان اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور اسی طرح کی اور بھی بہت سی تنظیموں کا ساتھ ضرور دیں اس کے لیے آپ ان کی مالی امداد یا پرانی کتابوں سے مدد کرسکتے ہیں اس کے علاوہ جو لوگ اچھے انداز میں بھرپور مدد کا اعادہ رکھتے ہیں وہ مختلف کلاسوں کی نئی ٹیکسٹ بکس کے سیٹ خرید کر ایسی تنظیموں کو مہیا کرسکتے ہیں جو کہ بعد میں ضرورت مندطلباء وطالبات کو مفت دیدی جاتی ہیں ،ان لوگوں کی خاصیت میں یہ بات بہت اہم ہے کہ اس عظیم مقصد کے لیے اگر ان کے پاس کچھ رقم اکھٹی ہوجاتی ہے تو اس رقم کو یہ مستحق طالب علموں کی فیسوں اور دیگر تعلیمی اخراجات میں صرف کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی تنظیمیں جو ملک میں ہر حال میں تعلیم کا دیا روشن کرنا چاہتی ہیں عموماً سال میں ایک بار اپنے کیپموں کا افتتاح کرتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ 10سے 15 دن تک ہوتا ہے ایسے میں یہ مختلف شہروں کے مشہور چوراہوں اور راستوں پر کیمپ لگاتے ہیں تاکہ آنے جانے والے لوگوں کی نظریں ان پر پڑتی رہیں سال میں ایک بار اس طرح کے کیمپ یا اسٹال لگانے کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر سال ایک طالب علم اپنی کاوشوں سے آگے بڑھتا ہے اور اپنی نئی کلاس میں چلا جاتاہے ایسے میں پچھلی جماعتوں کی کتابیں ان کے لیے کچھ یادوں یا ردی کی سی حیثیت رکھتی ہیں جن کا استعمال گھر کی الماریوں یا کباڑخانے سے زیادہ نہیں رہتا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی تمام کلاسوں کی کتابوں کی حفاظت اس طرح کریں تاکہ آئندہ یہ ہی کتابیں کسی ضرورت مند طالب علم کے کام آجائیں یہ عمل پاکستان کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیا میں ان ہی ممالک نے ترقی کی ہیں جن ممالک میں تعلیم کی ضرورت کو تمام شعبوں میں سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں دور دور تک نہیں ہے جو علم کی شمع کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں!! ہم اگر اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو جو اس تحریر میں میں نے ایک غریب طالب علم کا زائچہ کھینچا ہے اس سے بھی بری صورتحال ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں کی ہیں اس سلسلے میں آپ صوبہ سندھ کی مثال اپنے سامنے رکھ سکتے ہیں جس میں ایک اندازے کے مطابق محکمہ تعلیم میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے سات سالوں میں چھ ار ب روپے کی خطیر رقم رکھی جاچکی ہے اس کے باجود آپ کراچی سمیت سندھ کے دوروں پر نکل جائیں آپ دیکھیں گے کہ بے شمار اسکول پانی بجلی اورٹوائلٹ جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں آپ دیکھے گے کہ صوبے میں46 ہزار39 اسکولوں میں سے 6ہزار 140اسکول بند پڑے ہیں ،اٹھارہی ہزار اسکولوں کو مرمت کی ضرورت ہے ،8ہزار اسکولوں کا ایسا انکشاف ہوا ہے کہ جن کی چھت ہی نہیں ہے ،62فیصد اسکول بجلی سے محروم ہیں ،53 فیصد اسکول میں پینے کا پانی تک نہیں ہے آپ دیکھے گے تعلیم کے نام پر بنائے گئے اسکول اس وقت مہمان نوازی کی اوطاقوں میں تبدیل ہیں آپ دیکھیں گے کہ اسکولوں میں مقامی جاگیرداروں کی بھینسیں اور گدھے بندھے ہوئے ہیں اس کے علاوہ بھی بہت سی خامیاں ملیں گی جو بعد میں حکمرانوں کی ناکامیوں کی صورت میں نظر آنے لگتی ہیں ایسے میں اس بات کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہئے کہ بحیثیت ایک قوم ہم اپنے اپنے مقاصد کو بھول جائیں اور ہم بھی ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح بے حس ہوجائیں لہذا آگے بڑھیئے اور اس حکومت کو اپنا کام کرنے دیں اﷲ پاک اس قوم پر خدا ترس اور عوام سے محبت کرنے والے حکمرانوں کو ایک دن ضرورنافذ فرمائے گا مگر اس کے ساتھ ساتھ علم کی شمع کو جلاکر رکھنے کی جو ذمہ داریاں ہماری ہیں اسے قائم رہنا چاہے اس شمع کو کسی بھی حال میں نہیں بھجنا چاہیئے ہمیں اپنے ضرورت مند طلباء وطالبات کو حکومتی بجٹ پر نہیں بلکہ اپنے حصے کی کوششوں سے پڑھانا ہے اور اس ملک کی ترقی میں بے مثال کردار ادا کرنا ہے کیونکہ مستحق طلباء وطالبات کی مدد صرف اس طالب علم پر نہیں بلکہ پاکستان پر احسان کرنے کے مترادف ہے ۔
Nouman Wadera
About the Author: Nouman Wadera Read More Articles by Nouman Wadera: 7 Articles with 8942 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.