ہر انسان کی فہم و فراست مختلف نوعیت کی
ہوتی ہے۔کچھ لوگ قدرتی طور پر ذہین و فطین پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے تمام
لوگوں کو شعور کی منزلیں خود طے کرنی پڑتی ہیں ۔انسانی سوچ کا دارہ اختیار
بہت وسیع ہے، ذہنی استعداد کو بروئےکار لانے کے لیےانسانی دماغ کو مختلف
مراحل سے گزارنا پڑتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان مراحل کو چار حصوں میں تقسیم
کیا جاسکتاہے۔
1- اعداد و شمار(ڈیٹا): خام حقائق، الفاظ،علامات اورسادہ فرہنگ
2- معلومات (انفارمیشن): ڈیٹا جب سیاق و سباق،بامعنی اور مفید مواد کی شکل
میں تبدیل ہوجائے۔ ڈیٹا جو "کیا"،"کون"،"کب" اور "کہاں" جیسے سوالات کے
جوابات مہیا کرے۔
3- علم(نالج): نالج کی تعریف صحیح معنوں میں بیان نہیں کی جاسکتی البتہ اس
کو سمجھنے کے لیے یہ کہا جا سکتا ہےکہ علم صحیح یا معقول معلومات کا مجموعہ
ہے۔معلومات جو "کیوں" اور "کیسے" جیسے سوالات کے جوابات فراہم کرے۔ معلومات
کی کمی آپ کے علم کوآگے بڑھنے نہیں دیتی۔
4- حکمت و دانائی(وزڈم): علم کی بنا پر صحیح اور غلط کی پہچان کرتے ہوئے
فیصلہ کرنا۔مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا حل بتلانا اور درست سمت میں
چلنے کی آگاہی دینا۔
چند نامور اسکالرز کے اقوال ملاحظہ ہو:
"حکمت و دانائی اسکولنگ کی پیداوار نہیں ہے بلکہ اس کو زندگی بھر کی کوششوں
سے حاصل کیا جاتا ہے۔" (البرٹ آ ئنسٹائن)
"علم کا صحیحاستعمال "عقلمندی " کہلاتی ہے۔"(چارلس ایچ سپر جئین)
" حقیقی حکمت و دانائی یہ جاننے میں ہے کہ آپ کچھ نہیں جانتے۔" (سقراط)
عام طور پر کثیر افراد معلومات کی حد تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔تعلیم
حقیقت کو پرکھنا سیکھاتی ہےجو بعد ازاں علمی سوجھ بوجھ کا سبب بنتا ہے۔جب
حقائق کو مشاہدہ غوروفکر اور دلیل و برھان کی مدد سے معلوم کیا جائےتوانسان
حقیقت کی کھوج لگانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔علم سے فہم و ادراک تک کا سفر
زیادہ کٹھن نہیں سمجھا جاتا کیونکہ جب انسان کا علم سنِ شعور کو پہنچتا ہے
پھر حکیمانہ تدابیر اس طرح وارد ہوتی ہیں جیسے ساون کے مہینے میں بادل اُمڈ
کر آتے ہیں۔
دانشور اور زیرک انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے عیب خود تلاش کرتا ہےاور
اپنے تجربات کو سامنے رکھ کر مسائل کا حل بتلاتا ہے۔درحقیقت اس مقام پر
چھٹی حِس ناقابلِ یقین حد تک کام کرنا شروع کردیتی ہے۔
تحریر :فراز ناصر دھاریوال |