سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس
(Gulzaib Anjum, Kotli-a.kashmir)
اتنی اچھی تربیت کے باوجود بھی پتہ چلتا ہے کہ
کہیں کوئی کمی باقی ہے ابھی.
بچی گود میں لے گاتے ۔۔ دهیاں دتتیاں نئیں دتا مال مالکا
|
|
سیری نالا بان
سے لیا گیا اقتباس
تحریر :-
گل زیب انجم
شاید شیروں کی ہمسائیگی کی وجہ سے انہیں شراں کہا جاتا ہو .
موبائلز فروٹس شاپ کا قیاس کیا جاتا ہے
پاوں میں زری چپل یا سلیپر ہوتے.
بو جی کو کلالاں والی کیوں کہتے.
پرانیوں وردیوں کی پیوند کاری کرتے.
سر شام گهر آ جاتے کہ چراغ میں شاید تیل ہو یا نہ ہو.
دبئی میں پاپا اتنے ہی مشہور ہوئے جتنے سیری
میں حوالداری سے ہوئے .
اجهی تربیت کے باوجود پتہ چلتا ہے کہ. .......کوئی کمی سی ہے باقی.
پرندوں کا ایک ہی شجر پر بسیرا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ تمام جانداروں
کو اپنے رہنے کی جگہ سے پیار ہوتا ہے محبت ہوتی ہے اور یہی محبت حب الوطنی
سمجهی جاتی ہے. ارسطو نے کہیں کہہ دیا تها کہ انسان معاشرتی حیوان ہے . اب
بیچارہ ارسطو تو کہہ کر چلا گیا اور ہم سوچتے ہی رہ گے کے آخر اس کو یہ
کہنے کی کیا سوجی تهی لیکن ہم اسے غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہمارا شب روز
کا مشاہدہ اس بات پر سر خم تسلیم کرنے پر ہی مجبور کرتا ہے. بلکہ ہم میں
شاید پرندوں والی حس زیادہ پائی جاتی ہے وہ اس لیے کے ہم اتنی وسیع دنیا
میں رہنے کے باوجود ایک محدود حدود اربعہ تک ہی اکتفا کرتے ہیں.
سیری کی ہر گلی کا کسی گلی سے یوُں گلیوں ہی گلیوں میں مل جانا بهی محبت ہی
کہلاتا ہے. چوہدریوں کے برادران ثالث کے صحن سے ہوتا ہوا رستہ ماسی شیراں
کے گهر کی طرف جاتا ہے تو دوسری سمت بو کلالاں والی جو ہیں ان کے گهر کی
طرف آ جاتا ہے . ماسی شیراں کا اصلی نام کیا ہے کبھی نہیں سنا شراں بھی جو
سنا تو کچھ ابہام ہی رہا وہ اس لے کے یہ جمع کا صیغہ ہے اور صفت مذکر میں
آتا ہے، شیرنی کہا ہوتا تو کچھ بات بنتی یا شیرون ہوتا تو سمجھ لیتے فارسی
سے اخذ کیا ہوا ہے لیکن یہاں جو نام رکها گیا وہ پنجابی زبان کا ہے جس سے
مراد دو تین شیروں سے دی گئی تشبیہ ہے جیسے پہلوانوں کی ماں کو پنجابی میں
کہتے ہیں شیراں دی ماں یا پہلوانوں کے محلے یا پینڈ کو شیراں دا پینڈ اسی
طرح گوجرانوالہ کے ایک باغ کو شیراں والا باغ کہا جاتا ہے. ماسی شیراں دے
پتر وی شیراں ورگے نئیں ہن جے ماسی کو انہی کی بنا پر شراں دی ماں کہا جاتا،
گلبہار اور عاشق کا بس اس قدر احسان ہے کہ انہوں نے ماں کو بے اولاد ہونے
کے طعنے سے بچا لیا یا کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ماسی شیراں کی اولاد نرینہ
نہیں. ہاں البتہ ماسی کو شیراں دی محلے دارن یا پڑوسن ہونے کا پورا اعزاز
حاصل ہے وہ ایسے کے "چار شیروں کی سیری" کے آخری دو شیر ماسی کے شرقاٗ غرباٗ
پڑوسی ہیں. ماسی کو اللہ زندگی دے بہت دلیر اور خوددار خاتون ہیں لیکن کیا
کہنے غریبی کے کب کسی کو خوددار رہنے دیتی ہے.
ماسی کے شوہر نامدار بڑی پتلی دبلی جسامت کے مالک تهے یہ عاشق بهی تو بالکل
انہی کی کاپی ہی لگتا ہے لیکن وہ تو چنگے کماو قسم کے تهے لاہور اور فیصل
آباد تو انہوں نے قدموں تلے بنائے ہوئے تهے جب بهی گرمیوں میں پنجاب سے آتے
تو وویل کا سفید کڑتا اور دهاری دهار دهوتی باندهے ہوتے پاوں میں کبھی زری
چپل ہوتی تو کبھی ہوائی ( سٹرپ سیلپر) چپل پہنی ہوتی پتلے اور زردی مائل
پیروں پر بڑی اچھی لگتی پہاڑی پہنجابی رولا ملا کر بولتے تو دل کرتا سنتے
ہی رہیں اگر ان سے پوچھتے کہ گرمیوں میں ہی کیو ں آتے ہیں تو کہتے اوتهے
بجلی ٹر جاندی اے تے دل نوں خفا جیا محسوس ہون پیندا ایس لئی ادهر (سیری) آ
جائ دا . ماسی بسنتا جو حقے کا کش لینے قریب ہی بیهٹی ہوتی تھیں ان کا جواب
سن کر کہتی سید محمدا ادهر تو بلکل ہے نہیں(اس وقت سیری میں بجلی نہیں ہوتی
تھی) تو پهر کیوں تمہیں خفا نہیں پڑتا، بووی ادهر روکهاں دی ہوا تے ٹهنڈی
چهاں تے ہے ناں. ہم ان کی زبان سے روکهاں سن کر گلبہار سے پوچھتے یہ روکهاں
کیا ہوتا ہے تو ناک کهینچتے ہوئے کہتا لوروں او آئین یا میں(لاہور سے وہ
آئے ہیں یا میں) تب ماسی شیراں ہمیں بتاتی کہ درختوں کو پنجابی میں روکه
کہتے ہیں . سید محمد کچھ عرصہ بچوں کو بھی پنجاب میں گهوما پیهرا لائے
پنجاب میں ان کیا کاروبار یا ذریعہ معاش تها کچھ بھی واضح نہیں بتا سکتے
البتہ کسی سکول یا کالج وغیرہ میں موبائل فروٹس شاپ کی زیادہ قیاس آرائی کی
جاتی ہے جب تک ٹانگوں میں دم رہا کام کاج کیا لیکن ایک دن مکمل طور پر واپس
آ گئے . آخر دیاڑی دار یا پهیری والے کا جو انجام ہوتا ہے وہی ہوا اور بستر
علالت جو پہلے سے ہی ایک شجر کے نیچے منتظر تها اس نے پکا ناطہ جوڑ لیا
ٹانگ، کمر کا درد دمے کا مرض بن گیا تو سید محمد شجر سے برآمدے تک کا سفر
بهی کوہ قاف سمجهنے لگے. بیماری جو کام نہ دکها سکی اسے غریبی نے پورا کیا
اور آخر ایک دن دمے سے بند ہوتی سانسیں گبهرائے ہوئے پرندے کی طرح ساری
رکاوٹیں عبور کر کے پرواز کر گئیں جنهیں اکیلی ماسی شیراں ہاتھ ملتے دیکهتی
رہ گئی اور یوں سید محمد تین بچیاں اور دو بچے شیراں جی کے حوالے کر کے
جاتے ہوئے کہہ گے کہ یہی ہے دستور دنیا.
ہم نے گلی کی دوسری نکر کا ذکر بو کلالاں والی جی کا کیا تها بو جی کے دور
میں بزرگ یا بڑی خواتین کو بوا کہا جا تا تها لیکن بوا بهی کسی ایک خاندان
کی عورتوں کے لیے مختص تها بو جی کیوں کہ اس خاندان میں نہیں آتی تهی اس
لیے اہل محلہ یا عزیز و اقارب نے بوا کا الف کاٹ کر بو بنا دیا . بو جی کو
نہ صرف بیٹے بیٹیاں بو کہتے تھے بلکہ جس کو بھی بلاتے سنا اسی کو بو کہتے
سنا. صرف میاں جی جو ان کے پڑوسی تهے وہ انہیں پہاوی عالماں کہتے تهے . بو
کو کلالاں والی کیوں کہا جاتا تها اس کیوجہ تسمیہ یہ تهی کہ بو کا آبائی
گھر جو انیس سو سنتالیس سے پہلے کا تها وہ کلالاں میں تها یہ کوئی گاوں ہی
تها جو کہ مقبوضہ کشمیر میں تها خیال کیا جاتا ہے کے یہ پنڈارها یہ ٹائیں
کے مضافات میں ہی تها بو چونکہ سیری میں اور بهی تهیں اس لیے جائے پیدائش
کو نام سے منسوب کرتے ہوئے بو کلالاں والی بن گئیں.
بو نے بیوگی کا بڑا لمبا چوڑا سفر کاٹا لیکن اپنی انا پر حرف نہیں آنے دیا
بو کی آٹھ اولادیں تهی جن میں دو بیٹیوں کے علاوہ باقی سب بیٹے تھے،
کسمپرسی کے زمانے میں اتنی اولادوں کی پرورش بہت ہی مشکل کام تها پهر بھی
بو نے کوئی کسر نہ اٹھا رکهی. دوراندیش بو نے وقت کی مناسبت سے بیٹوں کو
ایسے سانچے میں ڈهالا کے بیٹوں کو زندگی گزارنے کا فن ہی آ گیا. بڑے بیٹے
کو فن پوشاک سازی سے آراستہ کیا اور ملٹری میں بطور سول ٹیلر بهرتی کرا دیا
اس سے دو چهوٹوں کو پہلے دانے پیسنے والی چکی لگا دی تاکہ خلق خدمت کے ساتھ
ساتھ گهر کا نظام بھی چلتا رہے ان سے چهوٹے کو فوج میں بھرتی کروا دیا اب
جب پانچویں نمبر والا جوان ہوا تو چکی والے چکی اس کے حوالے کر کے ایک
لاہور نعمت کدہ پر چلا گیا اور دوسرے نے پرانے تجربے کی بنا پر گهر کے پاس
ہی چکی لگا لی . اب چونکہ سب سے چهوٹا سکول میں زیر تعلیم تها بو نے اس
ماحول کی مناسبت سے تعلیم جاری رکهنے کا مشورہ دیا کیوں کے پڑوس کے کچھ
گهروں کے لڑکے پڑه رہے تهے جو وکالت کی ڈگریاں حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف
تھے تو بو نے اپنے تجربات کی روشنی میں بیٹے کو بابو گیری کی طرف گامزن کر
دیا کیونکہ بو جانتی تهیں کہ اگر ایک گهر کے دو لڑکے وکیل ہوئے تو میرے
بیٹے کو کون وکیل کرے گا مذید روپے پیسے کی کهاپ سے بہتر ہے کہ بارہویں کرا
کر زراعت میں بابو لگوا دوں بابو گیری بھی چلتی رہے گی چوہے مار گولیاں بھی
اصلی ملتی رہیں گی، خیر بو کی کوشش سے بیٹا بابو بن ہی گیا.
بو جی کے ہر بیٹے میں کوئی نہ کوئی خوبی پنہاں تهی بڑا بیٹا صادق (جو
سوتیلے تهے) ان پر ڈبل یتیمی نے کچھ خاص ہی رنگ دیکها تها ، فن پوشاک سازی
کی مہارت کے بعد قریبی فوجی ہیڈ کوارٹر میں وردیاں بنانی اور پرانیوں کو
پیوند لکانے شروع کر دیے جب کام پر مکمل عبور حاصل ہوا تو اپنے ہی بازار
میں خود کی دکان رکھ لی. انہی دنوں میں آپ کی زوجہ محترمہ جن کو سارے پہاوی
شیدا کہتے تھے آنکھوں کے عارضے میں مبتلا ہوئی اور یوں ان کی ایک آنکھ کی
نظر جاتی رہی . صادق جی دن کی روشنی جب تک رہتی کام کرتے عصر کے وقت حقہ
اٹهاتے اور گهر آ جاتے اور گهر کے کاموں میں ہاتھ بٹائی کرتے رات کا کھانا
شام ہوتے ہی کها لیتے حقے کی ٹوپی میں دن کے پڑے تمباکو کو ہی پهر سے جلانے
کی کوشش کرتے جو نہ جلتا تو ٹوپی کو انڈلتے اور تهوڑا سا تمباکو حقے کو یا
خود کو تسلی دینے کے لیے ڈالتے چوہدری سدو کی ہٹی سے لیا کالا گڑ بهی تهوڑا
سا ڈال لیتے پہلا کش آنکھیں بند کر کے لیتے اور جب دھواں منہ بهر کر نکلتا
تو دوسرا کش مسکراتے ہوئے لیتے اور مکمل کهلی آنکھوں سے دھواں اڑتا دیکهتے
. تمباکو نوشی کے بعد پاس لیٹی چهوٹی بیٹی عذرا کو اٹھا کر گود میں الٹا
رکه کر پیٹھ تهپکتے اور لمبی سی آہ بهرتے اور بڑی سوز بهری آواز میں کوئی
بہت ہی پرانا گیت گاتے ......
دهیاں دیتتیاں نی نئیں دتا مال مالکا.......(بیٹیاں تو دی ہیں نہیں دیا مال
میرے مالک). بیٹی جو یہ سننے کی عادی ہو چکی تھی سنتے ہی سو جاتی. سوئی
ہوئی گول مٹول سی بیٹی کو سینے کے برابر اٹها کر دو بوسے دیتے اور پهر لٹا
دیتے . پہاوی شیدا اپنی پائنتی لیٹی ہوئی زہرہ کو لحاف کے ایک کونے سے
ڈهانپتے ہوئے دبے لفظوں سے شکوہ کرتے ہوئے کہتیں آج بھی دیے میں تیل نہیں
ہے اگر موسم کی خرابی کے باعث اندر جانا پڑا تو مشکل ہو گی صادق بات کو
مزاح میں لیتے ہوئے کہتے تیل تورهوں ہی نئیں تے میں کہہ کراں . سویرے نہاری
واسطے وی کج نئیں. میاں ہوراں نیاں پتہ کرنا کج لعبی جاسی، جواب سن کر حسب
عادت پہاوی کروٹ لے کر سو جاتی یا شوہر کی طرح آنے والے کل کا سوچتیں اور
پهر دونوں میاں بیوی کی ایک ساتھ ہہی آواز آتی اللہ کرم .
سعودی عرب کے ورک ویزے کهلے تو صادق جی نے بھی ضروری کاغذات جمع کرائے نصیب
بدلنے کو تهے راہیں خود ہی ہموار ہونے لگی تهی چہٹ بهی نہ لگا تو صادق
سعودی عرب چلے گے دو سال بعد پہلی رخصت پر گهر آئے تمام روپ نکهار بدلے
ہوئے تهے بیوی کی معذوری کا سوچتے ہوئے فیصلہ کیا کہ دوسری شادی ضروری ہے
ایک تو شیدا کو کام کاج سے فرصت مل جائے گی دوسرا مہمانوں کی خاطر تواضع
ہوتی رہے گی. صادق اب ماشاءاللہ حاجی صادق ہو چکے تهے سعودی صراف کی بنی
ہوئی چار انگوٹھیاں گورے گورے ہاتھوں کی بهری ہوئی انگلیوں پر دیکهنے والوں
کو رام کرنے کے لیے کافی تهیں. شیدا جی کی قسمت بهی کچھ مہربان تهی اس لیے
حاجی جی کو رشتہ جلدی ہی مل گیا ویسے بھی واپس جانے کا عذر کافی اہمیت کا
عامل تھا. شادی کرنے کے دو تین ماہ بعد حاجی صاحب واپس چلے گے پہاوی شیدا
جو پہلے بچیوں سے ہی کپڑا چیلا دهلا لیتی تھیں اب کپڑوں کی چهوٹی سی گٹھڑی
اٹهائے دیریاں کی کسی پر چلی جاتی شام سے کچھ پہلے گهر لوٹتی نصیب کا لکها
ہوا کچھ سنتی کچھ کها لیتی. سردیوں کے دن تهے دروازے کے سامنے والی چارپائی
سے کروٹ لے کر پہاوی نے کلہوٹی کی طرف دیکها جہاں زہرہ کچھ کسر پهسر کر رہی
تهی پہاوی نے دبی آواز میں پاس بلایا پوچها آج بھی سکول جائے گی اس نے ہاں
میں گردن ہلائی تو پہاوی نے کہا ٹائم سے جانا اور جلدی واپس آ جانا .
سردیوں میں سکول نو بجے لگتے تهے فرمانبردار زہرہ سات بجے تیار ہو کر سکول
جا رہی تهی کہ میاں جی کے دوہترے (نواسے) نے پوچھ لیا کہاں جا رہی ہو کہنے
لگی سکول جا رہی ہوں پوچهنے والے نے کہا ابھی دو گهنٹے پڑے ہیں تم اتنی
جلدی کیوں، کہنے لگی بےجی کہتے ہیں جلدی جاو اور جلدی آنا . پتہ نہیں بےجی
کو کیا آثار نظر آ رہے تھے کہ زہرہ کو جلدی آنے کا کہا . لیکن ہمیشہ سے
فرمانبرداری دکهانے والی زہرہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی وقت پر گهر نہ آ سکی
تو پہاوی کی یک چشم انتظار کا مذید تاب نہ لاتے ہوئے ہمیشہ کے لیے بند ہو
گئی.
حاجی جی نے دو دو سال بعد والی کوئی دو تین چهٹیاں ہی کاٹی اور پهر پردیس
کو الوداع کہہ کر پکے واپس آ گے، اسی ثنا ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی شادیاں
بڑی دهوم دهام سے کی . وقت پر لگائے اڑتا رہا حاجی جی کا ریورس پتہ نہیں کب
کا اور کیسے لگ چکا تها یہ راز تب عیاں ہوا جب اسی بازار میں وہی سلائی
مشین رکهی جس پر کسی فوجی خطاط نے محمد صادق لکھا ہوا تھا. سلیقہ کمپنی کی
بننے والی شاید پہلی مشین تهی جو پینتیس سال بعد بھی روانی سے چل رہی تھی.
لیکن اس کا چلنا اب کافی نہ تها کیونکہ گهر کی بڑهتی آبادی کا لیول نو
افراد تک پہنچ چکا تھا اور پرانے طرز کے درزی کے پاس کپڑے سلوانے کوئی کیسے
آتا، ستاناس کپڑا بنانے والی ملوں کا سیدهے الٹے کا پتہ ہی نہیں چلتا ایک
دو سوٹ جو سلے بھی تو نوبت تو میں تک پہنچ گئی زمانے کے بدلتے تیور دیکھ کر
مشین اٹها کر گهر لے آئے کہ مفت میں دکان کا بهاڑا تو نہ بنے .
کہتے ہیں سر کا فضول میں کهجلنا دانتوں سے انگلیوں کے ناخن کاٹنا ہر وقت
زبان سے زہر اگلنا ہی بڑهاپے کا پتہ دیتا ہے بس یہی موسم یہاں بهی آ چکا
تها اوپر سے دمے (Asthma) کی ایسی تکلیف کہ اللہ امان، جب بڑهتی تو آس پاس
کے تین چار گهروں تک کراہنے کی آواز جاتی اور آخر یہی تکلیف ان کو گهر سے
کوٹلی ہسپتال لے گئی دو تین دنوں کے بعد حاجی جی نے تکلیف دہ سانسوں سے
چھٹکارا پالیا اور تکلیف کے بغیر جسم گهر والوں کی وساطت سے دو گز زمین کے
حوالے کر دیا. سچ کہا تها کسی نے کے دمہ دم لے کر ہی چهوڑتا ہے.
حاجی صادق بارعب شخصیت کے مالک تھے ان کے صورت کے متعلق یہ کہنا بے جا نہ
ہو گا کہ وہ اپنے پورے پریوار میں سے خوبصورت مرد تهے.
بو جی کے دوسرے لخت جگر کا نام محمد اسحاق ہے موصوف شروع سے ہی چنگے تگڑے
ہیں لیکن طاقت کو کبھی غلط استعمال نہیں کیا بلکہ ہنسی مذاق کو آپ نے اپنی
عادت بنا لیا. اکثر اپ کے شوق بیوپار تک آ کر ختم ہو جاتے ہیں حیوانات سے
آپ کی محبت مثالی ہے . پہلے پہل آپ لاہور کے نعمت کدہ پر گے جہاں خوب
محفلیں جمائی کام کاج کے ساتھ ساتھ دوستوں سے گپ شپ آپ کی زندہ دلی کا منہ
بولتا ثبوت تها . کچه عرصہ تک آپ کا شمار ٹاپ کے فلم بینوں میں رہا لیکن
وحید مراد کے مرنے کے بعد آپ نے سینما گھروں سے مکمل بائیکاٹ کر دیا وحید
مراد کی آخری فلم بہارو پهول برساو دیکهی اور اس کو ایسا ازبر کیا کے آدهی
زندگی اسی کی یاد میں گزار دی لاہور سے واپس آ کر جب آٹے کی چکی لگائی تو
تب بھی یہ گانا گاتے رہتے تهے ....میرے دل کی ہے آواز کے بچهڑا یار ملے
گا....! یہ یار کہاں کهویا تها اس کا پتہ نہ چلا لیکن گانا ان سب کو یاد ہو
گیا جو ان کی چکی پر دانے پیسانے گے . چکی کے زمانے میں ان کا لخت جگر
افتخار بھی ساتھ ہوتا تها لیکن وہ گانا تو یاد نہ کر سکا مگر اس نے کچھ
ایسا منتر ضرور یاد کر لیا جس سے دنیا کو گرویدہ کرنا سیکھ لیا. آپ کی ساری
اولاد ماشاءاللہ اچھی اور سلجهی ہوئی ہے اور ہر بیٹا ایک پہچان رکهتا ہے.
آپ نے چکی چهوٹے بهائی کے حوالے کی اورتلاش معاش میں بیرون ملک چلے گے ایک
طویل مدت تک باہر رہے اس مدت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب آپ پٹهانوں اور اندرا
پردیش والوں کی سی اردو بولتے ہیں باقی ان کا کچھ ذکر "چوہدریوں کی مشین"
میں ہو چکا ہے جہاں انہیں سائنٹسٹ ہونے کا خطاب ملا. ماشاء اللہ اب بھی آپ
اچھی صحت کے اور مجلسی طبیعت کے مالک ہیں اللہ آپ کو اور آپ کی محفلوں کو
سلامت رکهے .
ان سے چهوٹے بو جی کے تیسرے صاحبزادےحاجی کریم تهے. گوری رنگت اور مضبوط
جسم کے خوبصورت مرد تهے سفید داڑھی چہرے پر اتنی بهلی لگتی کہ دیکهتے رہنے
کو ہی جی کرتادهیمی آواز اور نپے تلے انداز میں بات کرنا آپ کی بزرگی کو
چار چاند لگاتا. اللہ تعالیٰ نے جہاں دوسرے کہیں انعامات سے نوازا وہی کثرت
اولاد کی نعمت سے بهی نوازا. آپ کم گو طبیعت کے مالک تھے لیکن جب کبھی
بولتے تو سبق آموز بات کہتے. آپ نے بهی بڑے بھائیوں کی طرح لاہور، چکی اور
پھر دبئی دیکهی، بچوں کو ممکنہ حد تک تعلیم دلوائی بلکہ اپنے تیسرے نمبر
والے بیٹے کو انجینئرنگ کی تعلم دلوا کر سیری کی عزت اور وقار میں اضافہ
کیا. چار پانچ بیٹوں کو دبئی سیٹل کیا اور خود گهر کی دیکھ بھال کے فرائض
انجام دینے لگے . پیسہ شہرت سب کچھ حاصل رہا لیکن انکساری کو ہاتھ سے جانے
نہیں دیا. کوئی بیماری دیکهے بغیر ہنستے دانتوں دنیا کو خیر آباد کہہ گئے.
بس اک ہچکی سی لگی جیسے لوگ ہارٹ اٹیک کہتے ہیں.
بو جی کے چوتھے بیٹے عبدالخالق تهے قد دوسرے بھائیوں سے سوتر دو سوتر کچھ
زیادہ ہی تها آپ کب فوج میں بھرتی ہوئے تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے لیکن ہم
نے لوگوں سے ان کو حوالدار کہتے سنا یہ حوالداری پہلے پہل تو ہمیں چوہدری
پرویز کی عطا کردہ شرارت لگی لیکن کچھ تگ و دو کے بعد ہمیں ان کے باضابطہ
حوالداری کے شواہد مل گے لیکن بتانے والے نے بهی صرف یہی بتایا کہ وہ فوج
میں رہے ہیں کتنا عرصہ رہے کب واپس آئے اس کا وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے.
ہمارا معاشرہ سیدهے سادے آدمی کو بھی فوجی کہہ دیتا ہے یا اپنی کہی پر ڈٹے
رہنے والے کو بھی فوجی کہتے ہیں اللہ غریق رحمت عطا فرمائے ان میں یہ ساری
خوبیاں موجود تهیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمدرد انسان تهے. باتیں بڑی پیاری
کرتے اور ساتھ باڈی یا صرف ہاتھ کو اتنی ہی حرکت دیتے جتنی قاری مد والے
حرف پڑهانے پر انگلی کهڑی رکهتے ہیں. زندگی کے آخری حصے میں گلے میں رسولی
کا نکل آنا آپ کے لیے کافی تکلیف دہ تها جراحی کے مرحلے سے بھی گزرے لیکن
کوئی خاص افاقہ نہ ہوا. اب باتوں کا اسٹائل بهی بدل چکا تھا سانس بھی لینے
میں دشواری ہوتی تھی. لاہور کراچی اور پهر آٹے کی چکی یہاں سے فارغ ہونے کے
بعد حسب روایت دبئی پرل کانٹی نیٹیل کی جاب ٹیکسی ڈرائیور اور پهر پرائیویٹ
پک آپ جیسی گاڑیوں سے وابستہ رہنے کے بعد پهر سیری. اسی اثنا آپ نواسے
نواسیوں والے ہو چکے تھے لیکن بہو کو دیکھ نہ پائے. آپ کی بہت مختصر سی
اولاد ہوئی کیوں کہ اولاد کے معاملے میں آپ کی پالیسی بینظیر بهٹو سے بہت
ملتی جلتی تهی اس لیے صرف دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے پاپا ہی بن سکے اور
دبئی میں پاپا جی کے القاب سے اتنے ہی مشہور ہوئے جتنے سیری میں حوالداری
سے ہوئے . بانجے کی رسم چہلم میں شرکت کے لئے جارہے تهے ابهی منزل دو گام
ہی دور تهی کے زندگی کی شام ہو گئی.
بو جی کے پانچویں بیٹے عبدالمالک جسامت میں دوسرے بھائیوں سے تگڑے سانولے
رنگ کے بانکے جوان بہت ہی میٹهی زبان کے مالک ہر ہم عمر عورت کو بووی جی ہر
مرد کو بیر جی ہر چهوٹے لڑکی لڑکے کو بچہ جی کہتے یہ بچہ مونث اور مذکر
دونوں کے لئے استعمال کرتے. فیشن ایبل دور میں بھی سادگی پسند ڈهیلے ڈهالے
سے کپڑے پاوں میں کبھی سیلپر کبھی جوتا چال میانہ روی گفتار میں انوکھی سی
مٹهاس بغیر کنگھی کیے بال مسوڑے قدرتی سرخ بات سنتے اور کرتے وقت دونوں
ہونٹوں کو ملا کر پچ کی خوبصورت آواز پیدا کرتے. بهلے بهاری جسامت کے باعث
توند نکل چکی تهی لیکن پھر بھی چست رہتے تهے . بچپن سے ہی قوت سماعت کچھ کم
تهی اوپر سے ورثے میں ملی مشین کی ٹهو ٹهو اور ٹهک ٹهک کی آوازیں سن سن کر
کچھ زیادہ ہی فرق پڑه گیا تها .
آپ نے پاکستان بشمول کشمیر کے کچھ مخصوص ہی شہر دیکھ رکهے تهے لیکن مشینی
اسناد کے بعد آپ دبئی میں بہت دیر تک رہے. دن رات جانفشانی سے کام کرتے
ہوئے کبھی گرمی سردی کو خاطر میں نہ لاتے . پردیس کی روزگاری انسان کو بہت
کچھ سکا دیتی ہے لیکن آپ نے پردیس سے جو سیکها وہ صبر تها.
آپ کے صبر کی بےمثل مثال تب دیکهنے میں آئی جب آپ کا چهوٹا بیٹا آپ ہی کے
ٹریکٹر کے نیچے آ کر اللہ کا پیارا ہو گیا . یہ مرحلہ ان کے لیے بڑا صبر
آزما تها کے ایک طرف بہن کا لخت جگر اور دوسری طرف اپنا نور چشم . یہ واقع
کچھ یوں ہوا کہ آپ کا بهانجا جو آپ کے ہاں مہمان آیا ہوا تها آپ کا ٹریکٹر
دیکھ کر کہنے لگا ماموں کیا میں چلاوں، آپ نے انکار مناسب نہ جانا اور چابی
دیتے ہوئے کہا کیا میں دکان سے نکال دوں اس نے کہا نہیں نہیں ماموں میں
نکال لوں گا وہ چابی گماتے گماتے دکان میں گیا ٹریکٹر اسٹارٹ کیا ریورس آتے
ہوئے پیچھے نہ دیکها کہ سال دو سال کا بچہ کهیل رہا ہے پتہ تب چلا جب ٹائر
اوپر سے گذر گیا بچے کی نکلتی چیخ پر آپ نے بهاگ کر دیکها تو آپ کے پہچنے
سے پہلا بچہ اللہ میاں کے پاس جا چکا تها .
ڈبڈبائی آنکھوں سے ٹریکٹر کی طرف دیکهتے ہوئے چلانگ لگا کر ڈرائیور سیٹ پر
خود بیٹھ گے اور بھانجے کو خاموش رہنے کی تلقین کی. انسانی زندگی کا خاتمہ
ہوا تها آناً فاناً کہرم مچ چکا تها .
لیکن آپ نے تحمل مزاجی سے کام لیتے ہوئے یہ بات کہہ دی کے ڈرائیو میں کر
رہا تها میری غلطی سے یہ حادثہ رونما ہوا ہےً. یہ بات اتنی صیغہ راز میں
رکهی گی کے بچے کی ماں کو بهی خبر نہ ہونے دی ،بیشک یہ بڑے دل گردے کی بات
ہے کم وقت میں اتنا بڑا فیصلہ آپ کی دور اندیشی کا آشکار ہے ورنہ اس وقت
آدمی یہی سوچتا ہے کی گھٹنوں سے پیٹ آگے ہے. اللہ آپ کو اس صبر پر اجر عظیم
عطا فرمائے.
آپ کو سینے کا سرطان لاحق ہوا لیکن آپ نے کسی کو محسوس تک نہیں ہونے دیا
لیکن روز بروز ڈهلتی صحت نے وہ راز عیاں کر دیا جو آپ نے اسی بیماری کے
ساتھ سینے میں چهپایا ہوا تها . فرمانبردار اولاد اور خدمتگار شریک حیات دن
رات آپ کی خدمت میں پیش پیش رہتے لیکن مرض تھا کہ بڑهتا ہی جا رہا تها بڑا
بیٹا جو علاج کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہا رہا تها ، اس کو فون کرتے ہوئے
اکثر ایسی بات کرتے کہ وہ سمجهے کے ابا ٹھیک ہو گے ہیں ہنس ہنس کر باتوں کا
جواب دیتے کہ وہ کہیں میری وجہ سے پردیس میں پریشان نہ ہو.
فرمانبردار بیٹا کب باپ کی بیماری سے غافل تها اچانک کسی خیال کی بنا پر
گهر آ گیا ایک ماہ ہی تقریباً انہوں نے بیٹے کو خدمت کا موقع دیا اور پهر
گهر بار سونپتے ہوئے جان جان آفرین کے سپرد کر دی.آپ کی یادیں باتیں آج بهی
یادوں کے جھروکوں میں کل کی طرح آبا د ہیں بیشک آپ جیسے لوگ برسوں دلوں میں
گھر کیے رہتے ہیں.
بو جی کے چهٹے بیٹے جن کو بو نے کبھی پورے نام سے بلایا ہو یا نہ ہو لیکن
بڑے لالہ ہمیشہ پورے نام سے بلاتے ہیں اور ان کے مونہہ سے لگتا بهی بہت
اچها ہے جب وہ عاشق حسین کہتے ہیں. جی ہاں یہ وہی عاشق ہیں جن کو اس پریوار
میں بابو کے نام سے پکارا جاتا ہے موصوف بہت عرصہ تک محکمہ زراعت کے بابو
رہے لیکن جب خاندانی ریت سامنے آئی تو آپ نے بهی بطور ٹیلرماسٹر کے سعودی
عرب کا ویزہ پکڑا اور سعودی چلے گے ٹیلرنگ سے دل اکتایا تو دبئی چلے گے
جہاں ڈرائیور کے فرائض انجام دینے لگے . بیٹے جوان ہوئے تو ایک کو دبئی
بلایا اور اپنے سا کام سکھلایا دوسرا انگلینڈ بیهجوا کر خود گهر واپس آ گے.
اور آتے ہی خاندانی پیشہ یعنی آٹے والی چکی لگا لی. اور تادم تحریر آپ چکی
چلا رہے ہیں.
بو جی نے اپنی اولاد کو معاشرے کے تمام نشیب و فرائض سکهلائے خود چرخہ کات
کر اولاد کا پیٹ پالا بیوگی میں بھی ایسی کهرانٹ طبیعت کے بڑے بڑے سورمے
بات کرتے ہوئے جهجکتے اور سر جهکا کر پاس سے گذرتے . بو جی سیمت سبهی بیٹوں
کو حج کی سعادت نصیب ہوئی بیشک قدرت کے انعامات میں سے ایک انعام ہے. بو جی
کی تربیت بہت اعلیٰ رہی لیکن دقیق مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ......
کہیں کمی سی باقی ہے ابهی...!
وقت بہتے پانیوں کی طرح چلتا رہتا ہے لوگ ہی اسے دن مہینے سال کا نام دیتے
ہیں اور یادوں کا کیا کہنا یہ کہاں سے شروع کہاں پہ ختم، بس وہی یادیں
دیرپا ہوتی ہیں جن سے بہت پیارے لوگوں کا کچھ ناطہ ہو. |
|