نیا کسان پیکیج
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
کسان سے زیادہ وقت کی پابندی اور بروقت کام
کرنے کا تصور دوسرے شعبوں میں بہت ہی کم ہے۔ موسم کی شدتوں سے لڑتا، راتوں
کو جاگتا، دنوں کی گرمی برداشت کرتا کسان اپنی کھیتی اور فصل کی دیکھ بھال
کے لئے ہر وقت چوکنا رہتا ہے، پانی کی باری ہے تو راتوں کی نیند قربان
کردیتا ہے۔ جب اس کی فصل تیار ہوتی ہے تو اس کی محنت کا صلہ اس کی آنکھوں
کے سامنے لہلہا رہا ہوتا ہے، خوبصورت فصلوں کی صورت میں اس کے خواب سامنے
تاحدِ نگاہ نظر آتے ہیں، پھر وہ خواب سمیٹتا اور فصل برداشت کرتا ہے، اسی
پر اس کی ترقی کا دارومدار ہے، اسی پر اس نے اپنے بچوں کی تعلیم کو جاری
رکھنا ہے، اسی فصل پر اپنی بچی کی شادی کرنا ہے، اسی پر دیگر اخراجات کا
بندوبست کرنا ہے۔
کسان جب اپنی فصل کے تیار ہونے پر آنکھوں میں خواب سجا لیتا ہے تو اسے دو
قسم کے دھڑکے ستاتے اور اس کی نیندیں اڑاتے رہتے ہیں، اول؛ موسم، کہ جس کی
شدت بھی فصل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے، اگر بارش بروقت ہو جائے تو فصل کے
لئے سونا اور بے وقت بارش فصل کی تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ دوم؛ فصل کی
قیمت، جو کہ موسم اور قسمت پر نہیں، حکومت کی پالیسیوں پر منحصر ہوتی ہے۔
عموماً ہوتا یہی ہے کہ کسان کو اس کی مرضی کی بات تو دور کی ہے، اس کی
ضرورت کی قیمت بھی نہیں ملتی، فصل پر اٹھنے والے اخراجات کا حساب لگایا
جائے تو وہ فصل کی قیمت سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ یوں کسان ہاتھ ملتا رہ
جاتا ہے۔ کسانوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی کوئی یونین نہیں، وہ
آپس میں متحد نہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک نہیں
پہنچ پاتی۔ تاہم اب کسانوں کو اپنے مطالبات منوانے کا ڈھنگ آرہا ہے، اب وہ
بھی ریلیاں نکالنے لگے ہیں، انہیں بھی دھرنوں کا سلیقہ آنے لگا ہے، وہ بھی
سیمینار منعقد کرنے لگ گئے ہیں۔ کسانوں کی انہی کوششوں کے پیشِ نظر چند ماہ
قبل وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے کسانوں کے لئے ایک بڑے پیکیج کا
اعلان کیا تھا، جس میں چھوٹے کسانوں کو امداد دینے کے ساتھ کھادوں وغیرہ کی
قیمتوں میں کمی کا اعلان بھی شامل تھا۔ کہنے کو تو یہ اربوں روپے کا پیکیج
تھا، مگر اونٹ کے منہ میں زیرا ہی ثابت ہوا۔
اب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی ایک زرعی کانفرنس میں کسانوں کے
لئے سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’’․․․ زرعی
کانفرنس ایک روایتی کنونشن نہیں ہے، بلکہ ایک سنجیدہ فورم ہے۔ جس نے زراعت
کی ترقی اور فروغ کے لئے ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ زمین زرخیز اور کسان
جفاکش ہے ، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم آج بھی زراعت کے شعبے میں پیچھے ہیں، اور
اسے صحیح معانوں میں ترقی دینے میں ناکا م ہیں، کبھی کپاس کی پیداوار میں
پاکستان بھارت سے آگے تھا، باسمتی چاول کی مارکیٹ پر پاکستان کی اجارہ داری
تھی، پاکستان دنیا کا چوتھا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے، لائیو سٹاک کے
حوالے سے شاید پاکستان دسواں بڑا ملک ہے، لیکن آج ہم پیچھے جاچکے ہیں، پوری
دنیا میں درخت لگانا صنعت بن چکی ہے، ہمارے ہاں جنگل ختم ہورہے ہیں، ہمیں
اس اہم کانفرنس کے ذریعے ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔ کاشتکار دن رات
محنت کر رہا ہے، لیکن فی ایکڑ پیدا وار میں اضافہ نہیں ہوا، ریسرچ ادارے
اپنا مطلوبہ کام نہیں کررہے، جس کے باعث کاشتکاروں کو مشورے دینے کا سلسلہ
بند ہوگیا ہے۔ زرعی منصوبہ سازوں ، حکومت، زرعی تحقیقاتی اداروں اور
یونیورسٹیوں کو مل کر اپنا کردا ر ادا کرنا ہے، ہم نے گنے کے کاشتکاروں کے
مفاد کا تحفظ کیا اور انہیں ایک سو اسی روپے فی من کے حساب سے گنے کی قیمت
کی ادائیگی یقینی بنائی۔ زراعت کی ترقی اور چھوٹے کسانوں کی خوشحالی کے لئے
کم نرخوں پر زرعی لوازمات کی فراہمی بھی ضروری ہے، چھوٹے کاشتکاروں کو جدید
ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا ہوگا، کہ وہ پیدا وارمیں کس طرح اضافہ کرسکیں۔
کاشتکاروں کی فلاح وبہبود اور خوشحالی ہمارا ایجنڈا ہے․․․‘‘۔ یہ تمام باتیں
اگر کسی اپوزیشن لیڈر یا کسی کسان رہنما نے کی ہوتیں تو اور بات تھی، خود
وزیراعلیٰ کی زبان سے عجیب لگتی ہیں۔ خود حکمران ہی اپنی زراعت اور دیگر
معاملات کے زوال پر اظہار افسوس کریں تو ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ کسانوں
کو سستی بجلی، سستی کھاد درکار ہے، ان کی فصلوں کو مناسب قیمت پر خریدنے کی
ضرورت ہے، ورنہ یہ ریڑھ کی ہڈی کمزور ہوگئی تو ہمارا اٹھنا بیٹھنا محال
ہوجائے گا۔ |
|