خدارا پختونوں کو جینے دو۔۔!

this article is about the current situations Pakistan are facing

Pukhtoon khwa Women

آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا ،بچے شہید ہوئے مائیں تڑپتی رہی بچوں کی لاشوں پر،وقت گزر گیا اللہ نے انکی دلوں پر صبر کے پردے ڈالے۔کم و بیش ایک سال بعد باچا خان یونیورسٹی پر اٹیک ہوا ۔کئی طلبہ اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ،ایک بار پھر مائیں تڑپی چیخ و پکار کی آخر انکا گلہ سوکھ گیا اور سسکیاں تھم گئی،اسی اٹیک میں ایسے لوگ بھی شہید ہوئے جو گھر کے خود کفیل تھے۔جن کے ماں باپ ،بیوی بچے شام کو اسی انتظار میں اپنے گھر کے سربراہ کی راہ تھکتے ہیں بچے اپنے باپ کے منتظر ہوتے ہیں کہ ابو آئے گے اور ہمارے لئے کچھ لائے گے،بے بیشک وہی باپ، وہی بیٹا گھر لوٹ آتا ہے مگر تابو ت میں وہی باپ گھر لوٹ آتا ہے بچوں کے لئے کھلونوں کے بجائے خون آلود کفن لاتا ہے۔وہ بیٹادو وقت کی روٹی تو نہ لاسکا مگر ایک گہرا زخم اپنے گھر لے آیا،بہر حال گزر گیا باچاخان کا قصہ بھی پرانہ ہوا۔لوگوں نے آہ وزاری کی افسوس کیا بس پھر کچھ ہی دنوں میں باچا خان کاباب بھی بند ہوا،انکے ماں باپ بھی خوب چلائیں مگر انکے گلے بھی بیٹھ گئے۔آج پھر ایک قیامت خیز دن کا آغاز ہوا ،پھر وہی قیامت برپا ہوگیا،آج پھر دوردراز کے لوگ ۔۔۔صبح اس خیال سے نکلے کہ اپنی بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کما کے لائیں گے،اس بار بھی وہی ہوا بدقسمت ماں باپ سے انکا آسرہ چین لیا گیا، ایک بار بھر وہی رزق کی تلاش میں نکلے لوگ خون آلود کفن میں گھر لوٹ آئیں۔میں بات کرہا ہوں سیکٹریٹ بس پر حملے کی جس میں ایک بار پھر کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ۔اسی بس میں موجودتنگی چارسدہ کے بدقسمت ماں باپ کا اکلوتا بیٹا حامد جان خان بھی تھا جو انجیئرنگ یونیورسٹی میں بطور کلرک کی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔حامد جان خان اپنے پیچھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو ایک ایسے موڑ پر چھوڑ گیا جن کو یہ پتا تک نہیں کہ ماں باپ کیا ہے انکا رشتہ کیا ہوتا ہے ان کو یہ پتہ نہیں کہ کسی کا باپ دھماکے میں شہید ہوجائے تو وہ لوٹ کر نہیں آتے۔۔۔بہر حال یہ زندگی کا یک معمول بن چکا ہے صبح کا جاگنا دھماکے کی خبر سے ۔اب اصل بات پر آتے ہیں کہ دھماکا ہوا ،سکول پر حملہ ہوا اور گھنٹوں بعد طالبان نے زمہ داری قبول کرلی۔کیسی زمہ داری؟کس چیز کی زمہ داری؟زمہ داری قبول کرنے والے سے پوچھوں کہ کیا چاہتے ہیں آپ لوگ ،میرے خیال سے پاکستان میں بیٹے مسلمان تو ایسا کبھی نہیں کرسکتے ہیں،جن کے دلوں میں زرہ بھر کا ایمان ہے اللہ کا ڈر ہے وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتے ۔اگر کئی برس پیچھے چلے جائے اور پاک آرمی اور عوام کے درمیان کا محبت اور بھائی چارہ دیکھے اور اسی کا موجودہ واقت سے موازنہ کرے تو زمین اور آسمان کا فرق نظر آتا ہے،وہی پاک آرمی جو کبھی پیار و محبت سے پیش آتے تھے ،آج جب وہی لوگ ملتے ہیں تو گلے ملنے سے پہلے ہمارے جیبوں کی تلاشی لیتے ہیں ،بیشک وہ لوگ جو بھی کررہے ہیں بالکل ٹھیک کر رہے ہیں ،کیونکہ پاکستان جوایک نازک دور سے گزر رہا ہے،ایسے حالات میں چیکنگ ضروری ہے اور یہ اب ایک مجبوری بن چکی ہے۔پاک آرمی ایک واحد ادارہ ہے جو اپنی ڈیوٹی بہتر طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں،اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر رہے ہیں اپنے ملک کی خاطر اپنی عوام کی خاطر۔پھر بھی ان کو کیا صلہ ملتا ہے ،نتیجہ آپکے سامنے ہے حیات آباد میں کرنل طارق غفور کو جمعہ کے نماز سے واپسی پر شہید کیا،کیوں کیا قصور کیا تھا۔کیا کوئی اپنے ملک کی خدمت کرے تو اس کو شہید کروگے وہ کونسا کتاب ہے جس میں ایسے ظلم کو بیان کیا ہے۔اس ملک میں جو بھی بدامنی پھیلارہے ہیں میں ان کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ خدا کے لئے یہ خون کی ہولی کھیلنا بند کرو،آخر کب تک ماؤں سے انکے جگر گوشوں کو جدا کروگے،کب تک بیوی بچوں سے انکے سائے چھینوں گے۔خدا کے لئے بس کرو! پختونخوا نے بہت سے زخم سہہ لیے بس اب اور زخم نہ دو۔اب اور امتحان نہ لو ہمارے پختون قوم کا ،خدارہ لوگوں کچھ تو رحم کرو،جس طرح تم لوگ شام کو اپنے گھر وں کو لوٹ کر منتظر بیوی بچوں سے ملتے ہو ،خدا کے لئے ان کو بھی جینے دو ان کے لئے نا سہی انکے بچوں کا خیال کرو،آخر خدا کو بھی ایک دن جواب دوگے تم لوگ! یا اللہ آخر پختونخوا کو کس کی نظر لگی ہے۔یا اللہ اب اور ان آفتوں سے ہمیں اور پوری انسانیت کو چھٹکارہ عطا فرما آمین!
ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے۔۔۔لیکن
اے ارض وطن!قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
خدارا پختونوں کو جینے دو۔۔۔
islam mohmand
About the Author: islam mohmand Read More Articles by islam mohmand: 14 Articles with 26471 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.