امریکی ریاست فلوریڈاکے پادری ٹیری جونز کا
پاگل پن اس بوکھلاہٹ کی انتہا ہے جو قرآن و اسلام کے تعلق سے یورپی حکمران
اور اہل کلیسا کو لاحق ہے ۔بظاہر دنیا میں سب سے زیادہ اکثریت رکھنے کے
باوجود بھی اہل کلیسا اپنے مذہب کی بساط چرچ سے باہر بچھانے سے معذور ہیں۔
بلکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ باہر کا ماحول ہی وقتا فوقتا کلیسا کے اندرونی
فضا پر اثر انداز ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ اثر انداز انداز
ہونے کے بجائے عیسائی مذہب طویل مدت سے اثر پذیری کے عمل سے گزررہا ہے۔ جس
کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مذہب اپنے ماخذ و منابع سے دور ہوتا چلا گیا۔ اور
اس کے مبلغوں نے مذہب کے بنیادی اصولوں اور قوانین کو بھی ذاتی منفعت اور
پیٹ کی پوجا کی خاطر داو پر لگادیا۔ نتیجتا آج ہر کلیسا اصل میں عیسائیت کا
قبرستان ہے۔ عیسائیت کا جنازہ نکالنے کا سہرا عیسائی مذہب کی روحانی
پیشوائی کے دعویداروں کے سر جاتا ہے۔ نشا ثانیہ کے دوران اہل کلیسا کی ضد و
ہٹ دھرمی صنعتی اور سیاسی انقلاب کے سامنے ٹک نہ سکی۔ چنانچہ نہیکے بے جا
تسلط اور ظلم و جبر کا نتیجہ تھا کہ ماٹن لوتھر نے ایک نئے عیسائی مکتب کی
بنیاد ڈالی جو پروٹسٹنٹ کے نام سے موسوم ہوا۔ اسی وقت سے مسیحیت لگاتار
زوال کی جانب گامزن ہے۔ انجیل میں غیر ضروری تحریفات اور پادریوں کی دیگر
حماقتوں نیرہی سہی کثر کو بھی پورا کردیا۔ نتیجتا آج کے عیسائی صرف اور صرف
نام کے مسیحی رہ گئے ہیں۔ اس مذہب میں بہت ساری خامیاں دھر آئی ہیں اور اب
یہ مذہب اس روحانی پیاس کو بحھانے میں ناکام رہا ہے جو فطری طور پر ہر
انسان میں پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائی مبلغین چند ایک غیر فطری اور
غیر اخلاق ذرائع تبلیغ استعمال کررہے ہیں۔ فی زمانہ جدید مسائل اور روز
بروز پیدا شدہ نئے مغالطوں کا حل اس جمود زدہ اور یک رخ مذہب کے پا س نہیں
ہے۔ اس زائید المعیاد دوا سے انسانیت کے تازہ زخموں کا مرہم ممکن نہیں ہے۔
ذہنی، قلبی، روحانی اور اخلاقی بیماریوں کا مداوا کیوں کرہوسکتا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ جدید ذہن میں تشکیک مذہب اورالوہیت کے بارے میں پائی جاتی ہے اس
کی تشفی کے بجائے عیسائی مشینری نے بھوکے پیٹ اور دیگر معاشی ضروریات کو ہی
اپنی دعوت کا ہدف قرار دیا ہے۔ اس کی کامیابی غربت و افلاس اورابتلا و
مصیبت پر منحصر ہے۔ ایک فارغ البال اور ذہنی صلاحیتوں سے بھر پور فرد کو
مطمئن کرنا مسیحیت کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہِذا خالی پیٹ اور مصیبت زدہ شخص
کی مادی تقاضے پورے کئے جاتیہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائی مشینری کی توجہ کے
مرکز عموما دنیا کے وہ جنگ زدہ اور غربت زدہ علاقے ہیں۔ جہاں کے لوگوں کی
اکثریت ایک لقمہ ترکے عوض اپنے پورے وجود کو کسی کے بھی حوالے کرنے پر ہمہ
وقت آمادہ رہتی ہے۔ سادہ لوح اور سطحی نظر کے حامل افراد عیسای مشینری کے
اس کام اور طریقہ کار کی مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں
کہ انکی یہ کارگزاری خلوص پر مبنی نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ واقعا انسانیت کے
ہمدرد اور مصیبت زدہ لوگوں کے مسیحا ہوتے تو یہ ہرگز طاغوت کی ظلم و زیادتی
پر تجاہل عارفانہ سے کام نہیں لیتے۔ امریکہ نے جو بربریت کے تمام سابقہ
ریکاڑ مات کئے ہیں۔ ایک لحاظ سے وہاں کا چرچ لاکھ جتن کے باوجود بھی
لاتعلقی کا اظہار نہیں کرسکتا ہے۔ انسانی خون کے کاروبار میں پادری بھی
اپنے حکمرانوں کے ساتھ شراکت رکھتے ہیں۔ سابق امریکی صدر جارج بش نے جب
گیارہ ستمبر کے بہانے سے افغانستان اور عراق کو تختہ مشق بنانے کا منصوبہ
بنایا تو اس نے ایک اور صلیبی جنگ کا اعلان کردیا۔ بش کے متعلق یہ بات طے
ہے کہ اس پر چرچ والوں کا کافی اثر تھا۔ اور چرچ کے یہاں اس کا آنا جانا اس
کی عیسائیت کے ساتھ وابستگی کی کھلی دلیل ہے۔ ظاہر ہے کہ چرچ کے پادریوں کے
ساتھ بھی اس کے نزدیکی تعلقات رہے ہوں گے۔ جب یہی امریکی حکمران مسیحی
پادریوں سے آشرواد لے کر انسانیت کے تئیں انکی رگ ہمدردی کیوں نہیں پھڑکی؟
کیا انہوں نے بش کو جنگی جنوں سے روکنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال
کیا؟ کیا انہوں نے اپنے حکمرانوں کی عالم انسانیت بالخصوص عالم اسلام کے
ساتھ روا رکھی گئی جارحیت سے کم از کم اظہار برات کیا؟ یہ سوال اب بھی ایک
حقیقت کا برملا اظہار ہے کہ صلیبی جنگ کا ڈھنکا بجانے والے بش کو عیسائی
مذہب کے ان ذمہ داروں نے کیوں نہیں سمجھایا کہ یہ اس مذہب اس پیغمبر عالی
قدر سے منسوب ہے جو جانوروں کو ابتلا میں دیکھ کر رنجیدہ خاطر ہوجایا کرتے
تھے اور تھکے ماندے بکری کے بچے کو سہلایا کرتے تھے۔ اگر عیسائی مشینری
واقعا افلاس زدہ، زخم خوردہ اور جنگ زدہ انسانوں کے تعلق سے فکر مند ہوتی
تو وہ علاج کے بجائے پرہیز کے نسخے پر کاربند ہوتی۔ عراق و افغانستان میں
پہلے ان ہی کے حکمرانوں اور فوجیوں نے انسانیت کو لہولہان کیا اور اب
عیسائی مشینری اس طاق میں بیٹھی ہے کہ موقع ملتے ہی ان دو ممالک میں اپنا
مشن لے کر براجمان ہوجائے۔ تاکہ وہاں کے قہرزدہ باشندوں کی بھوک مٹاکر ان
کے قلب و ذہن کو بھی فتح کیا جائے۔ گویا طاغوتی عناصر مغلوب ملک کے مادی
ذرائع پر قبضہ کرکے اس میں زندگی گزارنے والے ہزاروں انسانوں کو محتاج
بنادیتے ہیں اور پھر ادنی اسی احتیاج کی تکمیل سے عیسائی مشینری ان کے دلوں
کے خریدنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی ہے کہ
مشنری اور طاغوت کے مابین کسی منصوبہ بند پروگرام کے تحت یہ سب کچھ ہورہا
ہے۔ لیکن فی الحقیقت طاغوت اور مشنری کے درمیان اتفاقیہ ہی سہی اشتراک عمل
ضرور پایا جاتا ہے۔ امریکی قیادت میں جارح ممالک نے جو بربادی کمزور اقوام
کو تحفے میں دے رکھی ہے۔ وہ عیسائی مشنری کے "مشن آبادی" کی تمہید ہے۔
عیسائی مشنری کی مشکوک نوعیت یوں بھی سامنے آجاتی ہے کہ مسلم عقیدت و جذبات
کے مسیحی غارت گر و قتا فوقتا مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرتے آئے
ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جسمانی تکلیف سے زیادہ روحانی آزار تکلیف دہ
ہوتا ہے؟ انسانیت کے بہ بے لاگ خدمات گزار [بزعم خود] انسانی جذبات کو
مجروح کرنا بچوں کا کھیل کیوں سمجھتے ہیں؟ پیغمبر اکرم کے تعلق سے عیسائی
پادریوں کی ہرزہ سرائی مسیحی قلم کار، کارٹونسٹ اور اخبار نویس کے متعصبانہ
حرکتوں کا بڑا محرک ہے۔ اگر عیسائی مذہب کے پیشوا مذہبی رواداری کے پیش نظر
دیگر مذاہب سے وابستہ مقدسات کی توہین کے مرکتب نہ ہوتے تو غیر مذہب شخصیات
کیلئے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کے جذبات مجروح کرنا
ناممکن تھا۔ قرآن سوزی کا غیر انسانی عمل اسی چرچ سے صادر شدہ فتوی کا
نتیجہ ہے۔ پنتیس ارکان پر مشتمل اس چرچ کے خلاف مسیحی دنیا کا رد عمل قابل
دید ہے۔ ایک پادری نے قرآن جیسی مقدس کتاب کو جلانے کا اعلان کیا اور
دنیائے مسیحیت خاموش تماشائی بنی رہی۔ سینکڑوں پادریوں کو جیسے سانپ سونگھ
گیا۔ کیا انکی اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری نے انہیں فاترالعقل پادری کے خلاف
سراپا احتجاج ہونے پر نہیں ابھارا؟ بڑے بڑے پوپوں کی زبانیں گنگ کیوں
ہوگئیں؟ کیوں پورے تالاب کو بچانے کیلئے ایک گندھی مچھلی کو نکال باہر نہیں
کیا گیا۔ مسلم دنیامیں کسی دوسرے مذہب کے مقدس صحیفہ کی بے حرمتی کا سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بالفرض محال اس طرح کی قبیح حرکت کسی سازشی عنصر کے
ہاتھوں انجام پاجائے تو علمائے اسلام اس کے خلاف صف آرا ہونیمیں پس و پیش
سے کام نہیں لے سکتے۔ یہی وجہ ہے یہاں مذہبی تقدس پامال نہیں ہوتا۔ روحانی
جذبات مجروح نہیں ہوتے۔ مذہبی شخصیات پر کیچڑ نہیں اچھالا جاتا۔ قرآن مقدس
نے حضرت عیسی اور باقی اولوالعزم پیغمبروں کی تکریم کا اہتمام کیا ہے۔ خود
کو مسیح کے پیرو جتلانے والے اگر واقعا انسانیت کے تئیں اس قدر فکر مند ہیں
تو انہیں پہلے ان ممالک میں اس طرح کے انسانیت سوز حرکات کا سدباب کرنا
ہوگا جہاں ان کی اکثریت ہے۔ اور پھر انسانیت کی خدمت دیگر خطوں اور علاقوں
میں ممکن ہے۔ عیسائی مشینری کیلئے روز دو پلٹ، ریگن، جارج بش اور بارک حسین
اوبامہ جیسی ذہنیت اور سوچ و اپروچ رکھنے والے حکمران ایک بڑا چلینج
ہیں۔کیونکہ ظالم کے خلاف فکری سطح پر صف آرا ہونا مظلوم و مقہور کے حق
مشنری کی سب سیبڑی امداد ہوگی۔ یقینا افریقہ کے غریب ترین خطوں کے بھوکے
ننگوں سے زیادہ یورپ کے وہ حکمران حضرت عیسی کے پیغام امن کے محتاج ہیں جو
طاقت کے نشے میں چور توسیع پسندی کی راہ پر گامزن ہیں جو طاقت کا رعب و
دبدبہ جمانے کی خاطر لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کرنے میں پس و پیش سے کام
نہیں لیتے۔ جو پیسہ مفلوک الحال ایشیائی افراد پر خرچ ہوتا ہے۔ وہ سلمان
رشدی، جرح فال دل، ٹیری جونز اور دیگر ذہنی مرض میں مبتلا پادریوں اور نام
نہاد صاحب دانش افراد پر صرف ہونا چاہیئے۔ قبل اسکے مشنری دنیا بھر کے
ضرورتمند لوگوں کے دلوں کو فتح کرنے نکلے اسے اپنے پادریوں کی خبر گیری
کرنا ہوگی۔ جو عالمی سطح پر فتنہ و فساد کو ہوا دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
چنانچہ کہا جاتا ہے۔
Charity begins at home.
کربلا اور اصلاح معاشرہ
اگر فرد بشر کو کتاب بشریت کے ایک پرت سے تشبیہ دی جائے تو کہا جاسکتا ہے
کہ اس پرت کے دورخ یعنی دو صفحے ہیں۔ ایک صفحہ پر اجتماعیت کا رنگ غالب ہے
اور دوسرا صفحہ ذاتی و انفرادی نقش و نگار سے بھرا پڑا ہے۔ شیرازہ بندی نہ
ہونے کی صورت میں بشریت کے یہ اوراق حادثات زمانہ اور قدرتی آفات کے طوفان
سے خس و خاشاک کی مانند کائنات کی وسیع فضا میں گم ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ قدرت نے فطری طور ان اوراق کی شیرازہ بندی کا انتظام کررکھا ہے۔ اس
قدرتی شیرازہ بندی پر عالم انسانیت کی حیات کا دارومدار ہے۔
ہیں ربط باہمی سے قائم نظام سارے پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خالق ہستی نے انسان کی فطرت میں ہی باقی ہم
جنس انسانوں کیساتھ جذب و میلان رکھا ہے۔ نافہم بچے کا اپنی ماں یا دیگر
مانوس افراد کی وقتی جدائی پر بھی چیخنا چلانا بتاتا ہے کہ انسان فطرتا
انجمن پسند ہے اور تن تنہا اس دنیا میں زندگی گزارنا اس کیلئے ناممکن ہے۔
انسانی معاشرے کی تشکیل کا یہی سب سے بڑا محرک ہے۔ معاشرے کی اہمیت اشرف
المخلوقات انسان کیلئے ویسی ہی ہے جیسے مچھلی کیلئے پانی کی اہمیت ہے۔
معاشرہ انسانی احتیاج کے مسائل کا حل ہے۔
کیسا سماج
یقینا سماج کی تشکیل انسانی فطرت کا تقاضا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ
کونسامعاشرہ انسانیت کے موافق ہے؟ کیا محض چند افراد کا ایک خاص مقام پر
بودوباش سے ہی انسان کی یہ اہم ضرورت خود بخود پوری ہوجاتی ہے؟ یا پھر سماج
میں کچھ خصوصیات کا ہونا لازمی ہے؟ ان سوالات کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ
کسی روحانی اور ایمانی رابطہ کے بغیر مختلف اشخاص کا ایک ہی جگہ مل جل کر
زندگی گزارنا قطعا اس اجتماعی ضرورت کی پیاس کو نہیں بجھا سکتا۔ وحشت و
تنہائی سے بھاگ کر اسی لئے انسانی سماج کی پناہ میں آجاتا ہے تاکہ اس کو
روحانی تسکین ملے۔ اب اگر سماج کے راہ و رسم ہی آزاد جاں بن جائیں تو ایسی
صورت میں یہ سماج کسی بھی شخص کیلئے موافق نہیں ہے۔ اس کی مثال آج کے مادیت
پرست معاشروں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں "النفسی النفسی" کا وظیفہ ہر شخص کا
وردِ زبان ہے اور ہر فرد صرف اپنا الوسیدھا کرنے میں مگن ہے۔ بظاہر ہر طرف
لوگوں کی بھیڑ بھاڑ ہے، سڑکوں پر چہل پہل ہے، بازاروں میں رونق ہے مگر ہر
کوئی اپنے مطلب سے غرض رکھتا ہے حتی کہ والدین کو اپنی اولاد سے کوئی مروت
نہیں ہے اور اولاد اپنی خواہشوں کے آگے ماں باپ کو ہیچ جانتے ہیں۔ غرض ہر
فردجلوت میں خلوت سے دوچار ہے۔ معنوی فقدان سے دو چار ان معاشروں میں اگر
کہیں پر چند افراد کے درمیان اشتراکِ عمل بھی دیکھنے کو ملے تو اس میں سے
بھی ہر شخص کو ذاتی اور فردی منفعت پیش نظر ہوتی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ
انسانیت سوز امور کی انجام دہی میں بہت سے افراد کی ساجھے دای نظر آتی ہے۔
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند پہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اندا
[اقبال]
ایسے بگڑے ہوئے معاشروں سے کنارہ کشی ہی بھلی ہے جن میں اصلاح کی کوئی
گنجائش نہ ہو جیسا کہ مولائے متقیان کا ارشاد گرامی ہے کہ "برے ہمنشین سے
تنہائی بہتر ہے" حتی کہ اﷲ کے عظیم بندوں کا جینا بھی اس طرح کے معاشروں
میں دو بھر ہوجاتا ہے۔ پیغمبر رحمت کو بھی حد سے زیادہ سرکش سماج سے ہجرت
کرنے کا حکم ملا اور شاہِ مردان جیسے مرد میدان کو بڑی مدت کج تنہائی میں
گزارنی پڑی، اگر چہ یہ مہاجرت اور گوشہ نشینی وقتی ہی تھی۔ عالم انسانیت
ایسی انجمن کی متمنی ہے جس میں انسان دوستی، رواداری، ہمدردی، الفت، تعصب،
شرانگیزی، انسان دشمنی، خوانخواری، خود غرضی کے زہریلے گھونٹ ہی محفل کی
غذا ہو تو ہر قلب سلیم رکھنے والا شخص خدا سے یوں دعا گو ہوتا ہے۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو [علامہ اقبال]
انسان اپنے جیسے انسانوں سے خائف و ہراساں راہِ فرار اختیار کرجاتا ہے جن
کی مونسی اور دم سازی اس کے وجود کی بقا کیلئے آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان سے ہی کچھ یوں اماں مانگتا ہے۔
رہے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئِی
نہ ہو [غالب]
صالح سماج اور مصلح
مندرجہ بالا بحث سے یہ پتا چلتا ہے کہ صرف اور صرف صالح معاشرہ ہی انسان کی
منزل و مقصود ہے۔ یہی معاشرہ اس کی تمام روحانی و مادی ضرورتوں کو پورا
کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سماج کا نقشہ اسلامی نظام معاشرت نے پیش کیا
ہے اور پیغمبر اکرم ﷺنے اس کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے رکھا۔ رسول اکرم کے
عملی نمونہ رکھ کر پورے عالم میں اجتماعیت کی درستگی کا خواب شرمندہ تعبیر
ہوسکتا ہے۔ عالم اسلام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسلامی قوانین و اصول
کی حدود میں ایسے معاشروں کو تشکیل دے جو تمام دنیا کیلئے نمونہ عمل ہوں۔
ایک بات جو تمام مسلمانوں کے دل میں کھٹکتی ہے کہ صالح سماج کی تشکیل کارے
دار والا معاملہ ہے اور تشکیل کے بعد بھی اس سماج میں ہر وقت خرابیوں کا
کھٹکا لگا رہتا ہے۔ در اصل یہ ایک منفی سوچ ہے کہ مثالی سماج میں نقص و عیب
پیدا نہیں ہونا چاہئے چنانچہ ماہر عمرانیات کا کہنا ہے کہ انسانی سماج، جسم
کی مانند ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ انسانی سماج جامد و ٹھوس شئے نہیں کہ اسے
ایک بار درست کیا جائے تو پھر ہمیشہ کیلئے درست ہی رہے گا۔ سماج زندہ اشخاص
کے مابین اشتراک عمل کا نام ہے، اسی لئے اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ کہ
انسانی سماج نہ صرف ذی روح ہے بلکہ حیات بخش بھی ہے۔ ہر جاندار کو کسی
بیماری کا خطرہ لگا رہتا ہے اور انسانی جسم میں جب مختلف بیماریوں کا
اندیشہ رہتا ہے تو کیسے انسانی سماج کو مختلف مفاسد سے مستثنی قرار دیا
جائے گا۔ البتہ سماجی بیماریوں کا علاج جسمانی بیماریوں کے علاج سے کافی
مشکل ہے۔ انسانی جسم میں جراثیم بیماری کو جنم دیتی ہیں اور سماجی بیماریوں
کا ذمہ دار مفسد ہوتا ہے۔ مفسدین اپنے کردار کے لحاظ سے ان جراثیم سے مشابہ
بلکہ ان سے بدترہیں کیونکہ جب ڈاکٹر اپنی خاص صلاحیت سے ان جراثیم کی کھوج
لگانے کی کوشش کرتا ہے تویہ جراثیم اپنی اصلی پہچان ظاہر کرنے سے
کتراتینہیں ہیں۔ یوں مریض بھی ان سے بچنے کیلئے آپریشن کی تکلیف اور دوا کی
کڑواہٹ کو برداشت کرنے پر رضا مند ہوجاتا ہے مگر مصلحین کے سامنے مشکل یہ
ہے کہ سماجی جراثیم یعنی مفسدین روبا ہی سے اپنی پہچان چھپانے کی کوشش کرتے
ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنے کردار سے بالکل متضاد شناخت ظاہر کرتے ہیں۔ قرآن
کریم انکی کارستانیوں کو یوں پیش کرتا ہے اور مسلمانوں کو ان سے آگاہ رہنے
کی تلقین کرتا ہے۔
"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم
اصلاح کرنے والے ہیں لیکن ہوشیار رہنا مفسد یہی لوگ ہیں"
اسلامی تاریخ میں اس آیت کی عملی مثال بار بار دیکھنے کو ملتی ہے۔ واقعہ
کربلا کے بعد جب سرہائے شہدا کوفہ لائے گئے تو ابن زیاد نے مسجد کوفہ میں
اہل کوفہ سے کہا "شکر خدا کا جس نے حق اور اہل حق کو قوی کردا اور
امیرالمومنین یزید بن معاویہ اور انکے گروہ والوں کی نصرت کی اور ۔۔۔۔ حسین
بن علی کو اور انکے گروہ کے لوگوں کو قتل کیا"۔
مہاتما سے مصلح بڑا
سماجی ناانصافی اور خرافات سے متنفر افراد کا ردِ عمل ایک جیسا نہیں ہوتا۔
کچھ لوگ صرف اپنی سفینہ حیات کو معاشرے کی "الٹی گنگا"سے نکال کر ساحل پر
لے آتے ہیں اور اطمینان |