اے طائر لاہوتی!اس رزق سے موت اچھی

this article is about the society and peoples who lived with devils mind

Rights of Our Country

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو پہلے سے اسکی قسمت لکھی ہوئی ہوتی ہے ،کوئی قسمت کے امیر ہوتے ہے تو کوئی غریب،لیکن یہ نیچے طبقے کے لوگ کچھ زیادہ ہیقسمت کے پیکے ہوتے ہیں۔ہر جاندار اپنی دن کا آغاز رب کریم کے بابرکت نام سے کرتے ہوئے روزی تلاش کرنے نکلتے ہے اب وہی بات کہ کچھ لوگ قسمت کے امیر اور کچھ غریب ہوتے ہے کسی کو روزی ملتی ہے تو کوئی بھوکا گھر لوٹ آتا ہے ،لیکن اس ذات کی جتنی بھی تعریف کرو کم ہے جو دونوں جہاں کا پالنے والا ہے جس نے انسان کے ساتھ رزق دینے کا وعدہ کیا ہے اب یہ انسان پر منحسر ہے کہ انسان جتنا محنت کرتا ہے اتنا ہی ملتا ہے۔اکثر رزق کے لئے انسان جھوٹ بولتا ہے اور اسی طریقے سے دو وقت کی روزی کماتا ہے۔میں روز ڈیوٹی کے لئے ہائی کورٹ جاتا ہوں ،کورٹ داخل ہوتے ہی میں ایک آواز سنتا ہوں اسرار بنام سرکار،اشفاق بنام سرکار ایسے ہزاروں لوگ اس آواز کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہے روز ایک محشر سا برپا ہوتا ہے ہر کسی کے ساتھ یہی سودا ہوتا ہے کہ جج کیا فیصلہ سنائے گا ،دوسری طرف وکیل کورٹ کے باہر اپنے کلائنٹ کے ساتھ اپنا دماغ کھاتا ہے کہ کیس اس طرح سے لڑے گے یہ کرے گے وہ کرے گے مگر ایسے لوگ بھی ہوتے ہے کہ وہ الٹا وکیل کو سمجھاتا ہے ارے صاحب !جب آپ اتنے تیز ہو تو وکیل کیوں رکھتے ہو،خیر یہ تو روز کا ڈرامہ ہوتا ہے جو وکیل نئے نئے اقساط کی شکل میں دیکھتا ہے۔میں تو حیران ہوں کہ جج ان کیسز کو کس طرح ہینڈل کرتا ہے،جب کورٹ کے کٹہرے میں ملزم و ملزوم دونوں آجاتے ہے تو دونوں کی آہ وزاری ایک جیسی ہوتی ہے ملزم بھی انصاف کی آواز لگاتا ہے اور ملزوم بھی،اب جج اور وکیل جو دن رات ان کیسز کا مطالعہ کرکے اسکا نتیجہ نکالتا ہے اورمظلوم کو انصاف دیتا ہے،یہ تو ہمارے معزز ججز اور اکلاء کا کام ہے جو ہم سے بہتر جانتے ہیں۔اسی طرح اگر ایک نظر پاسپورٹ کے دفتروں پر ڈالا جائے تو وہاں بھی کافی شور و عل ہوتا ہے ،میں جہاں رہتا ہوں وہاں سامنے افغانستان کونسلیٹ ہے جہاں روز افغانی باشندے لوگ آتے ہے اور گھنٹوں گھنٹوں انتظار کرتے ہیں اور اکثر تو صبح سے بیٹھے لوگ چھٹی تک بیٹھے ہوتے ہے اورتھکے ماندے واپس خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہے۔یہ روز کا معمول ہوتا ہے کئی لوگ تو ہفتوں ہفتوں آتے ہیں اور کام نہیں ہوتا،جہاں پاسپورٹ دفتروں کا حال ہے وہاں شناختی کارڈ دفتر بھی کسی سے کم نہیں ،وہاں بھی روز لائن لگے ہوتے ہے ،شناختی کارڈ بنانے والے شناختی کاڑد بناتے بناتے کافی دھکے کھا جاتا ہے اور ایسا ہی ایک واقعہ مردان شناختی کارڈ دفتر میں پیش آیا تھا جب لوگ شناختی کارڈٖبنانے کے لئے لائینوں میں کھڑے تھے اور ایسے میں موٹرسائیکل سوار نے خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑادیا اور یوں کافی لوگ اپنے جانوں سے ہاتھ دھوں بیٹھے،اسی طرح ہسپتالوں کا بھی حال ہے جہاں روز ایمبولنس کی آواز اور ہسپتال کے عملے کی رویئے سے لوگ تنگ آجاتے ہیں ایک انجکشن کے لئے نرس کو منتیں کرنا پڑتی ہے ایسے میں مریض تو کیا مریض کے ساتھ آئیں ہوئے لوگ بھی بیمار پڑ جاتے ہیں،ایسا ایک واقعہ ہمارے ساتھ پیش آیا تھا میری پھوپی بیمار تھی جس کو کے ٹی ایچ ہسپتال لے گئے وہاں ڈاکٹر نے کہا اسکا آپریشن کرنا ہوگا کیونکہ اسکے کڈنی میں سٹون ہے جو 4x3 سائز کی ہے ،ماموں نے کہا ٹھیک ہے کرتے ہے آپریشن ،آپریشن ہوا تو نرس ایک پلاسٹک کی تھیلی لے آئی اور کہا اس میں وہ سٹون ہے اسے شوکت خانمسے ٹسٹ کراؤ میں اور میرے کزن وہ تھیلی لے گئے اور وہاں شوکت خانم لیبارٹری میں ایک لڑکے کے حوالے کیا اس نے جب دیکھا تھیلی میں تو کہا اس میں تو کچھ بھی نہیں صرف پٹی وغیرہ بڑی تھی خیر وہاں سے نکل کے ہسپتال آئے اب نرس کے پیچھے گھوم پھر رہے تھے پورا ہسپتال چھان ڈالا مگر نرس نہیں ملی آخر وہاں ایک دوسری نرس سے پوچھا تو اس نے کہا کے اسکی چھٹی ہوئی ہے بہر حال ہماری پھوپی ٹھیک ہوگئی لیکن ہمیں سٹون نہیں ملے،میرا یہ وقعہ سنانے کا مطلب صرف یہ تھا کہ ہمارے ہاں ہر کوئی اپنے کام سے جان چڑاتا ہے اور ڈیپارٹمینٹس میں تو جس کے جی میں جتنا آتا ہے اتنی غداری کرتا ہے۔اسی طرح جب پی ٹی آئی کا گورنمنٹ آیا تو پرویز خٹک صاحب نے ڈبگری گارڈن کا دورہ کیا اور وہاں کئی لیبارٹریوں کو چیک کیا اور کہا یہاں سے دو نمبر کی لیبارٹریاں ختم کرے گے مگر وہ دن اور آج کا دن پریز خٹک صاحب ڈبگری گارڈن نہیں آئے،میں ہر گز ایک شخص کی وجہ سے پارٹی کو نشانہ نہیں بناتا مگر اوپر بیٹھے صاحبان کو چاہیئے کہ زرہ نیچھے اپنے عملے پر بھی چیک رکھے،گورنمنٹ نے کافی کوششیں کی غیر حاضرلوگوں کے لئے ایک نیا چیز متعارف کیا فنگر پرنٹ مشین جس سے تو کئی مہینے کام چل گیا لیکن اب وہ بھی بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور مشینیں خراب پڑی ہے۔اب جو کہ نیا مشین آنے والا ہے جو ہر جگہ لگے گی گورنمنٹ اداروں میں جسے بارکوڈ ریڈر مشین کہتے ہیں اس سے سروس کارڈ پر پیچھے لگا بارکوڈ ریڈ ہوگا اور اسکی انٹری ہوگی مگر یہ بھی جلد ناکام ہوجائے گی کیونکہ کارڈ تو کوئی اور بھی لاسکتا ہے آج کل پی ٹی آئی کی گورنمنٹ میں کچھ نہ کچھ گزرا ہوا ہے لیکن پھر بھی مدتوں بیمار گھنٹوں میں ٹھیک نہیں ہوتا۔میرے آرٹیکل کا مقصد یہ ہے کہ جو ادارے اپنا کام کر رہی ہے اسے نہ چیڑا جائے جیسے میں نے شروع میں جج اور وکیل کی بات کی اور ان ڈیپارٹمنٹس پر خاص چیک رکھنا چاہیئے جس میں کافی خرابیاں چل رہی ہے اور جس کی وجہ ہے ہمارے ملک کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے-
islam Mohmand
About the Author: islam Mohmand Read More Articles by islam Mohmand: 14 Articles with 26468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.