حقوق نسواں بل اور ’لبرلزپرائیویٹ لیمیٹڈ‘

لبرل اسے کہتے ہیں جو اعتدال پسند ہو مطلب کہ وہ ٹھنڈے ذہن والا ہو اور انتہاپسندی اور ہٹ دھرمی سے گریز کرتا ہو ایسے لوگ بھی ہر معاشرے ہر ملک ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں لیکن ہمارے وطن میں ایک اور مخلوق بھی موجود ہے جو لبرل کہلانے میں شوق رکھتی ہے لیکن یہ صرف شوق کہلانے کی حد تک ہے اور یہ مخلوق حددرجہ انتہاپسندی کی طرف گامزن ہے۔ یہ ایک گروہ ہے جو مگربی تہذیب کا دلدادہ ہے مگر لیکن اپنی عزت نفس بھی محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ اس گروہ میں کافی معروف دانشور حضرات ہیں جن کے شب وروز ارباب اختیار کی ’دم‘ صافکرنے میں لگے رہے ہیں مئے نوشی، مخلوط رقص ،مخلوط محافل کو بہت پسند کرتے ہیں۔ان کا دین دھرم صرف نکاح وجنازے پر پتا چلتا ہے کہ اسی معاشرے والا مذہب رکھتے ہیں بس عادتاً اسی مذہب،دھرم کے خلاف ہمیشہ زبان دراز رہتے ہیں اور مذہب سے چڑ کھانے کے ساتھ ساتھ لفظ ’شہید‘ کی الف ب سے بھی واقفیت نہیں رکھتے لیکن کوئی اپنا ہم خیال کسی طرح بھی مرنے پر’ شہید‘ کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔افواج سے محبت کرنے کا دعوی کرتے ہیں لیکن افواج کے ملکی سالمیت کے فیصلوں یا کسی ملک سے اتحاد پر پرزور تنقید کرتے ہیں۔ان لوگوں کو جمہوریت پسند ہے لیکن ہمیشہ سوشلزم یا کمیونزم کی حمایت کرتے رہتے ہیں اگر چڑ بھی کھاتے ہیں تو اسلامی نظام پر۔ دنیا کے کسی کونے میں مرنے والے لوگوں کے لئے انسانیت کے حقوق کا ذکر کر کے اپنا رونا دھونا ظاہر کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کی اموات پر کچھ خاص دکھ اور افسوس نہیں ہوتا ۔ ان کا اس وقت بہترین مقام سوشل میڈیا ہے جہاں پر دن کو کم اور رات کو اپنے مفکرانے تجزیے پیش کرتے رہتے ہیں ۔سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ہی کم پڑھے لکھے لوگوں کو یا بیزار مذہب اور بیزار نظام لوگوں کو آئے روز اپنا گرویدہ بنا رہے ہیں۔جی ہاں ان کا نیٹ ورک ہے تو چند لوگوں کا لیکن بہت ہی شاطر قسم کا یہ گروہ ہمارے ملک میں موجود ہے جو خود کو لبرل کہلاتا ہے۔ان کے گرو اور پنڈت زیادہ تر غیر ملکی این جی اوز میں ہیں اور کچھ میڈیا میں بھی گھسے ہوئے ہیں۔یہ اسلام سے اس حد تک نفرت کرتے ہیں کہ اسلامی قوانین کا مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بنیادی عبادات پر بھی کڑی تنقید کرتے ہیں۔

شرمین عبید چنائے بھی اسی نام نہاد لبرل گروپ کی معروف دیوی ہے ۔ یہ گروپ سب سے پہلے مختاراں مائی کیس بھی مقبول ہونے کے بعد شدت سے وجود میں آیا۔ اس گروپ کا اگر آپس میں کوئی باہمی تعلق نہ بھی ہو اور چاہے ہمدردیاں نہ بھی ہوں لیکن زبان ایک دوسرے کا ساتھ ضرور دیتی ہے ۔ایک دوسرے پر مہربانی کی یہ اہم وجہ بیرونی فنڈنگ اور انعام واکرام ہیں جن پر یہ لوگ اب کچھ زیادہ ہی حاوی ہوچکے ہین۔ان کی ایک اور مظلوم ملالہ یوسف زئی بھی ہے۔یہ سب اسی فنڈنگ کا نتیجہ ہیں۔ان کی بنیاد اسلام وپاکستان کے نقص نکالنے میں لگی رہتی ہے۔ شرمین عبید چنائے کے دو فلموں آسکر ایوارڈ نہ ہی ہمارے ملک کی معاشی ترقی کے لئے کارآمد ہین اور نہ ہی عورتوں کی فلاح کے لئے موزوں کہ جس پر ہمارے ملک کی خواتین کو شادیانے بجانے چاہیئں یا زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے۔ہاں یہ ایوارڈ یہ انعامات ان لوگوں کے پیٹ درد کے لئے مفید ہیں جو انہیں حاصل نہیں کرسکے اور صرف پرتولتے رہے ہیں۔شرمین عبید چنائے کی یہ موجودہ ’ڈاکو‘منٹری فلم ہمارے معاشرے کی عکاسی پر نہیں بنائی گئی بلکہ ہمارے معاشرے کی غلط بدنامی کے لئے بنائی گئی ہے۔شرمین عبید چنائے جیسے خواتین کے بارے ہی پروین شاکر کا ایک بہترین شعر
’’تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروشوں کو مرجانا چاہیئے‘‘۔

جناب والا ایسے واقعات پاکستان سے زیادہ اسی مہان امریکہ میں ہوتے رہتے ہیں جہاں عورت کی قدر اس کے جسم وجوانی تک رہتی ہے امریکی اپنی ایسی بدکرداری پر فخر نہیں کرتے نہ ہی سرعام تماشا کرتے ہیں۔وزیراعظم صاحب بھی جن عورتوں کے حقوق کی اس فلم پر باچھیں کھلا رہے تھے ان کے لئے بھی ڈوب مرنے کا مقام ہے۔۔ تحفظ حقوق نسواں بل نافذ کرنے سے عورتوں کے مسائل حل نہیں ہونگے جناب والا۔ ملکی نطام میں موجودہ کردار اور ادارے تبدیل کرنے سے حقوق میسر ہونگے۔جو حقوق نسواں بل منطور کیا گیا ہے اس سے کچھ واقعات سامنے آنے لگے ہیں ۔کہیں مرد نے حوالات واپسی پر بیوی کو طلاق دی ہے تو کہیں پر تشدد کیا گیا ہے اور کافی گھروں کے معاملات مزید بگڑ رہے ہیں جو روزانہ اخبارات کی شہ سرخیاں بھی اسی نام سے بن رہے ہیں کہ’’حقوق نسواں بل کے ثمرات‘‘۔ اب تو ان این جی اوز کی خواتین باقاعدہ طور پر پاکستانی’ملاؤں‘ کے خلاف اعلان جنگ کا طبل بجا رہی ہیں ایسی ہی ہڑتال کی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھی گئیں جن پر مولویوں کے خلاف اعلان جنگ کی گیا تھا ۔ان خواتین نے پوسٹرز بھی اٹھائے ہوئے تھے جن پر مختلف قسم کے احتجاجی جملوں کے ساتھ یہ جملہ بھی تحریر تھا’’میرا جسم، میرا گھر،میرے حقوق،مولوی تو کچھ نہ بول‘‘۔کیا یہ ہماری ثقافت،اقدار وروایات کا جنازہ نہیں ہے۔ یہ لوگ کون ہیں یہ کونسا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔یہ مزید کتنے ایسے ایوارڈ لے کر پاکستان کو سیکولر کرنا چاہتے ہیں۔

اگر اس حقوق نسواں بل کے بارے یہ رائے لی جائے کہ یہ واقعی پنجاب بھر کی عورتوں کو تحفظ فراہم کرے گا تو یقینا اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوگی۔ جناب جس معاشرے میں عورت جاگیردارانہ اور وڈیرانہ سسٹم کے تابع ہو تو وہاں کیسے ممکن ہے کہ عورتیں ایسے اقدامات کرسکیں کہ ان کے مرد ان پر کوئی تشدد نہ کریں یا کوئی اور گدی نشین،وڈیرہ،سردار ان پر کسی قسم کی کاروکاری کے حوالے نہ کرے ان کو ونی نہ کر کوئی وڈیرے زادہ ان پر تیزاب نہ پھینکے اور ان عورتوں کے فیصلے بھی وہی وڈیرے اپنی پنچائیتوں میں کریں۔ہمارے معاشرے میں عورت صرف اپنے خاوند کے ظلم میں نہیں رہتی بلکہ پورے معاشرتی نظام کی غلام ہے۔آپ کے ایم این ایز ایم پی ایز، ان اولادیں ،ان کے ٹاوٹس سب خواتین پر ہر قسم کا تشدد کرتے ہیں۔ یہ ظلم کی داستانیں ہر روز خبروں کا حصہ بنتی ہیں کہیں عورت پر الزام لگا کر بیچا جارہا ہوتا ہے تو کہیں معصوم بچیوں کو ونی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے یہ فیصلے کرنے والے بھی سیاسی پناہ گزین ہوتے ہیں جن کی پشت پر کسی ممبر پارلیمنٹ کا ہاتھ ہوتا ہے۔صوبہ سندھ کے بارے ہر کوئی جانتا ہے کہ وہاں کے گدی نشین جاگیر دار وڈیر ے ہی وہاں کے سائیں(بادشاہ) ہیں جن کے فیصلے اسلام کے خلاف تو کیا پاکستان کے آئین کے خلاف ہوتے ہیں اور بچیوں کی قرآن مجید سے شادی جیسی جہالت ابھی تک موجود ہے یہ سب فیصلے یہی جاگیردار ہی کرتے ہیں وہ جاگیردار کوئی اور نہیں بلکہ زیادہ تر سندھ سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ جنوبی پنجاب کی پنچائتوں کے فیصلوں پر ممبران پارلیمنٹ کی آشیرباد ہوتی ہے۔میں مانتا ہوں کہ پاکستان میں عورتوں پر ظلم ہوتے ہیں جن کی بنیادی وجہ علم اور دین سے ناواقفیت ہے ۔مغربی تہذیب کی درآمد عشق ومحبت اور جنسی حوس کی خواہشات، انڈین میڈیا کی گھروں تک آمد اور سب سے بڑی وجہ ملکی قوانین کی کمزوری،عدالتی نظام کی کمزوری یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے خواتین پر تیزاب گردی،تشدد ،زیادتی جیسے واقعات جنم لیتے ہیں۔ان تمام جرائم کا خاتمہ قرآن اور سیرت نبوی کو آگے رکھ کر قانون سازی کی جائے اور عدالتیں بلا کسی تعطل اور سفارش کے فیصلے کریں تو یہ جرائم ختم ہوسکتے ہیں۔اپنی مرضی کی سوچ اور این جی اوز کی مشاورت سے بننے والے قوانین مزید تقسیم ہی پیدا کرتے رہیں گے۔قوم پہلے بھی طبقاتی تقسیم میں مبتلا ہے۔ ایسے قوانین مزید نہ بنائے جائیں جو ہمارے مذہب اور ہماری اقدار کو پامال کریں ایسے قوانین سے نفرتیں ہی پیدا ہوتی رہیں گی۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40583 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.