مسلمانوں میں اتحاد ، ناممکن نہیں!

چپن میں ہم ایک کہانی سُنا کرتے تھے کہ ایک لکڑہاے کے چار بیٹے تھے ۔اُن میں اندرونی اختلافات تھے اس بنا پر وہ لڑتے تھے۔لکڑے ہارے کا جب آخری وقت آیا تواُسے اپنے بیٹوں کے آپسی اختلافات کی فکر ہونے لگی۔اس نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلایا اور ان کو ایک ایک لکڑی توڑنے کو دی۔چاروں نے لکڑی کو آسانی سے توڑ دیا،پھر لکڑے ہار نے چار لکڑیوں کا گٹھا بنا کر دیا اور کہا کہ اسے باری باری توڑو،گٹھا ہونے کی وجہ سے چاروں اسے نہ توڑ سکے۔لکڑے ہارے نے کہا کہ اگر تم چاروں اس گٹھے کی طرح رہو گے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں توڑ نہ سکے گی۔

یہی کچھ حال ہم مسلمانوں کا بھی ہے۔دشمن طاقتیں مختلف فرقوں کو آپس میں لڑا کر ہمیں کمزور کرنا چاہتی ہیں۔کیونکہ اُن کا معلوم ہے کہ مسلمان آپس میں متحد نہیں ہیں اور یہ مسلمانوں کی بہت بڑی کمزوری ہے۔مسلمانوں میں آپسی اتحاد کیسے پیدا ہوگا؟اتحاد کچھ خصوصیات کا حاصل ضرب ہوتا ہے جب یہ خصوصیات ہر فرد میں پیدا ہو جائیں گی تب حالات بدلیں گے۔جتنے بڑے پیمانے پر افراد میں خصوصیات پیدا ہوں گی اتنے ہی پیمانے میں حالات میں خوشگوار تبدیلی آئے گی۔اگر واقعی کوئی شخص چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد قائم ہو جائے تو اسے زیادہ سے زیادہ اپنی ذات میں چند خصوصیات اور اسلامی اقدار کو پیدا کرنا ہو گا۔

دور حاضر میں مسلم معاشرے میں مفاد پرستی اپنے عروج پر ہے یہاں بھائی بھائی کا نہیں ہر شخص اپنے مفاد کے لئے سوچتا ہے حد تو یہاں تک ہو گئی ہے کہ کسی سے آپ ملنے جا رہے ہوں یا کوئی آپ سے ملنے آ رہا ہو تو یہ ذہنیت بھی سامنے ہو تی ہے کہ یہ شخص میرے کام کا بھی ہے کہ نہیں۔اس کے برعکس حقیقی مسلمان تو وہ ہے کہاپنے مفاد سے بڑھ کو دوسروں کا خیال رکھے۔متقی اور باشعور مسلمان کے بارے میں اﷲ نے فرمایا:جو لوگ اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں،خرچ کر کے احسان نہیں جتاتے اور نہ دکھ دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی غم اور خوف کا اندیشہ نہیں(البقرہ)۔

موجودہ دور میں مسلمان دنیاوی خوشی اور عہدہ کے حصول کا ہی سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جا رہاجس کے نتیجہ میں باہمی اتحاد ختم ہو رہا ہے۔ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو معمولی باتوں کا انا کا مسئلہ بنا کر ایک دوسرے کی باہمی مجلسوں میں ایک ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے،اور جس محفل میں وہ مدعو ہو وہاں شرکت نہیں کرتے اس طرح مدتوں ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھتے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ سارا ہماری زبان کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اسی زبان کے بارے میں حدیث میں آیا ہے :کہ جب ابن آدم صبح بیدار ہوتا ہے توتمام اعضاء زبان کے سامنے عرض کرتے ہیں ہمارے بارے میں اﷲ سے ڈرناہم تیری ہی بدولت ہیں تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے تُو ٹیڑھی ہوئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے(ترمذی)۔

ہمارے معاشرے میں ہر خاص و عام اپنی زبان کا زیادہ استعمال دوسروں پر تنقید اور غیبت کرنے پر کررہا ہے۔غیبت کیا ہے؟ اس کی وضاحت حضورﷺ نے ایک حدیث سے کی ہے اور فرمایا:جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں؟صحابہ نے عرض کیا اﷲ اور اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔فرمایا :غیبت یہ کہ کہ تم اپنے بھائی کے بارے میں اس کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کرو جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔کسی نے عرض کیا اگر وہ بات میرے بھائی میں موجود ہوجو میں کہہ رہا ہوں تو وہ بھی غیبت ہو گی؟فرمایا جو کچھ تم اس کے بارے میں کہہ رہے ہو اگر وہ بات اُس میں ہے تو یہی غیبت ہے اگر وہ بات اُس میں موجود نہ ہو تو وہ بہتان ہو گا(مسلم)۔غیبت سے بچنے کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے ـ" اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تمہارے اندر ایسا کوئی ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے،دیکھو تم اس سے گھن کھاتے ہو اﷲ سے ڈرو اﷲ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے(الحجرات)۔

آپسی اتحاد کو ممکن بنانے کے لیے بہت ساری باتوں کا خیال رکھنا ہو گا،جیسے دوسروں سے مشورہ لینا،دسروں کی خدمات اور صلاحتیوں کا اعتراف کرنا،اگر اجتماعی کامیابی حاصل ہو رہی ہو تو لوگوں کا کریڈٹ دینا،اتحاد دل بڑائی سے بنتا ہے نہ کہ تنگی سے ۔مختلف افراد میں اتحاد پیدا ہو گا تو تب ہی ہمارے خاندانوں میں اتحاد پیدا ہو گا،اسی سے ہمارے محلے،ہمارے شہر اور مملکت میں اتحاد کی روشنی پھیلے گی۔
 
Ghulam Jalani Malik
About the Author: Ghulam Jalani Malik Read More Articles by Ghulam Jalani Malik: 3 Articles with 2530 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.