محبت یا نفرت؟

معروف کرکٹر سنیل گواسکر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب ایک بار وہ سرینگر سٹیڈیم میں کر کٹ کھیل رہے تو وہ حیران رہ گئے کہ کشمیری شائقین بھارتی ٹیم کے بجائے عمران خان اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ 1980کی دہائی کے آغاز کی بات ہے۔ اس وقت سرینگر کے انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں بھی عالمی کرکٹ کھیلا جاتا تھا۔ جو بات سنیل گواسکر نے کہی ، اس کی تصدیق شاہد آفریدی نے 30سال بعد کر دی۔مگر شاہد آفریدی کے بیان نے ایک بار پھر تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ پہلے انھوں نے کہا کہ ان کی بھارت میں پاکستان سے زیادہ پذیرائی ہوتی ہے۔ یعنی ان کے چاہنے والے بھارت میں زیادہ تعداد میں ہیں۔ اس پر پاکستان میں آفریدی کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔ یہ بیان ایک سیاسی بیان تھا۔ جس کا مقصد بھارتی شائقین کرکٹ کی ہمدردیاں پاکستانی ٹیم کے لئے حاصل کرنا تھیں۔ ایک طرح سے یہ سفارتی انداز تکلم تھا۔

ان دنوں بھارت میں پاکستان مخالف لہر چل رہی تھی۔ ہندو انتہا پسند پاکستانی ٹیم کو نہ کھیلنے دینے کے دعوے کر رہے تھا۔ یہاں تک کہ بھارتی ریاست کے وزیراعلیٰ تک نے پاکستانی ٹیم کو سیکورٹی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان کا بیان اسی تناظر میں دیا گیا۔ جس کے خلاف پاکستان میں واویلا مچ گیا۔ انھوں نے اپنی ٹیم کے لئے بھارت میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ قومی کرکٹ ٹیم کی حمایت سب سے زیادہ اپنے عوام کرتے ہیں۔ جو پذیرائی انہیں یہاں سے ملتی ہے ، اس کاکہیں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ پاکستان سے ہزاروں شائقین کر کٹ پاکستانی ٹیم کی حمایت کے لئے دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سرکاری نہیں اپنے خرچ پر اپنی ٹیم کے لئے نعرے لگانے، قومی پرچم لہرانے کے لئے جاتے ہیں۔ یہی حال بھارت میں بھی ہوا۔

کھیل کی اپنی اہمیت ہے۔ کرکٹ پاکستان کا پسندیدہ ترین قومی کھیل بن چکا ہے۔ اگر چہ دیگر کھیل بھی ملکی نیک نامی کا باعث بنتے رہے ہیں۔ جیسے کہ سکاش وغیر۔ جان شیر خان کو بہت کم لوگ فراموش کر رہے ہوں گے۔ یا قومی ہاکی ٹیم بھی کبھی مقبول تھی۔ یورپ میں فٹ بال اور بیڈ مینٹن کے شائقین لاکھوں میں ہیں۔

آفریدی کی جانب سے بھارتی شائقین کی داد دینا کوئی غلط بات نہ تھی۔ اس طرح کے خیر سگالی بیان کی اس موقع پر ضرورت بھی محسوس کی جا رہی تھی۔ تا ہم بھارتی شائقین کو ہم وطنوں پر ترجیح دینا ان کی غیر شعوری غلطی تھی۔ ویسے بھی کھیل میں جو بھی اچھا کھیل پیش کرے ، اسی کی داد ضروری ہوتی ہے۔ اس میں کہتے ہیں کوئی سرحد نہیں ہوتی۔مگر یہ کہنا بھی نامعقول ہو گا کہ کوئی حب الوطنی کو سراسر فراموش کر دے۔ جب معاملہ پاک بھارت روایتی کرکٹ حریفوں کا ہو تو اس پر مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ بہتر تھا کہ وہ پاکستان پر بھارت کو ترجیح نہ دیتے۔اس تنقید کے بعد ہو سکتا ہے کہ آئیندہ پاکستانی اس کا بھرپور اندازہ کر لیں اور انتہائی احتیاط سے کام لیں۔ تا ہم آفریدی نے اس بیان کے اثرات ختم کے لئے وضاحتیں کر دیں تھیں۔

بھارتی کی شادمانی جو اس بیان کی وجہ سے تھی، زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ جب شاہد آفریدی نے یکے بعد دیگرے بھارت میں پاکستانی ٹیم کے لئے نعرے لگانے اور پاک پرچم لہرانے پرکشمیریوں کی تعریف بھی کی اور شکریہ بھی ادا کیا۔ موہالی کے بنڈرا سٹیڈیم میں پاکستان نے پہلا میچ نیوزی لینڈ کے ساتھ 22مارچ کو کھیلا۔ اس موقع پر آفریدی نے کشمیریوں کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے پاکستا نی ٹیم کی زبردست حمایت کی۔ یہ ریمارکس اس وقت ادا کئے گئے جب انھوں نے تاس جیت لیا۔ شائقین نے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔ جس پر کمنٹیٹر رمیز راجہ کو کہنا پڑا کہ لگتا ہے کہ گراؤنڈ میں آفریدی کے فینز کی کافی تعداد موجود ہے۔ تو آفریدی نے کہا کہ ہاں یہاں کشمیر سے بھی بہت لوگ موجود ہیں۔

انڈین کرکٹ کنٹرول بورڈ کے سیکریٹری انو راگ ٹھاکر کو اس پر تنقیدی بیان جاری کرنا پڑا ۔آفریدی کے بیان کو سیاسی طور پر غلط قرار دیا گیا۔ انو راگ بی جے پی رکن پارلیمنٹ بھی ہیں۔ انھوں نے ساتھ میں یہ جملہ بھی کسا کہ ایسے بیانات کی وجہ سے آفریدی کی پاکستان میں بھی تنقید ہوتی ہے۔ کھلاڑی کو اس سب سے دور رہنا چاہیئے۔ آفریدی ان کے بیانات پر بھارتی ردعمل کو کسی خاطر میں نہ لائے۔ موہالی میں ہی ایک بار پھر انھوں نے میدان میں موجود کشمیری شائقین کا شکریہ ادا کیا۔ کہ وہ یہاں آئے اور ہمار ی سپورٹ کی۔ یہ بیان انھوں نے آسٹریلیا کے ساتھ میچ کے موقع پر دیا۔ آفریدی نے کلکتہ کے عوام ، بی سی سی آئی، پاکستان اور کشمیر کے شائقین کر کٹ کا شکریہ ادا کر کے حقائق کا اعتراف کیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پاکستانی کرکٹ ٹیم کیپٹن نے کشمیری شائقین کی زبردست حمایت کا اعتراف کیا۔ یہ سچ ہے کہ کشمیری عوام پاکستان اور پاکستانی ٹیم کے زبردست چاہنے والے ہیں۔ جب پاک بھارت میچ ہوتا ہے تو کشمیری بھارتی چوکیوں اور کیمپوں کے سامنے بندوقوں کے سائے میں پاکستانی ٹیم کے حق میں پٹاخے سر کرتے ہیں، پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔ پاکستان جیت جائے تو کشمیر میں جشن ہوتا ہے۔ چراغاں کیا جاتا ہے۔ پاکستان میچ ہار جائے تو لوگ دہاڑیں مار کر روتے ہیَ آج تک لاتعداد کشمیری پاکستان کی بھارت سے ہار کی صورت میں حرکت قلب بند ہونے سے اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں۔

کشمیریوں کی یہ والہانہ محبت پاکستان کے ساتھ قیام پاکستان کے وقت سے قائم ہے۔ آفریدی نے یہ درست کہا کہ بھارت میں ان کی حمایت کرنے والے کشمیر سے آئے تھے۔ اب یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ آفریدی کا بیان سیاسی طور پر درست ہے یا غلط۔ اس پر بھارت میں تنصرے ہو رہے ہیں۔ لیکن مبصرین یہ سوال نہیں اٹھاتے کہ کشمیری کیوں پاکستان سے اس قدر محبت کرتے ہیں۔ بھارت یہ محبت سمیٹنے میں کیوں ناکام ہو رہا ہے۔ آج ایک بار پھر بی جے پی نے کشمیر کی ریاستی جماعت پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی کو ان کے والد مفتی سعید کی وفات کے بعد وزیراعلیٰ بنانے کے لئے حمایت پیش کی ہے۔ دونوں کی اتحادی حکومت بن رہی ہے۔ جموں و کشمیر نظریات پر تقسیم ہو چکا ہے۔ وادی سے بی جے پی کو کوئی سیٹ نہیں ملی۔ اس نے جموں ریجن کی25سیٹیں لی ہیں۔ جن میں سے 24ہندو ہیں۔پی ڈی پی کے 28مسلم ایم ایل اے ہیں۔بھارتی فوج اصل میں کشمیر پر حکومت کر رہی ہے۔ جمہوریت نام نہاد ہے۔فوج کو خصوصی ترقیاتی فنڈز مل رہے ہیں۔ اس کی قتل عام اور مسلمانوں کی نسل کشی پالیسی ہے۔ اس کے مظالم نے کشمیر کو دہلی سے متنفر کر دیا ہے۔ نیز بھارت میں کشمیریوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔

بھارتی سرکاری ٹی وی چینل دوردرشن کے نیشنل ہک پر خبریں نشر ہونے سے قبل’’ نمسکار ‘‘یعنی آداب کیا جاتا ہے۔ اس کا جواز یہ ملتا ہے کہ بھارت میں اکثریت آبادی ہندو ہے اس لئے ہندو سلام کیا جاتا ہے۔ اسے بھارت کے 22کروڑ مسلمان تسلیم کرتے ہیں۔ وادی کشمیر میں دوردرشن کیندر سرینگر ٹی وی سے جب اسلام علیکم سے خبریں شروع کی گئی تو ایک زلزلہ سا آ گیا۔ کئی مسلمان نیوز کاسٹرز کو بر طرف کر دیا گیا۔ جب کہ یہاں مسلم اکثریت میں تھے۔یہی تضاد بڑے پیمانے پر ہر شعبہ میں موجود ہے۔ جب امتیاز ہو گا، لوگوں کو جانوروں کی طرح ہانکا جا ئے گا، ایجنسیاں تک رشوت وصول کریں گی اور سفارشی کلچر کو فروغ دیں گی، مساوات کا خاتمہ ہو گا، تو عوام نفرت نہیں تو محبت کریں گے؟
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555536 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More