قومیں کردار سے پہچانی جاتی ہیں
تقاریر و تحریرات سے نہیں۔ بلند بانگ دعوؤں کا مکھوٹا ہماری اپنی نگاہ میں
پر کشش ہو سکتا ہے مگر غیروں پر ہماری اصلیت ظاہر ہو چکی ہے ۔یہ سائنسی دور
ہے اور میڈیا کی تیز رفتار ترقی نے انسانوں اور قوموں کے بیچ فاصلے مٹا
دیئے ہیں ۔ہم غیروں کومسلمانوں کی زندگیاں دیکھ کر اسلام کو اسی ترازو میں
تولنے سے منع کرتے ہوئے براہ راست قرآن و سنت کے مطالعے کی دعوت دیتے ہیں
۔اس کے لئے ہر زبان میں ہم نے بہت ہی خوبصورت الفاظ تراش لئے ہیں۔آدم ؑسے
لیکر اب تک یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی فرد یا قوم دوسروں کو علوم سے
نہیں کردار سے پہچان لیتی ہے ۔غیروں کے علوم سے استفادے میں پہلی روکاوٹ
زبان ہوتی ہے ۔انسان کا ہر زبان سیکھ لینا ناممکن ہوتا ہے لہذا ’’استفادہ
علوم کی دعوت‘‘ضیاعِ وقت نا صحیح ضیاعِ کلام ضرور ہے ۔کلام سے مؤثر مشاہدہ
ہوتا ہے ۔اس کے لئے کسی زبان یا علمی استفادے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے
البتہ بینائی و بصارت امرِ ناگزیر ضرور ہے ۔صحابہؓ کی زبان عربی تھی جبکہ
غیر عرب انسانوں کی لغات ہزاروں نہ صحیح سینکڑوں ضرور تھیں ۔صحابہؓ اور ان
کے بعد تابعین و تبع تابعین پوری دنیا میں پھیل گئے جہاں پہلے ہی قدم پر
سخت روکاوٹ زبان سے ناواقفیت تھی ۔اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ جس تیزی
کے ساتھ اسلام عوام کے دل و دماغ میں رچ بس گیا بعد میں وہ چیز دیکھنے کو
نہیں ملی اس لئے کہ انسان باتوں سے نہیں کردار سے متاثر ہوتا ہے ۔
چند روز قبل مجھے ایک ’’نو مسلم نوجوان‘‘سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ۔یہ
نوجوان کئی برس پہلے مسلمان ہو چکا ہے ۔اس کے علاوہ اس کی نوجوان لکھی پڑھی
بہن بھی مسلمان ہو چکی ہے ۔ان کی باتیں سن کر دل بہت خوش ہوا اس لئے کہ
انھیں اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے بڑی سخت محنت کرنی پڑی ہے ۔مذہب
تبدیل کرنا کوئی کھیل تماشا نہیں ہے اور ہمیں اس قربانی کا اندازہ اس لئے
نہیں ہو رہا ہے کہ یہ نعمت ہمیں ہمارے گھروں میں ہی نصیب ہوئی ہے ۔نو مسلم
کو سب سے پہلے اپنے گھر اور رشتہ داروں کی قربانی دینی پڑتی ہے اس کے بعد
مال و جائیداد اور سماجی بائیکاٹ کی ۔کلمہ پڑھتے ہی ایک دنیا اس کے لئے
’’تاریک‘‘ہو جاتی ہے ،ہر طرف دشمن ہی دشمن اس کو ’’کھا جانی والی نگاہوں
‘‘سے دیکھنے لگتے ہیں ۔اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔اس کے والدین
تمام تر محبت پر چھری پھیر لیتے ہیں ۔اس کے بھائی بہن اسے آنکھیں موڑ لیتے
ہیں ۔اس کے جگری دوست اس کو جان سے مارنے کی سازشوں میں مشغول ہو جاتے ہیں
۔پھر اگر معاملہ کسی غیر مسلم ملک میں ہو تو’’نو مسلم ‘‘کا خدا ہی حافظ ۔ہر
قدم پر دشمن اس کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے بے چین ہو جاتے ہیں ۔اس پر
ہاتھ اٹھانا ،اس کی بے عزتی کرنا اور اس کے مال و جائداد کو ضبط کرنا
’’عظیم عمل صالح‘‘تصور کیا جاتا ہے ۔
نومسلموں کو اپنی قربانی ،عدم توجہی اور عزت نفس کی پامالی کا احساس بھی
نہیں ہوتا اگر ہمارے ’’بے حس سماج‘‘نے ان کو جذب اور ضم کرنے کا مؤثر
پروگرام تشکیل دیا ہوتا ۔ہم چونکہ دعوؤں ،نعروں اور تقریروں کی حد تک تو
بڑے ’’اسلام پسند‘‘نظر آتے ہیں مگر اندر سے ہمارا دینی اور مذہبی تانا بانا
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔جس کا سبب ہم اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے
’’یہودونصاریٰ کی سازشوں ‘‘کو قرار دیکر آپ اپنے اوپر غیروں کو ہنسنے کا
موقع فراہم کرتے ہیں ۔غیروں کی سازشوں سے انکار نہیں مگر ہم مسجد نہ جانے
کا الزام بھی یہودیوں کے سر تھونپ کر بہت بڑی حماقت کا ارتکاب کرتے ہیں اور
بسااوقات ہم اس ’’سازش سازش ‘‘میں مبالغوں کی آخری سرحدیں بھی پھلانگ دیتے
ہیں ۔ہم باتیں تو بہت میٹھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر ہم ایسی بیج بو رہے
ہیں جس سے لا محالہ انتہائی کڑوی اور بد بو دارفصل ہی پیدا ہوتی ہے ۔ہمارے
سماج میں غربا ،یتامیٰ اور مساکین کے حوالے سے جو بے حمیتی پائی جاتی ہے
صرف وہی ایک سبب سماج کی بربادی کے لئے کافی ہو تا ہے چہ جائیکہ ہر سو ظلم
اور ناانصافی کے چرچے عام ہوں تو ایسے سماج سے کسی’’ نئے بھائی اور
مہمان‘‘کے دکھ درد کو عملی طور پر سہنے کے لئے کچھ کئے جانے کی امید رکھنا
خود حماقت کی دلیل ہوتی ہے ۔
ان نو مسلم بہن بھائیوں نے جب اپنی ’’داستانِ غم ‘‘مجھے سنا دی تو مجھے
اپنے وجود سے ہی نفرت ہو نے لگی اس لئے کہ ہم سب آخر اسی ’’ناسور زدہ
سماج‘‘ کے افراد ہیں۔جو تحریر و تقریر سے آگے اپنا کام نہیں بڑھا پاتے ہیں
۔اس نو مسلم نوجوان کے بقول بارہ برس قبل اس نے اپنا گھر اﷲ کے لئے چھوڑا
ہے مگر آج تک وہ دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔اس کی رہائیش کا کسی
بھی عالم ،لیڈر،مذہبی پیشوا یا یا تنظیم نے کوئی انتظام نہیں کیا ہے ۔وہ
بار برس سے مسجد مسجد گھومتا ہے ۔کبھی کبھار اگر کسی مسلمان گھر میں چند
روز تک قیام کربھی لیں تو آپ ہی چند روز بعد شرمندگی کا احساس ہونے لگتا ہے
اور پھر گھر والوں میں بھی اپنائیت بد مزگی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ
کسی دوسری منزل کی جانب بڑھتا ہے ۔تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کوئی روز گار
میسر نہیں ہے۔میں نے جب یہ پوچھا کہ آخر آپ اپنی ضروریات کیسے پوری کر لیتے
ہیں تواس کی نم آنکھوں سے میں اندر کے تلاطم کو سمجھ گیا میں نے بات ٹالنے
کی کوشش کی پر وہ پھٹ پڑا اور اس کے دل کے اندر کا آتش فشاں باہر آگیا ۔اس
نے ایک معروف دینی درسگاہ کا نام لیکر مجھے بتایا کہ میں ایک مرتبہ وہاں
قیام ہی کی غرض سے گیا اس لئے کہ وہاں کے ذمہ داراں کو میری مفلسی اور بے
گھر ہونے کی ساری کہانی معلوم تھی ،وہاں ہر وقت مہمانوں کا تانتا بندھا
رہتا ہے مگر میرے سر پر اس وقت آسمان ٹوٹ پڑا جب انھوں نے مجھے ’’تین روزہ
قیام کی سنت‘‘یاد دلاتے ہو ئے مدرسے سے چلے جانے کی نصیحت کی ،میں کیا کرتا
آخر اﷲ کے سوا میرا روئے زمین پر کوئی ہے بھی نہیں ۔اس کی باتیں میرے لئے
تازیانہ ثابت ہورہی تھیں کہ اسی بیچ اس نے جماعت اسلامی کی تعریفیں شروع
کردیں مجھے ہلکی سی خوشی محسوس ہی ہونے لگی تھی کہ اس نوجوان نے مجھے اس
چھوٹی سی مسرت کے دوسرے المناک پہلو سے بھی حیرت میں ڈالدیا کہ بعض
دینداروں کو میرے جماعت اسلامی سے اچھے تعلقات اس قدر ناپسند محسوس ہوئے کہ
انھوں نے مجھے جگہ جگہ ٹوکنا شروع کردیا ۔یہاں تک کہ مجبور ہو کر میں نے ان
سے ربط ضبط ہی ختم کردیا ۔دل کرتا ہے کہ ان دین کے ٹھیکداروں کو بے نقاب
کردیا جائے تاکہ لوگ ان کی شرانگیز مہم سے واقف ہو کر ان سے پوچھ لیں کہ یہ
دین کب سے تمہارے باپ داداؤں کی جاگیر بن چکی ہے ؟اس کے مالکانہ حقوق تم
لوگوں کو کس نے دئیے ہیں ؟یہ قرآن کی کس آیت اور حضورﷺ کی کس حدیث میں لکھا
ہے کہ جو تمہارے مسلک و مشرب کا ہو اسی کا دین قابل قبول ہے ؟تم کس بل بوتے
پر دینداری کی سندیں تقسیم کرتے ہو ؟دراصل یہی وہ مسلکی عفریت ہے جس نے
سارے عالم اسلام کو نگل لیا ہے ۔یہ لوگ اپنی تنگی نظر ،مسلکی اور مذہبی
تعصب اور فتور عقل کو دینداری قرار دیتے ہیں ۔ان ڈاکوؤں کی دکانیں ہی اسی
’’پاگل پن‘‘سے چلتی ہیں ۔ان حضرات کے نزدیک جوان کے رجسٹر میں درج نہیں ہے
وہ گمراہ اور بد دین ہے اور المیہ یہ کہ ان پاگلوں کے پلے یہ بات بھی نہیں
پڑتی ہے کہ جب تمہارے بزرگ ،اکابر،مسلک اور مشرب دنیا میں جنم بھی نہیں لے
چکے تھے تب بھی تو دین تھا ۔نبی پاک ﷺ اور صحابہؓ لوگوں کو دین کی جانب
بلاتے تھے نہ کہ کسی خاص مسلک یا فرقہ کی جانب !ان کے چار سو برس بعد جب
مسالک اربعہ نے مستقل مکاتب فکر کی شکل اختیار کرتے ہو ئے مسلمانوں نے ان
کو عملانا شروع کردیا تو بھی داعیان اسلام نے کفار کو مسلک کے برعکس دین ہی
کی دعوت دیدی ۔مسلک اور مشرب کی جانب رجوع کرنا بعض مسائل میں ناگزیر ضرور
ہے مگر اس کو بطور دین پیش کرنا بدترین تحریف اسلام ہے ۔
اب آپ اندازہ لگائے کہ ہم کہاں پہنچے ہو ئے ہیں ۔ہمارے اندر غیروں کے لئے
اب وہ کشش باقی کیوں نہیں رہی ہے؟جو کشش انھیں اپنا دین چھوڑنے پر مجبور
کرتی تھی ۔ہمارا کردار ،اعتدال اور میانہ رویہ کل تک اس قدر اثر انگیز تھا
کہ کسی فوج کشی کے بغیر مسلمان تاجروں نے انڈونیشیا اور ملیشیا کواسلام کی
جھولی میں ڈالا ۔ہماری شعلہ بیانی کا اثر کبھی بھی غیروں نے قبول نہیں کیا
۔آتش بیانیوں نے ہمارے ہی خرمن میں آگ لگا دی ہے !آج ہر سو اس کے کریہہ
مناظر نظر آتے ہیں ۔کشمیر میں بھی ان آتش بیاں مقرروں کی فوج تیار ہو چکی
ہے ۔جنہوں نے ہر علاقے میں اپنے چند کارندوں کو اس کام کے لئے سرگرم کردیا
ہے اورالمیہ یہ کہ ان’’ صاحبان جبہ و دستار‘‘کو باضابط فنڈنگ ملک کے اندر
اور باہر بھرپور طریقے سے ہو رہی ہے ۔ان کے لئے مسلمان کا ان کے مسلک و
مشرب میں داخل ہونا ’’جہادِ اکبر‘‘ہے نہ کہ کسی نو مسلم کا مسلمان ہونا ۔
حیرت یہ کہ ایک نو مسلم کے لئے مسلم اکثریتی ریاست میں نہ ہی کوئی رشتہ
تلاش کرنے کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے اور نہ ہی اس کی مستقل رہائیش اور
روز گار کی کسی کو فکر ہے ۔آخر ایک ایسا فرد جو ہمارے دین میں داخل ہوچکا
ہے اور بارہ برس تک دردر کی ٹھوکریں کھا کر اپنی وفاداری کا یقین بھی دلا
چکا ہے کہاں رہے گا اور کہاں بسے گا ؟کیا اس کی رہائیش ،معاش اور رشتہ
ازدواج میں بندھنا اہم ترین مسئلہ نہیں ؟اگر خدا نخواستہ ہماری عدم توجہی
اور بیزاری سے وہ واپس اپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ جاتا تو کیا کل محشر میں
یہی ایک بات ہماری بربادی کے لئے کافی نہیں ہو سکتی ہے؟مجھے معلوم ہے کہ اس
مضمون کی اشاعت کے بعد دیندارانِ کشمیر کے فون اسی طرح آئیں گے جس طرح
’’چارشہید بیٹوں کے باپ لسہ خان‘‘پر مضمون کی اشاعت کے بعد تھوڑی سی
’’عارضی بے چینی‘‘ظاہر کرنے کے لئے کچھ فون کالزاور ای میلز آئی تھیں اور
پھر ایسی چپ گویا چند جھوٹی آہوں اور سسکیوں سے لسہ خان کی فیملی کے سبھی
مسائل گویا حل ہو گئے ۔ہم عملی اعتبار سے اپنا استحقاق علی الحق کھو رہے
ہیں ۔اﷲ کو ہمارے علم سے کم عمل سے زیادہ غرض ہے ۔بنی اسرائیل ہم سے زیادہ
علم والے تھے ۔وہ تحریف حق اپنی انا کی تسکین کے لئے کرتے تھے اور اس کا
بنیادی محرک عمل سے فرار کی راہ تلاش کرنا ہوتا تھا ۔اﷲ تعالیٰ نے انھیں
بار بار مہلت دی مگر انھوں نے ہر نئی مہلت کے بعد پہلے سے بڑے جرائم کا
ارتکاب کیا حتیٰ کہ اﷲ کے نبیوں کو کھلم کھلا قتل کر ڈالا ،پھر اﷲ تعالیٰ
نے ان سے منصب امامت و سیادت چھین کر بنی اسماعیل کو دیدیا ۔اب ہم اس کے
عملی وفاداری کا اظہار جتنا بہتر طور پر کریں گے اتنا ہی اﷲ تعالیٰ ہماری
حالت پر متوجہ ہو کر ہمیں غم و الم سے محفوظ رکھے گا نہیں تو پھر مہلت ختم
ہوتے ہی اس کے اصولوں اور سنت کے عین مطابق (اﷲ تعالیٰ ہمیں محفوظ
رکھے)ہماری باری آجا ئے گی اس لئے کہ اس کا ایک مستحکم اصول ہے کہ وہ کسی
قوم کی (ذلت و خواری کے ماہ وسال)حالت تب تک نہیں بدلتا ہے جب تک وہ خود
اپنی حالت آپ نہ بدلے ۔ |