ڈوبتے ستارے
(Muhammad Rizwan Khan, Islamabad)
اتوار کا دن تھا کرنے کو تھا کچھ نہیں سوچا
کہ ذرا گھوم پھر ہی لیا جائے - گھومنا پھرنا بھی یار لوگوں نے تکلیف دہ بنا
دیا ہے جہاں بھی جاؤ زوال استقبال کے لئے موجود ہوتا ہے- درد مند دل رکھنے
والے کا کڑھنا بھی فریضہ ہوتاہے - میں اور میرا دوست ظفر واہ کینٹ سے نکل
کر منزل کا تعین کئے بغیر حسن ابدال کی طرف رواں دواں ہوگئے - میں تین سال
واہ کینٹ میں مقیم رہا ۔فرصت کے لمحات تو بہت تھے مگر ذوق ہم سے کوسوں دور
بھٹک رہا تھا - آج ذوق بھی ہے بھلے تھوڑا سہی اور فرصت بھی ہے زیادہ ساری
سو ہم نے گور دوارہ حسن ابدال دیکھنے کا ارادہ کیا - میرا دوست میرا گائیڈ
بھی تھا اس نے میری خواہش کے آگے سر تو خم کردیا ساتھ ہی ساتھ دوران سفر
مجھے اس بات کے لئے ذہنی طور پر تیار کر رہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ گوردوارہ
میں ہمیں کوئی داخل ہی نہ ہونے دے - میں بھی جانتے بوجھتے ہوئے امید کے
آسرے پر انجان بنا رہا میرا خیال تھا کہ قانون کے محافظ میرے ماتھے پر
شرافت کی تحریر بخوبی پڑھ لیں گے خیر گوردوارہ سے ذرا پہلے سیدھے ہاتھ ہم
مقبرہ حکیماں کی طرف مڑگئے تھوڑے بہت اور لوگ بھی آئے ہوئے تھے - داخل ہوتے
ہی ایک تالاب ہے جس میں تھوڑی سی مچھلیاں اور تھوڑا سا گند ہے جو یہ ظاہر
کررہا تھا کہ ہم لوگ اب مہذب بنتے جارہے ہیں - یہ مقبرہ دو بھائیوں کا ہے
جو پیشے کے لحاظ سے حکیم تھے اور عہد مغلیہ میں حکمت کا فریضہ انجام دیتے
رہے تھے ان کی خدمات کے عوض ان کا مقبرہ تعمیر کردیا گیا ۔محکمہ آثار قدیمہ
مقبرے کی ازسر نو تعمیر کے لئے عملی اقدامات انجام دینے کی کوشش کر رہی ہے
انہی اقدامات کیلئے ایک مزدور ڈھیر سارا چونا بھگو کر مقبرے کو نیا کرنے کی
تیاری میں جٹا ہوا تھا - تالاب کے ساتھ ہی ایک ہشت پہلو دو منزلہ عمارت ہے
اس سے آگے دو رویہ روش ہے جس کے دونوں طرف گھاس کے چھوٹے پلاٹ ہیں اور روشن
کے آخری سرے پر ایک لکڑی کا دروازہ ہے جو تعمیری کام کی وجہ سے تالے کی
گرفت میں تھا - مغلوں کے دور کی تعمیر بلا شبہ کافی مظبوط تھی موٹی دیواریں
جو آج تک قائم دائم ہیں - آخر کب تک ایک نہ ایک دن ہماری بے حسی ان کو ضرور
ڈھا دے گی - اس مقبرہ سے نکل کر ہم نے گوردوارہ صاحب کا رخ کیا - داخلی
دروازے پر بیریئر لگا ہوا تھا اور اس کے پیچھے ایک پولیس اہلکار موبائل سے
کھیلنے میں مشغول تھا - سکیورٹی فل ٹائٹ تھی ۔ہم دونوں دوستوں نے ہاتھ
ملانا چاہا تو موصوف نے بڑی مشکل سے ہماری انگلیوں کی پوروں سے اپنی پوروں
کو مس کر اچھوت قسم کا مصافحہ کیا- ہم نے اپنا مدعا بیان کیا تو اس نے آخری
مغل شہزادے کی مانند اپنا قطعی فیصلہ انکار کی صورت میں سنا دیا۔ ہم نے اسے
یقین دلایا کہ میاں ہماری شناخت چیک کرلو تلاشی جی بھر کے لے لو لیکن وہ ٹس
سے مس نہ ہوا جب ہم نے اصرار کیا تو اس نے وہی گھسا پٹافقرہ دہرایا کہ
فارنرزآئے ہوئے ہیں میری نوکری کا خیال کریں۔ ہم اپنا سے منہ لئے اور واپس
چل پڑے اس کے بعد ہماری اگلی منزل واہ گارڈن تھا۔ یہ باغ بھی مغلیہ طرز
تعمیر کا نادر نمونہ ہے اس کا طر ز تعمیر شالیمار باغ سے ملتا جلتا ہے باغ
کے دو درجے ہیں داخل ہوتے ہی ایک بڑا سا حوض ہے جس کے آغاز میں ایک چبوترہ
سا بنا ہوا ہے ایک طرف چشمے کا تازہ پانی بہتا ہوا اس بڑے تالاب میں آکر
گرتا ہے۔ تالاب سے نکل کر پانی سائیڈ پر موجود بنے ہوئے پختہ نالوں میں سے
بہتا ہوا باغ کے دوسرے درجہ میں جا گرتاہے - باغ کا پہلا حصہ قدرے صاف
ستھرا اور جھاڑ جھنکار سے پاک ہے۔ جبکہ دوسرا پورشن بری طرح ویران اور اجڑا
ہوا ہے تالاب کی تہہ میں بھی ڈھیر ساری کائی جمی ہوئی ہے اس کے باوجود کچھ
نوجوان اس میں نہا کر شوق آرزو پورا کررہے تھے۔ باغ کے چاروں طرف دیواروں
پر اسپائرل خاردار تار لگائی جارہی تھی گویا اب ہمارے تالاب باغ چشمے بھی
دہشت کی زد میں آچکے ہیں۔ اکا دکا فیملیز باغ میں لنچ کر رہے تھے - میرے
دوست نے بتایا کہ گرمیوں میں یہاں بے تحاشا رش ہوتاہے -لوگ چشمے اور تالاب
میں نہانے کے لئے جوق در جوق آتے ہیں - بڑوں کے لئے ٹکٹ بیس اور بچوں کے
لئے دس روپے مقرر ہے خوبصورت سرو کے پودے اور درختوں سے مزین یہ باغ بلا
شبہ خوبصورت ہے مگر انسانی ہاتھوں کی کاریگری کے لئے ترس رہا ہے ۔قدرتی
خوبصورتی کے ساتھ اس کو انسانی ٹچ کی بھی ضرورت ہے حکومت اس میں اچھا سا
سوئمنگ پول بنا سکتی ہے اس باغ کے پاس رقبہ بھی ہے تازہ پانی کا ٹھنڈا چشمہ
بھی ہے اسے باآسانی واٹر پارک میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس باغ سے محض چند
کلو میٹر کے فاصلے پر ایک واٹر پارک ہے جس کی جگہ بھی بہت کم ہے پانی کے
لئے کوئی قدرتی چشمہ بھی میسر نہیں لیکن اس کے باوجود اس واٹر پارک کا مالک
دن رات جی بھر کرکمانے میں مصروف ہے -یہ المیہ اس ایک واہ گارڈن کے ساتھ
نہیں یہ ہمارا سرکاری رویہ اور بے توجہی ہے ایسی تمام نادر جگہوں کو حکومت
لیز آؤٹ کرکے اپنی جیب بھرنے کے بعد ٹھیکیدار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے
- ٹھیکیدار کا کام پہلے اپنی انویسٹ کی گئی رقم کو نکالنا ہوتاہے اس کے بعد
اس کی تمام تر توجہ زیادہ سے زیاد ہ منافع کمانے پر ہوتی ہے اس چکر میں
ورثہ بھلے برباد ہو اسے کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔ حکومت اپنی جیب بھر کر خوش
ٹھیکیدار اپنا الو سیدھا کرکے شاداں اور فرحابی رہتی ہے۔ بے چاری عوام تو
اسقدر مجبور ہے کہ تفریحی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اجڑے ہوئے قلعوں باغوں
اور مزارات کو دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ٹکٹ بھرتے ہیں پھر گندے پانی سے نہا کر
پیسے پورے کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں -سیر و تفریح ہر انسان کے جسم و
دماغ کی غذا ہے ہر انسان کو مسلسل کام کے بعد بریک کی ضرورت ہوتی ہے اگر یہ
بریک نہ ملے تو چڑ چڑا پن اور ڈپریشن جیسے پرابلم ذات اوروجود کا حصہ بننا
شروع ہوجاتے ہیں حکومت اگر ان تاریخی مقامات کی خود دیکھ بھال نہیں کر سکتی
تو کم ازکم ٹھیکیداروں کو تو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنا منافع کمانے کے
ساتھ ساتھ ان جگہوں کو مینٹین رکھیں -ہماری بے حسی اور چور بازاری آج ہمیں
اس مقام تک لے آئی ہے کہ ہم اسکولوں دفاتر کے بعد سیرو تفریح کے مقامات کے
گرد بھی خاردار تار لگانے پر مجبور ہو رہے ہیں- یہ سب یکدم اور اچانک ہمارے
در پر نازل نہیں ہوگیا اسے ہم نے اپنی نا اہلی بے حسی اور ماردھاڑ کی بدولت
خود پر مسلط کیا ہے ہمارا معاشرہ مردہ ہوچکا ہے - جس معاشرے میں لوگوں کو
سیرو تفریح کیلئے اجاڑ مقبروں اور ویرانوں کا رخ کرنا پڑتا ہو وہاں خوف کی
بادشاہت قائم ہوجاتی ہے وہاں لوگ ایک دوسرے سے، اپنے ہی سائے سے بھی ڈرنے
لگ جاتے ہیں محکمے قائم ہیں لیکن کوئی اتھارٹی نہیں ۔پارکس کے نام سے ایک
ادارہ فلاپ ہوتا ہے تو نیا بنانے کی پلاننگ کا آغاز ہوجاتاہے - محکموں کی
دیواریں کھڑی کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشروں کو محکمے نہیں چلاتے
نیتوں والے لوگ ضروری ہوتے ہیں جو معاشروں کے مردہ جسموں میں امید کی روح
پھونکتے ہیں آپ اسلام آباد Zooسے لیکر بہاولپور Zoo تک چکر لگالیں ہر طرف
آپ کو بربادی کی بھیانک تصاویر دیکھنے کو ملیں گی - دھیرے دھیرے ہمارے تمام
ستارے ڈوبتے جارہے ہیں اورہم چاند طلوع کرکے دنیا کے دل جیت لینے کے چکر
میں لگے ہوئے ہیں کیا ہم کیا ہماری سوچیں اور کیا ہمارے شارٹ کٹ-
تری دنیا میں صبر شکر سے ہم نے بسر کرلی
تیری دنیا سے بڑھ کر بھی تری دوزخ میں کیا ہوگا
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر |
|