پاکستان کرکٹ ٹیم ایشیا کپ اور ورلڈٹی
20ٹورنامنٹ میں بھی بدترین کارکردگی اور مسلسل شکستوں کا داغ لیے پاکستان
واپس پہنچ چکی ہے ۔آسٹریلیا سے ہارنے کے بعد کپتان شاہد آفریدی نے کہا بے
شک ہم اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے اس کی وجہ پاکستان میں سکول کی سطح پر
کرکٹ کانہ ہونا بھی ہے ۔ جہاں تک شاید آفریدی کی اس بات کا تعلق ہے میں اس
سے دو سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کیونکہ پاکستان میں کرکٹ بورڈ جتنے بھی
ٹورنامنٹ کرواتا ہے ان سب میں عمر رسیدہ اور بھاری بھرکم چہرے ہی حصہ لیتے
ہیں اول تو ان کا کھیلنے کا انداز ہی نرالہ ہوتا ہے اور اگر وہ اچھی
کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوبھی جائیں تو قومی سطح پر ان سے کوئی توقع
نہیں کی جاسکتی ۔ایک عام انسان بھی جانتا ہے کہ جہاز اور گاڑیوں کے ٹائر
ایک مقررہ مدت کے بعد تبدیل کرنے پڑتے ہیں اگر تبدیل نہ کیے جائیں تو دن
میں دس بار پنکچر کا سامنا کرنا پڑتا ٗ پیسے بھی خرچ ہوتے ہیں اور خفت الگ
اٹھانی پڑتی ہے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم گزشتہ دس پندرہ
سالوں سے پرانے اور تھکے ماندے چہروں کے ساتھ ہی تمام ٹورنامنٹ میں حصہ لے
رہی ہے۔جس ملک کا بھی دورہ کرتی ہے شکست مقدر بن جاتی ہے اور ٹورنامنٹ میں
اٹھارہ کروڑ عوام کا لہو خشک کرکے ہار گلے میں ڈال کر شرمندگی سے دامن بھرا
لے کر وطن واپس پہنچتی ہے ۔کبھی کوچ کو اور کبھی چیف سلیکٹر کو تنقید کا
نشانہ بنایاجاتاہے ۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں پاکستانی ٹیم کا لائیو
میچ دیکھنے کا رسک ہی نہیں لیتا میری کوشش ہوتی ہے کہ جب کامیابی کی خبر
آجائے تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کلیجہ ٹھنڈا کرلیتا ہوں لیکن حالیہ ٹی 20
ورلڈ کپ میں دل نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میری ٹیم دشمن سے برسرپیکار ہو اور
میں دانستہ آنکھیں بند کرلو ں چنانچہ بھارت ٗ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیاکے
خلاف میچوں میں نہ صرف میرا آدھا خون ٹینشن اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے ضائع
ہوا بلکہ بلڈ پریشر بھی تمام حدیں عبور کرگیا ۔سست رو کھلاڑیوں کو مشورے دے
دے کے تھک گیا ۔ جوانی میں ہم بھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ ہم
دہلیز سے رسی لٹکاکراس میں گیند کوکپڑے سے باندھ کرکئی کئی گھنٹے بلے سے
گیند کو ہٹ کرنے کی پریکٹس کرتے تو گیند کی ڈائریکشن میں بیٹ خود بخود
آجاتاتھا اور ہم ہر میچ میں اچھے خاصے سکور بھی کرلیتے تھے۔لیکن یہ کیسے
عظیم کھلاڑی ہیں جن کو گیند کی موومنٹ ہی سمجھ نہیں آتی ۔یہ بھی ہوسکتا ہے
کہ وہ سمجھنا ہی نہ چاہتے ہوں اور احمقوں کی طرح ہر گیند پر چھکااور چوکا
مارنے کی کوشش میں آؤٹ ہو نا پسند کرتے ہوں ۔ آفریدی کے دانے سے ویسے ہی
ختم ہوچکے ہیں لیکن عمر اکمل ٗ شعیب ملک ٗ شہزاد اور حفیظ کے بازوں میں بھی
طاقت نہیں رہی وہ جب بھی اونچی ہٹ مارتے ہیں تو ان کی شارٹ باؤنڈی کے اندر
ہی پکڑی جاتی ہے ۔ اس کے برعکس نیوزی لینڈ ٗ ویسٹ انڈیز ٗ بنگلہ دیش کے
نوجوان کھلاڑیوں کی شارٹیں سٹیڈیم سے باہر جاگرتی ہیں ۔یہ دیکھ کر محسوس
ہوتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی نہ صرف بوڑھے ہوچکے ہیں بلکہ ان کی نظریں بھی
کمزور ہوچکی ہیں ۔ اگر ریلوے کے کیبن مین کا ہر سال آنکھوں کا ٹیسٹ ہوتا ہے
جس نے ایک میل دور سے آتی ہوئی ٹرین دیکھنی ہوتی ہے تو ہمارے کرکٹر کا کسی
نے آج تک آنکھوں کا ٹیسٹ ہی نہیں کروایا جن کو بیس گز دور سے آتی ہوئی گیند
بھی دکھائی نہیں دیتی ۔وہ پاگلوں کی طرح ہر گیندپر چوکا چھکا مارنے کی کوشش
میں آوٹ ہوکر برا سا منہ بنا کے پویلین آجاتاہے۔ہر شکست کے بعد انکوائری
کمیٹیاں بنا دی جاتی ہیں لیکن اگلے میچ یا ٹورنامنٹ میں پھر وہی کھلاڑی
میدان میں اترے دکھائی دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس نوجوان اور
باصلاحیت کرکٹ کی تربیت اور پرورش کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔مجھے یاد ہے کہ
جب مشتاق محمد ٗ صادق محمد ٗ عمران خان ٗ ظہیر عباس ٗ میاں داد جیسے کھلاڑی
کرکٹ کے میدان میں جوہر دکھایا کرتے تھے اس وقت ہر ہائی سکول میں کرکٹ ٹیم
ہوا کرتی تھی ۔شہر میں جتنے بھی ہائی سکولز تھے ان کی ٹیموں کے مابین ہفتہ
وار میچ ہوا کرتے تھے اب سکول کی گراؤنڈیں ویران اورنوجوان منفی سرگرمیوں
میں ملوث دکھائی دیتے ہیں ۔پاکستان سپرلیگ کو جو لوگ کامیاب قرار دیتے ہیں
۔وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ بھاری بھرکم ٗ موٹے ٗ زائد عمر اور فزیکل
ان فٹ کھلاڑیوں کے ساتھ سپرلیگ بھی پیسے اور وقت کا ضیاع ہی ثابت ہوئی۔ میں
سمجھتاہوں اگر پاکستان نے کرکٹ کے میدان میں اپنے کھوئے ہوئے وقار کو واپس
لانا ہے تو اس کے لیے انہیں سکول ٗ کالجز اور یونیورسٹی سطح پر کرکٹ کا
آغازاس ہدایت کے ساتھ بطور حکم کرنا ہوگا ۔کہ صرف وہی کھلاڑی سکول اورکالجز
ٹیم میں شامل کیے جائیں جو جسمانی ساخت کے اعتبار سے مضبوط ٗ طاقت ور ٗ
دراز قد اور پھرتیلے بھی ہوں ۔ صوابی ٗ پشاور ٗ کوئٹہ ٗ کراچی ٗسرگودھا
جہلم میانوالی کے علاقوں سے دراز قد اور مضبوط نوجوان فاسٹ باولر آسانی سے
میسر آسکتے ہیں ۔سکولز ٗکالجز اور یونیورسٹی سطح کے باہمی مقابلوں کے بعد
شہر کی ٹیم کو تشکیل دیا جائے ۔ پھر شہروں کے مابین 20 اور50 اوورز کے
ٹورنامنٹ کروائے جائیں۔کرکٹ بورڈ میں درجنوں لوگ روٹیاں توڑ رہے ہیں ان میں
سے ہر ایک پرانے ٹیسٹ کھلاڑی کو ایک شہر تفویض کردیا جائے تو سکول کالجز
اور یونیورسٹی سطح کے مابین ہونے والے میچزکو نہ صرف دیکھے بلکہ تیزکھیلنے
والے بہترین بلے باز ٗ پھرتیلے فیلڈر اور باولر کا انتخاب بھی کرکے قومی
ٹیم کو نیاخون فراہم کریں ۔ ملک میں 20اووز اور 50 کے الگ الگ ٹورنامنٹ
کروائے جائیں جس میں یہ شرط رکھی جائے کہ ایک اوور میں جو کھلاڑی دس سکور
نہیں کرتا وہ خود کو آوٹ تصور کرے ۔ اس طرح صرف وہی کھلاڑی سامنے آئیں گے
جو گیند کی ڈائریکشن کو دیکھ کر ہٹ مارنے کے ماہر ہوچکے ہوں گے ۔عمر اکمل
میری نظر میں بہترین کھلاڑی ہے لیکن اسے ابھی گیند کا انتخاب کرنا نہیں آیا
کہ کس گیند پر شارٹ مارنی ہے اور کس کو روکنا ہے ۔جب تک ان عوامل کا خاتمہ
نہیں کیا جاتا شرمندگی ٗندامت اور بلڈپریشر کا اسی طرح ہمیں سامنا کرنا پڑے
گا ۔ |