بھکر، لیہ، ڈیرہ غازی خان، جھنگ، میانوالی،
سرگودھا، خوشاب، مظفر گڑھ کے دیہی علاقہ جات ، خاص کر ضلع بھکر کے دیہی
پسماندہ علاقوں سرائے مہاجر، منکیرہ، ماہنی، حیدر آباد ، مکھنی، کھیوہ،
یاراسلحہ، پٹی بلندہ ، لتن، وگ صدر، لرا، پکہ، کارلووالا، نورنگ والا،
کپاہی، گوہر والا، رکھ موج گڑھ، اور دیگر دور دراز علاقہ جات جانے کا اتفاق
ہوا، تھل کے ریگستانوں میں بسنے والے غریب عوام صبح سے شام تک جنگلوں ،
کھیتوں میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ریت کے ٹیلوں پر موجود ’’ پھوگ ‘‘ کے
کھیت ، جنڈ، بوئیاں، کھاوی، رَت پُھلی ، ون ویڑی سمیت ایسی گھاس پھوس اور
خود رو پودے موجود ہیں جو نہ صرف مویشیوں کے چارہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں
بلکہ ان کی لکڑی اور دیسی ادویات بھی بنائی جاتی ہیں۔موسم گرما میں تھل کے
ٹیلوں پر آپ کو ہر سو خربوزہ کی خوشبوپھیلی ملے گی، ریت کے ٹیلوں سے اٹھنے
والی بھاپ کا نظارہ بھی کچھ دیدنی ہوتا ہے ، یہ سارے علاقے میرے دیکھے ہوئے
ہیں اور میرے قدموں کی چاپ کے گواہ ہیں۔ ان علاقوں کی شدید پسماندگی اور
غربت نے ہمیشہ میرا دل دکھ سے بھر دیا، جب بھی ان علاقوں میں گیا پہلے سے
زیادہ دکھی ہو کر لوٹا۔ میلوں تک بے آب و گیاہ گرم تپتے صحرا' ان میں کہیں
کہیں گھاس پھوس سے بنی جھونپڑیوں کی بستیاں، کچے مکان اوران میں معلوم نہیں
کس طرح زندہ رہنے والی مخلوق! میں انہی علاقوں میں بعض سلطان ابن سلطان قسم
کے وڈیروں، ملکوں، چٹ پوشوں کے عالی شان محلات کی بات نہیں کرنا چاہتا بلکہ
ان لاکھوں بے بس مجبور افراد کی بات کرنا چاہتا ہوں ، یہاں ایسی عورتیں بھی
دیکھی ہیں جو نہ تو کبھی شہروں میں آئی ہیں اور نہ ہی ان کے لیے حکومت کی
طرف سے تعلیم اور صحت کا بندوبست کیا گیا ، ایک بزرگ عورت چند روز قبل
شناختی کارڈ بنوانے کی غرض سے بھکر آئی ہوئی تھی، اس کے شوہر’’ چاچا بخشو
‘‘ جس کی عمر کم و پیش 65 سال کے قریب تھی نے بتایا کہ اس کی بیوی پہلی بار
بھکر آئی ہے ، اور شہر میں بسیں، کاریں، سڑکات اور دیگر سہولیات کے ساتھ
ساتھ نادرا آفس دیکھ کر دنگ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسی سہولیات تو ہیں لیکن
ہمارے گاؤں میں کیوں نہیں ہیں؟ وہ حیران ہے کہ یہ سارے علاقے میرے عظیم دیس
کے ہیں ، صدیوں سے اس طرح چلے آرہے ہیں، اور ہم جیسے لوگ صدیوں سے مٹی کے
ٹیلوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ چاچا بخشو نے بتایا کہ پچھلے 62
برسوں میں یہ وڈیرے انگریزوں کی غلامی اور ان کی قدم بوسی سے آزاد ہوئے تو
پہلے سے زیادہ جابر اور ظالم بن گئے! یہاں کے زیادہ تر لوگ سرائیکی بولتے
ہیں ، جھنگ لہجہ سے ملتی جلتی سرائیکی نہایت میٹھی اور نرم زبان ہے۔
علاقہ تھل میں دن کے وقت گرم ہوا چلتی ہے مگر رات کے وقت ہر طرف ٹھنڈک پھیل
جاتی ہے ، ستاروں بھرا آسمان نیچے اتر آتا ہے ، ستارے اتنے نیچے آجاتے ہیں
کہ ہاتھ اوپر اٹھاؤ اور انہیں مٹھی میں بھر لو۔ یہاں عام لوگ شاعری بھی خوب
کرتے ہیں، خوبصورت اور مٹھاس سے بھرپور شاعری سننے کا اتفاق بھی ہوا،مگر
وہاں ہر سو محرومیوں کے محلات بھی زیر تعمیر دکھائی دیے۔سردیوں کی یخ بستہ
اور تاریک راتوں میں لوگ چوپال میں بیٹھ کر لوک کہانیاں، شاعری، ڈوہڑے ،
ماہیے اور علاقائی سیاست پر ’’ خوب ‘‘ تبصرہ کرتے ہیں۔ اُن کا حسن ذوق اور
لوک شاعری میں پایا جانے والا درد انتہائی دلفریب اور موہ لینے والا ہوتا
ہے۔ بزرگوں کی نصیحتیں اور عام فہم چٹکلے ،گرین ٹی ، یا پھر قہوے کے ساتھ
لطف و لطائف سے مزین گفتگو بھی میرے لیے معلومات کا خزینہ ثابت ہوئی۔
یہاں کے ہزاروں اعلی تعلیم یافتہ نوجوان تعلیمی ڈگریاں پکڑے روزگار کی تلاش
میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان وسیع علاقوں میں کوئی صنعت کسی روزگار کا
کوئی بڑا منصوبہ نہیں۔ سڑکیں بہت کم' ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر’’
معمولی دوا بھی نہیں ملتی ‘‘ لوکل ماہیے کہنے والے والوں کی زبان اور کلام
میں یہی منظر کشی کی کہ ہم بھی انسان ہیں؟ ہماری بات کون سنے گا؟ ہمارے
دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟ میں نے یہ باتیں سنیں’’ دل دکھ سے بھر گیا!
انہی علاقوں میں بڑے بڑے وڈیروں کے شاہی محلات،لمبی کاریں اور ان کے علاقوں
میں کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگنے والے لاکھوں انسانوں کو پینے کا صاف پانی
بھی میسر نہیں! میں پہلے بھی سوچتا رہا تھا اور اب اس سوچ میں مزید اضافہ
ہو گیا کہ کیا بھکر کے دور افتادہ علاقوں کے مفلوک الحال لوگوں کو اپنے
مسائل حل کرانے کے لیے لاہور کا سفر کرنا کیوں ضروری ہے کویت ایک بہت چھوٹا
سا ملک ہے’’ آبادی بھی صرف لاکھوں میں ہے مگر وہاں 16 صوبے ہیں۔پھر کیا وجہ
ہے کہ پاکستان کے وسیع و عریض خطے میں صرف چار صوبے؟ میں ہمیشہ اس بات کا
حامی رہا ۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 1947 میں پنجاب کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ ایک
ٹکڑا بھارت میں چلا گیا وہاں اس میں سے ہریانہ اوار ہماچل پردیش کے صوبے
نکل آئے۔ پاکستانی پنجاب بھارتی پنجاب سے دو گنا سے بھی بڑا ھے انتظامی
معاملات کو محض لاہور میں بیٹھ کر نہیں چلایا جا سکتا جب کہ ستم ظریفی یہ
ہے کہ جنوی پنجاب کے تمام’’ راجوں مہاراجوں ‘‘ نے کراچی ، لاہور اور اسلام
آباد میں مستقل سکونت اختیار کر رکھی ہے ان کی اولادیں بھی یہیں پڑھتی ہیں۔
یہ لوگ کبھی کبھار محض ووٹ حاصل کرنے کے لیے جنوبی پنجاب کا چکر لگاتے ہیں
ان میں سے کسی وڈیرے نے آج تک اپنے علاقے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ سو سیدھی
بات ہے کہ عوام کے مسائل عوام کے اندر ان کی زمین پر ہی بیٹھ کر حل کئے جا
سکتے ہیں مگر اس مسئلے کو کسی’’ قبائلی یا فرقہ وارانہ عصبیت‘‘ سے بچایا
جانا ضروری ہے۔ |