سر کا خطاب پانے والے سابق برطانوی وزیر
اعظم ونسٹن چرچل کہا تھا کہ ’’ایک جھوٹ آدھی دنیا تک پہنچ جاتا ہے جتنی دیر
میں ایک سچ سر بھی نہیں اٹھا پاتا‘‘۔اس وقت ہمارے معاشرے میں یہیں کچھ
دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایک جھوٹ چلتا ہے ، میڈیا ذرائع کا نام دے کر اسے اتنا
پھیلاتا ہے کہ جس سے منسوب وہ بات ہوتی ہے وہ بیچارا سر جوڑے وضاحتیں دینے
کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر اس کے اس سچ کی کوئی سننے کے لئے تیار ہی نہیں
ہوتا۔ یوں تو کسی کو بھی جھوٹا کہو تو وہ لڑنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ مگریکم
اپریل آتے ہی اکثریت کو نا جانے کیا ہوجاتا ہے کہ وہ کسی چھوٹے بڑے جھوٹ
میں حصہ دار بن رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے وہ نا جانے
کیا کچھ نہیں کر جاتے۔ اپنے پرائے رشتہ داروں کو موت سے لے کر اسپتال تک،
دوسری شادی سے لے کر بچوں کی پیدائش تک، نوکری سے فارغ ہونے کی بیڈ نیوز سے
لے کر معیشت سے نقصان تک نا جانے کیسے کیسے عجیب و غریب اور دلخراش سرپرائز
دیے جاتے ہیں۔ جن کے پیچھے کوئی دوسری حکمت عملی کی بجائے صرف ایک شخص کو
ایک نام نہاد اور من گھڑت دن منانا مقصد ہوتا۔ وہ دن یکم اپریل کو سب کو بے
وقوف بنانے یعنی اپریل فول منانے والا دن ہوتا ہے۔ اس دن کسی بھی شرعی،
اخلاقی، معاشرتی اقتدار کو پس پشت ڈال کر لوگوں کو جھوٹے پیغامات دیے جاتے
ہیں۔
جھوٹ اور دوسروں کو پریشان کرنا نا صرف اسلامی معاشرے میں برا سمجھا جاتا
ہے کہ بلکہ یہ فطری طور پر بھی برے معاشرے کی علامت ہے۔ بغیر کسی رنگ و نسل،
قوم و ملت، دین و مذہب کے پوری دنیا میں جھوٹ اور دوسروں کو دھوکا دینا ایک
سنگین جرم اورغیر اخلاقی ہے۔
جھوٹ نفاق کی نشانی ہے اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی سختی سے
ممانعت فرمائی ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جو شخص اﷲ اور
آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ہمیشہ سچ بولے یا خاموش رہے، مزید
براں اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس شخص پرخصوصی طور پر لعنت فرمائی ہے
جو جھوٹ بول کر لوگوں ہنساتا ہے۔ آج کل لوگ مزاح کے نام پر انتہائی جھوٹ
گھڑتے ہیں اور لوگوں کو جھوٹے لطائف سنا کر ہنساتے ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان اقوال مبارکہ کی روشنی میں اپریل فول جیسی باطل
رسوم وروایات کو اپنانے اور ان کا حصہ بن کر لمحاتی مسرت حاصل کرنے والے
مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کر کے وہ غیر مسلم مغربی معاشرے کے اس
دعوے کی تصدیق کرتے ہیں جس کی رو سے لوگوں کو ہنسانے،گدگدانے اور انکی
تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے لیے جھوٹ بولنا ان کے نزدیک جائز ہے جبکہ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جھوٹ کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دینا
اور انہیں تفریح فراہم کرنااور ہنسانا سخت موجب گناہ ہے۔
کتاب وسنت میں جھوٹ کی ممانعت آئی ہے اوراس کی حرمت پراجماع ہے اورجھوٹے
شخص کیلئے دنیا وآخرت میں برا انجام ہے۔شریعت میں جھوٹ کی بالکل اجازت نہیں
ہے سوائے چندایسے معین امورکی جن پر کسی کا حق مارنا، خون ریزی کرنا اور
عزت وآبرو پرطعن کرنا وغیرہ مرتب نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ ایسے مقامات ہیں جن
میں (جھوٹ بولنے) کا مقصد کسی کی جان بچانا ، یا دوشخصوں کے درمیان اصلاح
کرانا،یا شوہروبیوی کے درمیان میل محبت پیدا کرنا ہوتا ہے۔
اورشریعت میں کوئی دن یا لمحہ ایسا نہیں آیا ہے جس میں کسی شخص کے لئے جھوٹ
بولنا یا اپنی مرضی سے کسی بھی چیزکی خبردیناجائزہے،جبکہ لوگوں میں ’’اپریل
فول‘‘کے نام سے آج غلط رسم منتشر ہے جس کے بارے میں انکا گمان ہے کہ شمسی
سال کے چوتھے مہنیہ یعنی اپریل کی پہلی تاریخ کو بغیرکسی شرعی ضابطہ کے
جھوٹ بولنا جائزہے۔ اﷲ کا فرمان ہے: ’’بے شک جھوٹ وہ لوگ گڑھتے ہیں جواﷲ کی
نشانیوں پرایمان نہیں لاتے اوروہی لوگ جھوٹے ہیں‘‘۔ ]النحل: [105
ابن کثیررحمہ اﷲ فرماتے ہیں: ’’پھراﷲ نے خبردیا ہے کہ رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم نا تو افترا پرداز ہیں اور نہ ہی جھوٹے ہیں، کیونکہ اﷲ پرجھوٹ وافترا
پردازی بدبخت مخلوق کرتی ہے جو اﷲ کی آیتوں پرایمان نہیں رکھتے جیسے
کفاراورملحدین لوگ جولوگوں میں جھوٹ سے معروف ہیں اورمحمد صلی اﷲ علیہ وسلم
تو لوگوں میں سب سے نیک اورسچے ہیں اور ایمان ویقین اورعلم وعمل کے
اعتبارسے سب سے زیادہ باکمال ہیں اور اپنی قوم میں سچائی سے مشہور ہیں جس
میں کسی کو شک نہیں بایں طور کہ انکے مابین وہ محمد امین کے لقب سے ہی
پکارے جاتے ہیں (تفسیر ابن کثیر:2/588)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا
فرمان ہے کہ:’’منافق کی تیں علامتیں ہیں جب بات کرے توجھوٹ بولے اور جب
وعدہ کرے توخلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت
کرے۔ ( صحیح البخاری:33، صحیح مسلم: 59 )
اسلامی معاشرہ میں جھوٹ ایک بہت بڑی لعنت اور اس سے بچنا ہی ہمارے معاشرے
کے حسن کا حصہ ہے۔ اپریل فول جیسے الٹے سیدھے دن منانے والوں کا ملت
اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنے مردہ دلوں کو خوش کرنے اور انہیں راحت
پہنچانے کے لئے اور بہت سے طریقے موجود ہیں۔ تفریح مقامات پر اپنی روح کو
ترو تازہ کیا جاسکتا، خوش اخلاق اور با شعور لوگوں سے میل جول رکھ کر اپنی
اعلیٰ سوچ کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ دوسروں کو تکلیف پہنچ کر، ان کا دل
دکھا کر بعد میں معذرت کرتے رہنے اور اپنا وقار اور معیار کھونے سے کبھی
بھی آپ کو حقیقی تفریح مہیا نہیں ہوگی۔ قابل غور بات یہ نہیں ہے کہ آپ مغرب
کی دی ہوئی ہر چیز کی پیروی کریں بلکہ ضروری یہ ہے ان کی اچھائی کو اپنائیں
اور برائی جو وہاں بھی برائی ہی سمجھی جاتی یہاں بھی اسے بری نگاہ سے دیکھ
کر اس سے کہیں اچھے کو سامنے لے کر آئیں تاکہ ایک زندہ دل قوم کا تصور
نمایاں ہو سکے۔ |