حدود و قیود

بدن پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے اور زمین پاؤں سے کھسکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جب قدم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں مقابلے پر اتر آتے ہیں۔ پہلی بار جب سائیکل کے پیڈل پر پاؤں رکھ کر توازن قائم کیا تو دو پہیے دو پاؤں سے بہت زور آور محسوس ہوئے۔ مگر رفتہ رفتہ وہ بھی ایک رفتار کے بعد میری ہی توانائی کے استعمال پر اُتر آئے۔ گاڑی چلانے کے شوق سے زمین پاؤں تلے نکلنے کے نئے فن سے آشنا ہوئے۔ نئے سے نئے تجربہ کے شوق میں ٹرین اور پھر جہاز تک کے سفر سے زمین پاؤں کے نیچے سے نکلنے میں جسمانی توانائی کے ضیائع سے آزاد ہو گئی۔ ہاتھوں کے بل رینگنے سے لے کر ہواؤں میں اُڑنے تک کے سفر سے زندگی کی کامیابی کی چوٹیاں تو سر کرتے چلے گئے۔ اور بدن پاؤں کے ہرجائی پن سے مٹی کی محبت سے محروم ہو گیا۔ آسمان کی بلندیوں تک جانے سے پہلے سفر کی دعا سے آغاز کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہم ہمیشہ ہوا میں رہنے کا تصور نہیں کر سکتے۔ ہوا میں اُڑنے والے بھی ایک وقت تک ہی وہاں رہ سکتے ہیں۔ اتنا ایندھن بچا کر رکھتے ہیں کہ لوٹ سکیں ۔توانائی ضائع ہو جائے تو اُترتے نہیں گرتے ہیں۔ حدود میں رہنا آسان بھی اور محفوظ بھی۔

حدودو قیود چاہے معاشرتی اقدار میں ہوں یا ملکوں کی سرحدوں میں۔ بلا اجازت داخلے کی صورت میں خوف میں جکڑے رہتے ہیں۔ دوسرے کا گھر دیوار سے جھانکنے میں بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ اپنی دیوار پھلانگنے سے پہلے جان لینا ضروری ہے کہ وہ اپنی حدود میں ہی رہتا ہے۔ جھانکنا اور دیوار پھلانگنا حدود سے نکلنے کے مترادف ہے۔

خیالات کی سرحدیں چاہے کتنی ہی کیوں نہ پھلانگ لی جائیں پانے کے لئے۔ مگر کھونے کا ڈر ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ زمین اپنے خاندان کائنات نظام شمسی میں حدود و قیود کی پابندی میں ہے۔ پھر انسان کی حدود کیا ہیں۔ زمین پہ چلنا، پانی پہ تیرنا یا ہوا میں اُڑنا۔ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اتنا حق تو ملا ہے اسے۔ اپنی سوچ اور ہمت سے آگے بڑھتا ہے ایک حد تک۔ انسان کی سوچ کی آزادی میں ہی اس کی قیود ہیں۔ دیکھتی آنکھیں، سنتے کان، بولتی زبان اور ہلتے ہاتھ فطری راستوں پہ رہیں تو ٹھیک۔ وگرنہ آزمائش کی سختی میں پورا وجود ہی سزاوار ہو جاتا ہے۔ اگر انسان اپنی راہوں سے بھٹک جائے تو مؤجب فتنہ و فساد ہوتا ہے۔

حقوق ملکیت جتنی آزادی دیتے ہیں۔ حقوق آدمیت اُتنی ہی بندشیں عائد کرتی ہے۔ راست اقدام عمل، بغض باطل اور کینہ غافل سے بچنے میں ممدو معاون ہوتے ہیں۔ جن باتوں سے اجنبی رہنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔ وہی اپنا پن کھونے پر آنسوؤں سے اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں۔ اجنبی اجنبیوں سے انسیت رکھتے ہیں۔ انسان مزاج سے ایک دوسرے کے قریب رہتا ہے فطرت سے نہیں۔ فطرت کے تقاضے حالات سے پیدا نہیں ہوتے۔ بلکہ خیالات میں رقص خواہش پہ نچھاور ہوتے ہیں۔ الفاظ سے جادو سر چڑھ کر نہیں بولتا۔ الفاظ کی بناوٹ اور شائستگی بوجھل سوچ کو آزادی لہر ارجمند کر دے تو آزادی فطرت پہ رہ کر اختیار کی جائے تو نعمت ہے۔ اگر حدود و قیود سے آزاد ہو تو بے راہ روی ہے۔ جو عمر کی ہر دہائی میں مختلف رنگ رکھتی ہے۔ جوانی میں بڑھاپا سوچنا گوارا نہیں۔ اور بڑھاپے میں جوانی نا گوار ہے۔ خوشیاں پل بھر میں جدا ہو جاتی ہیں۔ مگر لطیف احساس تنہائی کے پہرے میں دیپ نہیں جلاتا۔

دکھ تکلیف میں چاہے شدت کم ہو مگر یہ ہم سفر بڑا طویل ہوتا ہے۔ غم گساری کے ساتھی مسافر جلد راستے میں اُترتے جاتے ہیں۔ تنہا سفر طے کرنے میں بہت طویل ہوتا ہے۔ پابندیاں بیماری میں پرہیز کی مانند عارضی طور پر تکلیف دہ تو ہوتی ہیں۔ مگر توانائی بحال کرنے میں معاون و مددگار ہوتی ہیں۔ بد پرہیزی لطف دوبالا کر دیتی ہے۔ مگر اثرات جان پر بھی آ سکتے ہیں۔ تخیل انسان رینگنے سے اُڑنے تک کے مراحل کا محتاج نہیں۔ جب چاہا جہاں چاہا قصد سفر باندھ لیا۔ توانائی کے ضیائع کا خوف نہیں۔ اس لئے واپس لوٹنے کی بھی جلدی نہیں ہوتی۔ ہوا کے گھوڑے پر تا حیات سوار رہ سکتا ہے۔

اسی لئے معاشرہ مذہب کی حدود وقیود کا پابند رکھا گیا ہے۔ جو اُڑان تخیل کو پابند کرتا ہے۔ اور توانائی کو بچا کر رکھنے کا عندیہ دیتا ہے۔ تاکہ واپس لوٹنے میں گرنے کی ضرب سے محفوظ رہا جا سکے۔ آزادی کلچر میں پیدا ہوتی تبدیلیوں کا مظہر ہے۔ جو بیماری میں بد پرہیزی کی مانند پنپتی ہیں۔ لطف اُٹھانے کے لئے ہی انہیں قبول کیا جاتا ہے۔ مگر دیکھنے والے اس کے اثرات و انجام سے بے خبر نہیں ہوتے۔ ظاہری حالت کی مقبولیت انہیں قبولیت پر آمادہ کرتی ہے۔

بے ہنگم ساز کی طرح انسانی ہجوم سے ہنگامہ برپا ہے۔ دور سے کان صرف ایک شور سن پاتے ہیں۔ جو مختلف زبانوں میں ادا کئے گئے الفاظ نہ سمجھ آنے والی ایک ہوائی ساز میں بدل جاتے ہیں۔ زندگی اتنی تیز رفتاری سے گزر جاتی ہے کہ آوازیں کبھی سمجھ کر اور کبھی انجان بن کر پاس سے گزر جاتی ہیں۔ آزادی کا یہ روپ مانوسیت نہیں رکھتا۔ بھیڑ میں صرف قریب سے گزرنے والے کلامِ ہم زبان سے اپنائیت محسوس کرتا ہے۔ وگرنہ سوچ خود سے ہی مانوس زبان میں ہم کلام ہوتی ہے۔ کامیاب زندگی کا مقام جو سمجھ بیٹھے ہیں وہ خوشحال تو ہیں مگر خوش باش نہیں۔ بامراد تو ہیں مگر با نصیب نہیں۔ قسمت اور نصیب محنت سے ٹکراتا ہے۔ کبھی پیشانی پہ لکھی تقدیر تو کبھی عقل کی تدبیر جانتا ہے۔ خون پسینہ بہا کر جو حاصل کرتا ہے۔ ہاتھ کی میل سمجھ لیتا ہے۔ جسے ہاتھ کی لکیروں سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ہاتھوں ہی کے بل خواہش کو منزل کا نشان بنا لیتا ہے۔

منزل امید کا چراغ ہے۔ بجھنے پر نشان بنتی ہے۔ منزلیں خواہشوں کی ہوتی ہیں۔ زندگی تو ایک کھلا میدان ہے جہاں سب ہی ایک دوسرے کے سامنے رہتے اور گزرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے آنے کا انداز ایک اور جانے کا بھی وہی ایک۔ منزل تو پھر ایک ہوئی صرف۔ راستے الگ الگ ہیں۔ کوئی کانٹوں جھاڑیوں کا راستہ اختیار کرتا ہے کوئی میدانوں کا تو کوئی ریگستانوں کا۔

طویل راستوں سے جو عاجز ہوتے ہیں وہ شارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں۔ منزل پالیں تو ٹھیک ورنہ سفر کی صعوبتوں سے انجام عبرت کے نشان میں بدل جاتے ہیں۔ جو منزل تک پہنچنے کے لئے ہاتھ کی لکیروں کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ نہیں بھولنا چاہئے وہی ہاتھ روزانہ ان کے گلے اور گریبان تک آسانی سے جاتے ہیں۔ اس لئے معافی مانگنے سے عاجز ہیں۔ ہاتھ کھلی آزادی پاکر ہی گریبان پھاڑتے ہیں۔ اگر آزادی اصول و ضوابط میں حدود و قیود کے اندر رہے تو آباد ورنہ برباد ہے۔
Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 96111 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.