گلشن اقبال میں ماؤں کے گلشن اجڑ گئے
(Malik Muhammad Salman, )
زندگی کی چہل پہل پوری آب و تاب سے جاری
تھیہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں کوئی ایسٹر کا تہوار منا رہا تو کوئی اتوار کی
چھٹی سے لطف اندوز ہورہا۔پھولوں جیسے بچے آنے والی گھڑی سے بیخبر ہوکر کھیل
کود میں مصروف تھے،ہاتھوں میں کھلونے لیے کھیل میں مگنبچوں کی مسکراہت
والدین کے قلب و جاں کو سکون فراہم کر ہی تھی۔ خواتین اور بچے کافی تعداد
میں سیرو تفریح کے لیے آئے ہوئے تھے ۔خود کش حملہ آور کو ان ہنستے مسکراتے
چہروں کی ہنسی پسند نہ آئی اور جھولوں کے قریب لوگوں کے ہجوم میں دھماکہ کر
دیا۔ہر طرف تباہی اور افرا تفری پھیل گئی اور زخمیوں کی چیخ و پکارفضاء میں
گونجنے لگی ایسا محسوس ہوتا تھاقیامت برپا ہو گئی ہے۔ ہر طرف انسانی اعضاء
بکھر گئے اور زخمیوں کی دل دہلا دینے والی چیخیں فضا میں گونجتی رہیں۔بچوں
کی مسخ شدہ لاشیں دیکھ کر کئی والدین اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ،دہشت گردی
کے اس واقعہ نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار کر دیا ،ہر آنکھ اشکبار ہے اور
ہر دل افسردہ ہے۔قیاقت صغریٰ برپا کر دی گئی معصوم بچوں، خواتین اور پر امن
نہتے شہریوں کو سماج دشمن عناصرنے اپنی بزدلانہ کاروائی کے لئے سوچی سمجھی
منصوبہ بندی سے اس روز کا انتخاب کیا جب مسیحیوں کے تہوار ایسٹر اور اتوار
کی تعطیل ہونے کی وجہ سے گلشن اقبال پارک میں غیرمعمولی رش تھا۔شاعر مشرق
کے نام سے منسوب گلشن اقبال پارک میں اقبال کے شاہین بے جان اورماؤں کے
گلشن اجڑ گئے۔وہ بچے جو کل کا پاکستان تھے جن کو محسن انسانیتﷺ نے جنت کے
باغوں کے پھول قرار دیا،ان پھولوں اور ننھی کلیوں کو سفاکیت سے مسل
ڈالا۔ایک شیر خوار ننھا شہید گلشن اقبال پارک میں خون میں لت پت ہمیشگی
نیند سو رہا تھا ،ہتھیلی بند تھی مگر انگشت شہادت بلند تھی۔یہ ننھا فرشتہ
انگشت شہادت بلند کئے دہشت گردوں کو یہ پیغام دے گیا کہ یہ فتح تمھاری نہیں
ہماری ہے۔ تم ناکام ہو،فانی دنیا میں بھی تمھارا کچھ حصہ نہیں ہے اور ہمیشہ
رہنے والی اخروی زندگی میں بھی تمھارے لئے ناکامی و نامرادی اور کبھی نہ
ختم ہونے والا عذاب ہے،یوم حساب تمھارے گناہوں کے میزان میں ہمارے ناحق خون
کاپورا پورا بدلہ ہوگا۔
ایک درندہ صفت انسان(جسے درندہ کہنا. درنگی کی اور انسان کہنا انسانیت کی
توہین ہوگی) اپنے مذموم تخریبی مقصدکے ساتھ تفریحی پارک میں داخل ہوا ،عوام
کے بیچ میں پہنچا اور اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔
زور دھماکے کے بعد سب دھرم بھرم ہوگیا فضا میں زخمی بچوں ،عورتوں اور مردوں
کو چیخ وپکار سے کہرام برپا تھا،ہر طرف لہو ،کسی ماں کا لخت جگر اس سے چھین
لیا گیا تو کسی باپ کی گڑیا کو ہمیشگی نیند سلا دیا گیا، کسی کا بھائی بچھر
گیا تو کہیں زندگی بھرساتھ نبھانے کا عہد کرنے والے ساتھی ایک دوسرے کا
ساتھ چھوڑ گئے ،ہر طرف خون ہی خون تھا ایک سیکنڈ میں کھلتے پھول مرجھا
گئے،مگر جہاں معصوم بچوں کی شہادت نے ہر اہل دل کو رلا دیا ،وہیں جبزخمیوں
کو خون کی ضرورت پڑی توخون کا عطیہ دینے کے لئے انسانیت کی محبت کے جذبے سے
شرسار عوام کا سمندر امڈ آیا ہسپتالوں میں خون دینے والوں کی لمبی قطاریں
لگ گئیں۔ خون عطیہ کرنے والے لوگوں کاجذبہ دیدنی تھا،چند گھنٹوں بعدہی
انتظامیہ کو نوٹس لگانا پڑا کہ ہمارے پاس وافر مقدار میں بلڈ دستیاب ہے فی
الحال مذید ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص سوگوار چہرے سے آخری دہشت گرد کے خاتمے
تک ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم بلند کرتے ہوئے دہشت گردوں کو پیغام دے رہاتھا
کہ وہ ایک زندہ دل قوم ہیں اور دہشت گرد ان کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتے۔
گلشن اقبال پارک میں لاشوں کے درمیان پڑے لاوارث موبائل پر آنے والی ٹیل
فون کال نے سب کو رلا دیا ، ’’امی جان ‘‘ کے نام سے مسلسل ایک فون کال آرہی
تھا ۔مگر اس ماں کی ممتااس سے بے خبر تھی کہ انسانیت کے دشمنوں نے اسکی
بیٹی کو خون کی ہولی میں نہلا دیا تھا اور وہ جس پری کے لئے فکر مند ہے وہ
دنیاکی فکروں سے دور خالق حقیقی سے جاملی ہے۔
بلاشبہ یہ بہت عظیم سانحہ تھا اور اس سانحہ نے بہت سی ماؤ ں کی گود کو اجاڑ
دیا ہے،میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے اس بد ترین وا قعہ پر اپنے
جذبات اور احساسات کا اظہار کروں ،ایک بہت عظیم سانحہ گزرا ہے اس سے ہر
آنکھ اشکبار ہوئی ہے اور درجنوں گھروں میں ماتم جاری ہے اور پورا ملک سوگ
کی کیفیت میں ہے۔
پھر اک سانحہ، پھر اک حادثہ ہماری بدقسمتی بھی ہے اور بد نصیبی بھی، تخریب
کاری کی آگ کے شعلے ہمارے ازلی دشمن کی ناپاک اور بزدلانہ سازش ہے جو وجودِ
پاکستان کے یوم اول سے اسی کوشش اور عمل میں لگا ہوا ہے کہ پاکستان کو غیر
مستحکم اور ناکام ریاست بنا کر دنیا کے نقشے سے اسکا وجود ختم کر دے۔
چند دن پہلے ہی بلوچستان سے بھارتی نیوی کا حاضر سروس آفیسر بھوشن یادیو کو
بھی گرفتار کیا گیا ہے جو گذشتہ کئی سال سے پاکستان میں جاسوسی کا ایک بہت
بڑا نیٹ ورک چلا رہا تھا،گرفتار بھارتی افسر نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت
پاکستان میں مسلک کی بنیاد پر بھی لوگوں کے قتل عام میں شریک رہا ہے، کوئٹہ
میں ہزارہ برادری کے قتل عام کے لیے بھی بھارت سے فنڈ مہیا کئے تھے ،سانحہ
صفورا چورنگی میں ملوث جو چار ملزم گرفتار ہوئے ان کے بھی ‘‘را ‘‘سے تعلق
کے ٹھوس ثبوت ملے تھے ،اگر ماضی کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات روز
روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ سانحہ گلشن اقبال پارک بھی ’’ را’’ ہی کی
کارستانی ہے۔ |
|