تحریر: سمیعہ رشید
حضرت علی کا قول مبارک ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ سیکھایا وہ میرا استاد ہے،
اس مبارک قول سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی کسی بھی نسل ؛عمر ؛طبقے سے
تعلق رکھتا ہو اگر حق اور سچ بات سیکھائے تو وہ استاد کی حیثیت اختیار کر
جاتا ہے. قول مبارک اس ہستی کا ہے کہ جو اس علم کے شہر کے دروازے ہیں جس
علم کے شہر ہمارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ وسلم ہیں. آج ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ
ہم خود کو بلند اور بڑا سمجھتے ہیں اور دوسروں کو حقیر اور کمتر، کوئی
ہماری رہنمائی کرنے کی کوشش کرئے یا ہماری غلطیوں کی نشاندہی کرئے تو وہ
ہمیں اپنی بے عزتی محسوس ہوتی ہے. ہماری قوم کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ دوسروں
پر تنقید برائے تنقید کرتے چلے جاتے ہیں دوسروں کے جذبات اور احساسات کا
سوچے بنا تذلیل کرتے ہیں۔ تنقید کرنا تو بہت آسان ہے۔ مگر تنقید برائے
اصلاح ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہے.کوئی انسان بھی مکمل نہیں ہے ہر کسی میں
اﷲ نے کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں رکھیں ہیں.انسان خطاوں کا پتلا ہے اگر
کوئی اس دھن میں ہے کہ وہ افضل ہے اور دوسرے اس کے غلام اور پابند ہیں تو
پھر اس کی حالت پر افسوس اور رحم ہی کیا جا سکتاہے. بڑا صرف اﷲ ہے اور
کبریائی اسی کے لئے ہے. انسان کی بڑھائی اور عظمت اسی میں ہے کہ وہ دوسرے
انسانوں کے لئے مدد اور ہمدردی کا جذبہ رکھے. جہاں دیکھے کہ اس کی مدد کی
ضرورت ہے لوگوں کی وہاں بغیر کسی رنگ نسل اور مذہب کے اﷲ کی رضا کے لئے مدد
کرئے کسی کو دو چار سو روپے دینے کو مدد نہیں کہتے لازمی نہیں کہ مدد صرف
پیسوں سے ہی کی جائے. کسی کو اچھا مشورہ دینا دکھ درد میں شریک ہونا یہ سب
اﷲ کی رضا کے لئے کیا جائے تو یہ سب نیکیاں ہماری نجات کا باعث بن سکتی
ہیں. حضرت شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ کا قول ہے کہ میں نے بدزبانوں سے تمیز
سیکھی ؛ بیوقوفوں سے عقل سیکھی اور جاہلوں سے علم سیکھا.یہ قول کس قدر بڑا
اور اہم ہے. جب انسان ارادہ کرتا ہے اور اس کو مضبوطی دیتا ہے کہ کرنا ہی
کرنا ہے کام تو پھر وہ اﷲ پہ یقین کر کے شروع کرتا ہے پھر چاہے کوئی بھی
مشکل آئے یا کوئی بھی آزمائش وہ اپنے پختہ ارادوں کو لے کر آگے بڑھتا چلا
جاتا ہے کبھی بھی مایوس ہو کر پلٹتا نہیں ہے. انسان کو تعلیمی ادارے اتنا
نہیں سیکھاتے پڑھاتے جتنا زندگی سیکھاتی ہے. اس دنیا میں پندرہ سال کے بچے
بھی ہیں جو اپنی سوچ اور فہم سے پچاس سال کے ہیں اور وہ جو عمر میں تو
چالیس پچاس سال کے ہیں مگر فہم و سوچ میں دس سال کے بچے کے برابر معلوم
ہوتے ہیں۔ تجربات انسان کو بڑا کر دیتے ہیں۔ سوچ کو وسعت عطا کرتے ہیں۔
انسان لوگوں کو سمجھنا شروع کر دیتا ہے.جب دنیا کے لوگ ٹھکرا دیتے ہیں تو
پھر معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ کی ذات تو شہہ رگ سے زیادہ قریب تھی اور ہم ان
لوگوں سے امید لگائے بیٹھے تھے جو خود اس عظیم ذات کے محتاج ہے. وہ ذات جو
کن کہتی ہے اور فیکون ہو جاتا ہے. ٹھوکر لگنا ضروری ہوتا ہے انسان کو پتا
چلتا ہے کہ دنیا کی ہریالی اور رنگیینی عارضی ہے. انسان بہت کم مدت کے لئے
اس دنیا میں آیا ہے. اﷲ نے انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ یعنی نائب بنا
کر بھیجاہے . ہمارے اس دنیا میں آنے کا مقصد اس پاک ذات کی عبادت کرنا ہے
جو دوجہانوں کا مالک ہے. ہماری عبادات کی اﷲ کو ضرورت نہیں ہے اﷲ کی عبادت
کے لئے فرشتے موجود ہیں۔ ہم اگر عبادت کرتے ہیں تو صرف اپنی ذات کے لئے کہ
اﷲ ہمیں معاف فرما کر بخش دے ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادات کی کیا اوقات اور
ہماری اپنی کیا اوقات بس ایک یقین اور امید ہے کہ اﷲ کی ذات ہمیں آخرت میں
ذلیل و خواری سے بچائے گا اور ہمارا فیصلہ جنت کی صورت میں کرئے گا.مگر
افسوس آج کا انسان اور خاص طور پر مسلمان دنیاداری میں اس قدر مصروف اور
الجھے ہوئے ہیں کہ خدا کی پناہ؛زندگی میں انسان کی خواہش اور آرزو یہ ہونی
چاہیے کہ وہ ایک نیک اور عاجزی سے بھرپور اور اﷲ کے احکامات و رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کر کے دنیا کے ساتھ آخرت کو بھی سنوارئے اور
جنت کا مستحق بنے.آج مسلمان کی ضرورت ایک اچھا گھر؛گاڑی اور نوکری ہے اگر
یہ سب مل جائے تو ہم خود کو دنیا کا خوش قسمت اور کامیاب انسان سمجھنا شروع
کر دیتے ہیں۔ بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیج کر بے فکر ہوجاتے ہیں۔
کہ بچے بہت اچھی مہنگے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ اچھا مستقبل بن جائے گا.
قرآن و احادیث کی تعلیم دلوانے کا رواج کی ختم ہو گیا ہے. پہلے بچے خوشی
خوشی کلمہ طیبہ سب کوسنا کر داد وصول کیا کرتے تھے اور ان کو اسلام کی
تعلیمات سیکھانا لازم سمجھتے تھے۔ مگر آج جو بچہ انگریزی بولتا ہے.؛نظمیں
اور گانے سناتا ہے وہ سب کا محبوب اور لائق بچہ ہوتا ہے. آج ہمارا مقصد صرف
اور صرف انگریزی تعلیم حاصل کرنا ہے. میں انگریزی کے خلاف نہیں. یہ ایک
انٹرنیشنل زبان ہے جو سیکھنا اور بولنا بری بات نہیں ہے مگر مسلمان ہونے کی
حیثیت سے ہر علم سیکھنے سے پہلے ہمارا فرض ہے۔ کہ اسلامی تعلیمات سیکھیں.
ایک صاحب قبرستان میں سے گزر رہے تھے کہ ایک نوجوان کو دیکھا جو قبر کے پاس
کھڑے ہو کر ایک بہت موٹی کتاب میں سے پڑھ رہا تھا. وہ بزرگ اس کے پاس گیا
اور کہا بیٹا یہ آپ یہاں کیا پڑھ رہے ہیں؟؟؟ تو اس نوجوان نے کہا کہ میں یہ
انگریزی کی مشہور کتاب پڑھ رہا ہوں جو بہت مشہور ہے۔ میرے والد صاحب کا
انتقال ہو گیا ہے تو ان کی آخرت کی زندگی کی کامیابی کے لئے میں نے کہا یہ
پڑھ لوں کیونکہ وہ مجھے تلقین کیا کرتے تھے کہ یہ تعلیم حاصل کرو یہ سب پڑھ
کر تم کامیاب زندگی گزارو گے ……. ان صاحب نے کہا میں پشیمان ہوا اور نوجوان
کو کہنے لگا کہ یہ کتابیں یہاں نہیں پڑھتے. اپنے والد کے ایصال ثواب کے لئے
قرآن پاک پڑھو اور ان کی بخشش کے لیے دعا کرو. نوجوان کہنے لگا کہ پاپا نے
تو کبھی نہیں پڑھایا قرآن پاک اور نہ یہ بتایا کہ قرآن پاک پڑھنے سے
کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ وہ صرف کہتے تھے یہ آکسفورڈ نصاب پڑھو اور اپنی توجہ
پڑھائی پہ لگاو تو زندگی میں کامیابی حاصل کر لو گے تو آج میں کامیاب ہوں.
میں نے سوچا کہ والد صاحب بھی آخرت میں کامیاب ہوں اس لئے یہ پڑھ رہاہوں.
اس واقعے کو سننے اور پڑھنے کے بعد ہاتھ ہمت نہیں کر پا رہے کہ مزید کچھ
کہا جائے مگر دستور زمانہ ہے آج ہمارے بچوں کو یہ تو پتا ہے کہ ٹیلی فون
؛ٹیلی ویڑن ؛ریڈیو کس کس نے ایجاد کیے ہیں۔ مگر افسوس کے والدین اور اساتذہ
بچوں کو اسلام اور دین کی تعلیمات نہ دے سکے.آج ہمارے بچوں کو خلفائے
راشدین کے نام نہیں پتا ؛اہل بیعت کی فضیلت و اہمیت معلوم نہیں ؛عشرہ مبشرہ
کون ہیں اور ان کو کیا بشارت دی گئیں یہ نہیں پتا.غزوہ کیا ہوتا ہے بدر؛احد
؛خندق/احزاب ؛حنین اور تبوک کس قدر تاریخ ساز معرکے تھے اور ان کی تفصیلات
والدین کو خود نہیں معلوم معذرت کے ساتھ وہ بچوں کو کیا بتائیں گے؟؟ اسلام
کے بنیادی ارکان کیا ہیں ؟؟؟توحید ؛نماز؛روزہ ؛زکواۃ اور حج کیا ہیں اور ان
کے بنا ہمارا ایمان مکمل کیسے نہیں ہوسکتا. مزید سنیے کہ آج اگر بچوں کو
اسلامیات اور اردو کے مضمون پڑھنے کا کہا جائے اور کچھ سوالات کئے جائیں تو
ان کا جواب ہوتا ہے کہ یہ مشکل مضمون ہیں اور پسندیدہ بھی نہیں ہیں مشکل سے
پاس کرتے ہیں. انگریزی ؛حساب اور جنرل نالج آسان اور پسندیدہ مضمون ہیں. ہم
اپنی آنے والی نسلوں کو کیا تعلیم دے رہے ہیں؟؟؟؟یہ وہ نسل ہے جس نے آنے
والے وقتوں میں اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے۔ سارے ملک میں شاندار اسکول
موجود ہیں جن کی عمارات دیکھ کر عش عش کرتے ہیں ہم اور اپنے بچوں کو ان
اداروں میں داخل کروا کر پرسکون ہو جاتے ہیں کہ بچوں کی تربیت ہو جائے گی.
والدین اپنی ذمہ داری سے بری و زمہ ہو جاتے ہیں۔ نہ ان اسکولوں کے نصاب کا
معائنہ کرتے ہیں نہ یہ دیکھتے کہ کچھ تعلیمی نصاب ایساتو نہیں جو ہمارے
مذہب اور کلچر کے خلاف ہے مگر ہمارے پاس وقت نہیں ہے ان سب کاموں کے لئے.
آج ہم اپنے اسلاف اور مذہب سے اس قدر دور ہو گئے ہیں کہ سورت الاخلاص تک
پڑھنی نہیں آتی . دنیا کی نظر میں ہم کامیاب ہو گئے اور بہت بڑے عہدے پر
بھی فائض ہو گئے مگر جب تعوذ و تسمیہ اور سورت اخلاص پڑھنے کا وقت آیا تو
دیکھ کر بھی ہم سے وہ سورت نہ پڑھی گئی جو ایمان اور توحید کی شہادت دیتی
ہے.ملک کے اھم فیصلے کرنے میں تو یہ شخصیات موجود ہوتی ہیں مگر ان کا دین
اور اس کی تعلیمات سے دور دور تک نو واسطہ نہیں ہوتا. اگر اﷲ نے ہمیں مہلت
دی ہے ؛ہماری رسی کو ڈھیلہ چھوڑا ہوا ہے ہمیں اس موقع کو استعمال میں لاتے
ہوئے اپنا تذکیہ نفس کرنے کی ضرورت ہے. توبہ کا روستہ مرتے دم تک کھلا ہوا
ہے بس صرف اﷲ کی ذات سے رجوع کرنے کی دیر ہے وہ اﷲ بڑا رحیم و کریم ہے ستر
ماوں سے زیادہ اپنے بندو ں سے پیار کرتا ہے وہ شہہ رگ سے زیادہ قریب ہے بس
صرف پکارنے کی دیر ہے پھر دیکھں کیسے کیسے نوازتا ہے. اس پاک ذات کو
استغفار کرنے والے اور اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر نادم ہونے والے اپنے
بندے بہت محبوب ہوتے ہیں۔ بس ہمارا پختہ یقین ہونا چاہیے اﷲ کی ذات پر
تو کریم ہی جو ٹھرا تو کرم کے کیا ٹھکانے
تو نوازنے پہ آئے تو نواز دے زمانے |