رانا مشہود نے تعلیم کے علاوہ باقی تمام وزارتیں
چھوڑنے کافیصلہ کرلیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم کی وزارت کی ذمہ داری بہت
بھاری ہے، میں اس کے ساتھ انصاف کرنا چاہتا ہوں۔ اضافی وزارتیں چھوڑنے کے
لئے انہوں نے وزیراعلیٰ کو خط لکھ دیا ہے، سکو لوں میں تعلیمی سرگرمیوں اور
سہولتوں کی فراہمی کو انہوں نے اپنا ہدف بیان کیا ہے۔تعلیم کے علاوہ ان کے
پاس ہائرایجوکیشن، سیاحت، آرکیالوجی اور کھیلوں کی وزارتیں ہیں۔ انہوں نے
وزیراعلیٰ سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس خبر میں کئی خبریں بین السطور بھی ہیں،
دراصل اپنے ہاں جتنے فیصلے ہوتے ہیں، ضروری نہیں ہوتا کہ وہ خود ہی کئے
جائیں، دراصل کوئی اور فیصلہ کرتا اور حکم دیتا ہے، بس کچھ پردہ رکھ کر
بیان یہ دے دیا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے خود اور اپنی مرضی سے کیا ہے۔
چونکہ خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ رانا مشہود نے وزیراعلیٰ سے ملاقات بھی
کی تھی، اس سے یہ شک یقین میں بدل جاتا ہے کہ یہ فیصلہ کیا نہیں گیا کروایا
گیا ہے۔
فیصلہ رانا صاحب کا ہے یا وزیراعلیٰ کا، اس کو کچھ دیر کے لئے نظر انداز کر
دیا جائے تو بھی یہ بہت اہم فیصلہ ہے، تعلیم کی وزارت واقعی بہت بھاری ہے،
رانا صاحب نے اس کے علاوہ بھی بہت ساوزن اٹھا رکھا تھا، اب دیگر وزارتوں کو
اتار پھینکنے سے یقینا وہ ہلکے پھلکے ہو گئے ہونگے۔ اپنے ہاں حکومتوں کو
وزارتیں بڑھانے اور اپنے ممبران کو اکاموڈیٹ کرنے کی روایت عام ہے، مگر اس
روایت کی آبیاری بھی ہمیشہ ہوتی رہتی ہے کہ بہت سی وزارتیں وزیراعظم یا
وزیراعلیٰ اپنے پاس ہی رکھ لیتے ہیں، بچی کھچی اپنے من پسند وزیروں کو دے
دیتے ہیں۔ اگر رانا مشہود کے زیر سرپرستی دیگر وزارتوں کو دیکھا جائے تو
معلوم ہوگا کہ ایک ہی وزیر بہت سی وزاتوں کو بیک وقت نہیں سنبھال سکتا، ایک
ہی فرد پر زیادہ بوجھ ڈالنے سے وزیر کا تو کچھ نہیں جاتا البتہ وزارتوں کے
پلے کچھ نہیں بچتا۔ سیاحت کا پاکستان (یا پنجاب) میں کیا حال ہے؟ آرکیالوجی
کس حال میں ہے؟ کھیل کس انجام کو پہنچ رہا ہے؟ ہائر ایجوکیشن کی عالمی
اداروں کے سامنے کیا پوزیشن ہے؟ یقینا یہ تمام وزارتیں زوال پذیر ہیں، توجہ
چاہتی ہیں، انہیں آکسیجن کی ضرورت ہے، اور انہیں آکسیجن دینے کا اہتمام
کرنے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔
اگر رانا مشہود نے تعلیم کو بھاری وزارت جان کر اس کے ساتھ انصاف کرنے کا
فیصلہ کرلیا ہے، تو یہ بہت بڑی خبر ہے۔ حکومت تعلیم کو اپنی اولین ترجیح
بھی قرار دیتی ہے، حکومت اس بات کا بھی خوب ادراک رکھتی ہے، کہ تعلیم کا
سرکاری سرپرستی میں حال کیا ہے؟ خادمِ اعلیٰ دانش سکول کا افتتاح کرتے ہوئے
حاضرین کو بتاتے ہیں کہ سرکاری سکول ایسے ہیں جن میں دروازے نہیں، عمارت
نہیں، فرنیچر نہیں ، حتیٰ کہ استاد بھی نہیں (وغیرہ وغیرہ)۔ جناب! اگر یہ
چیزیں نہیں تو ان کے ہونے کا کون ذمہ دار ہے، کس کا فرض ہے کہ وہ سرکاری
سکولوں میں یہ تمام سہولتیں بہم پہنچائے؟ یقینا حکومت کا ہی کام ہے، مگر
کیا کیجئے کہ ترجیح نہیں۔ اب اگر رانا مشہود نے تعلیم کی تنہا وزارت کا
بوجھ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے، تو قوم خوشی سے پھولے نہیں سمائے گی، تعلیم
کے ساتھ انصاف ہوتا دیکھ کر جہالت کی تاریکیاں از خود بھاگ نکلنے پر مجبور
ہو جائیں گی، ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے میں کچھ بھی تاخیر نہ ہوگی۔
کیونکہ تعلیم کو ہی ترقی کا راستہ بتایا جاتا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ
مٹی گارے سے نہیں ، قومیں تعلیم سے بنتی ہیں۔
رانا مشہود کا تعلیم کی وزارت کا بوجھ اٹھانے کے بعد ارادہ ہے کہ سکولوں
میں تعلیمی سرگرمیاں بہتر کی جائیں، سکولوں میں سہولیات فراہم کی جائیں۔ بس
جلدی میں تو انہوں نے یہی دو ترجیحات اور ہدف بیان کئے ہیں، ممکن ہے دیگر
وزارتیں چھِن جانے کے بعد جب وہ ذہنی طور پر فراغت پائیں گے اور آسودگی
حاصل کریں گے تو دیگر بھی بہت سے اہداف ان کے سامنے آجائیں گے۔سکولوں میں
نصاب کیا اور کیسا ہونا چاہیے، کس کو نصاب میں داخل کرنا اور کسے وہاں سے
نکالنا ہے؟ کس نصاب سے ملک ترقی اور قوم تہذیب کی راہ پر چل سکتی ہے؟ بچوں
کو مفت کتابیں کس مہینے میں فراہم کرنی ہیں؟ سکولوں میں تعلیمی معیار کا
جائزہ کس طرح لینا ہے؟ سکولوں میں دی گئی سہولتوں کو کس طرح استعمال کرنا
اور محفوظ رکھنا ہے؟ سکولوں سے باہر لاکھوں بچوں کو سکول کیسے لانا ہے؟
بچوں کو طوطا بنانے کی بجائے بہترین قوم کیسے بنانا ہے؟ امید ہے رانا صاحب
بہت جلد یہ منصوبہ بندی کرلیں گے اور پنجاب حقیقی اور اصلی ترقی کی راہ پر
گامزن ہو سکے گا ۔ |