ایک اور سانحہ!

روشنیوں، زندگی کی امنگوں اور رعنائیوں سے بھرپور شہرلاہور کو دہشت گردوں نے خون سے نہلا دیا۔ دہشت گردوں نے بڑی بے دردی سے معصوم جانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ 72 افراد جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہوئے۔ سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں 30 بچے بھی شامل ہیں جبکہ متعدد زخمی بچوں کی حالت تشویشناک ہے۔ خود کش حملہ آور نے بچوں کے جھولوں کے قریب آکر موت کی زنجیر کھینچی۔ تھوڑی ہی دیر پہلے جہاں زندگی رواں دواں تھی۔ بچوں کے قہقہے گونج رہے تھے۔ وہاں قیامت برپا ہوچکی تھی۔ معصوم بچوں کے ننھے ننھے اعضاء زمین پر یوں بکھرے پڑے تھے جیسے کسی درندے نے پھولوں کو بے دردی سے مسل دیا ہو۔ مائیں اپنے ہاتھوں میں اپنے چھلنی لخت جگر تھامے آہ و یاس کی تصویربنی ہوئی تھیں۔ ہر طرف خون ہی خون دکھائی دے رہا تھا، زخمیوں کی کربناک چیخیں فضا میں گونجتی رہی تھیں۔ ننھے منے بچوں کے جوتوں کا ڈھیر انسانیت کو جھنجوڑ رہا تھا۔ کئی لاشیں سوختہ اورناقابل شناخت ہوچکی تھیں اور آگ اور دھویں کے ڈھیر سے لوگ اپنوں کو تلاش کررہے تھے۔

دہشت گردی کے اس ہولناک واقعے نے پوری قوم کو غم میں ڈبو دیا ہے۔ ہر کوئی آنکھ اشک بار ہے۔ ہر کسی کی ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ "انسانوں" کی کون سی قسم ہے جو معصوم شہریوں، بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنارہی ہے۔ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ یہ انسانیت کا قتل کرنے والے کون لوگ ہیں؟ ان لوگوں کا تعلق نہ اسلام سے ہے اور نہ اس دھرتی سے۔ یہ تو وہ کرائے کے قاتل ہیں جنہیں کل بھوشن جیسے چانکیہ کے جاسوس چند ٹکوں سے خرید کر مسلمانوں میں پھوٹ اور ان کی صفوں میں فساد پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ایجنڈا صرف اور صرف پیسہ ہے۔ دہشت گردی اب عالمی منڈی کا روپ دھار چکی ہے۔ دنیا کی بہت سی تنظیمیں، ادارے اور افراد اس منڈی سے "خود کش حملہ آور" خریدتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان مخالف قوتوں نے اس منڈی سے بہت سا مال خرید کر ہمارے ملک، افواج اور شہریوں کے خلاف استعمال کیا۔ انہوں نے ان ہتھکنڈوں سے ایک طرف امت مسلمہ پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کی کوشش کی تو دوسری طرف ان کے اتحاد و یکجہتی میں چھید کرنے کا کام لیا۔ آج بھی القاعدہ دنیا کے لیے معمہ ہے؟ یہ کیسے بنی، کہاں گئی؟ مگر امریکہ اور اس کے حواریوں نے اس کے ذریعے افغانستان، عراق پر قبضہ جمانے کے ساتھ ساتھ بہت سے مسلمانوں کو قتل اور پاکستان سمیت بہت سے مسلمان ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کردیا۔ القاعدہ کا تعلق طالبان سے جوڑا گیا اور پھر اس کے قلع قمع کے لیے امریکہ نے ڈیڑھ دہائی قبل دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی لیکن ابھی بھی طالبان کا وجود برقرار ہے اور ان کا ہدف مسلمان ممالک ہیں۔ القاعدہ کے بعد داعش اچانک ابھر کر سامنے آ گئی۔ اس کا ہدف بھی مسلمان ہی ہیں۔ شام اور عراق میں کے کئی مسلمانوں کو فرقہ واریت کے نام پر قتل کردیا گیا۔ بہت سے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت بہت سے مغربی ممالک اس سے "سہمے" ہوئے ہیں۔ مگر حیرت ہے کہ انہیں اس کے پنپنے کی "بھنک" تک نہ ہوئی۔ اس تنظیم نے دیکھتے ہی دیکھتے ٹینک اور جہازوں سے کارروائیاں شروع کردیں۔ یہ اسلحہ، سازوسامان انہوں نے صرف چند ماہ میں حاصل کرلیا؟ دہشت گردی اور اس کی تنظیموں کے عروج و زوال اور آغاز و انجام کی گھتیاں اتنی مشکل نہیں کہ عام انسان انہیں سمجھ نہ سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کے مقاصد اور ان کی پشت پناہی کون سی قوتیں کررہی ہیں۔ دہشت گردی آج کے جدید دور میں ایٹم بم سے بھی خطرناک ہتھیارہے جسے امریکہ اوربھارت سمیت بہت سی طاقتیں بڑی خوبی سے مسلمانوں کے خلاف استعمال کررہی ہیں۔

لاہورمیں ہونے والی دہشت گردی کے ذریعے بہت سے پس پردہ مقاصد حاصل کئے گئے۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب پاکستانی سیکورٹی اور خفیہ اداروں نے ایک کامیاب کارروائی کرکے "را" کے ایک بڑے جاسوسی نیٹ ورک کو توڑ کر اس کے حاضر سروس افسر کو گرفتار کرلیا ۔ بھارت کے اس جاسوسی نیٹ ورک کی بے نقابی یقینا پاکستان کی عسکری و خفیہ اداروں کی بہت بڑی کامیابی ہے جس پر بھارت سٹپٹا گیا ہے۔ اس کے علاوہ افواج پاکستان کی شاندار پریڈ، آپریشن ضرب عضب کی کامیابیاں، پاکستان کے اہم ترین ہمسایہ برادر ملک ایران کے صدر کا دورہ پاکستان، یہ وہ واقعات ہیں جن کے تناظر میں بھارت یقینا خوش نہیں۔ پاکستان کے دل لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے ڈانڈے براہ راست "را" سے ملتے ہیں۔ کل بھوشن یادیو نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ وہ رابطے میں تھا اور ان کے ذریعے وہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کرواتا رہا ۔ لاہور میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کرلی۔ سوال یہ ہے کہ 30 بچوں، 10 عورتوں اور 30 نہتے شہریوں کو قتل کرکے انہوں نے کسی کی خدمت کی، کون سے مقاصد حاصل کئے؟ اس سے قبل آرمی پبلک سکول پشاور، باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے معصوم طالب علموں کو قتل کرکے کون سی "نیکی" کمائی؟

بہرحال سانحہ لاہور کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہدایت پرپنجاب میں بھی آپریشن کا آغاز کردیا گیا ہے۔ مختلف شہروں میں کارروائی کے دوران رینجرز اور پاک فوج نے متعدد مشکوک افراد کو اسلحہ سمیت حراست میں لے لیا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی قوم سے اپنے خطاب میں دہشت گردوں سے حساب چکانے کا عزم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد اور ان کے سرپرست قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکیں گے۔ ہم نے پورے سیاسی عزم کے ساتھ آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا۔ فوج، پولیس اور سکیورٹی اداروں نے اپنے لہو سے اسے پروان چڑھایا ہے اورانشاء اﷲ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائیگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپریشن ضرب عضب میں افواج پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کا نتیجہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ اس آپریشن کے مختلف شہروں میں حالیہ چند واقعات کے ذریعے دہشت گرد پاکستانی قوم کے عزم کو کمزور نہیں کرسکتے۔ یہ ہماری بقاء کی جنگ ہے۔ اسے ہم نے ہر صورت میں جیتنا ہے۔ جس دن لاہور میں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، اسی روز ممتاز قادری کے چہلم میں شرکت کرنے والے مظاہرین کا ایک ہجوم بے قابو ہوکر پارلیمنٹ ہاوس پہنچ گیا۔ بدترین جلاؤ، گھیراؤ اور پتھراؤ کے نتیجے میں میٹرو بس سمیت بہت سی قیمتی املاک کو شدید نقصان پہنچا، اس واقعے کے پیچھے کس کا ہاتھ کارفرما تھا، اس کے لیے ہم سب کو کسی بیرون ملک قوت کو مورودالزام ٹھہرانے کی بجائے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69450 views Columnist/Journalist.. View More