نئے چیف جسٹس سجاد علیشاہ نے سندھ ہائی
کورٹ کا چارج سنبھال لیا اور اپنے بیان میں بڑی اہم باتوں کا اظہار کیا۔
انہوں نے فرمایا کہ اگر ٔ قواعد کی خلاف ورزی سے متعلق کوئی شکایت آئی تو
ججزکا بھی احتساب ہوگا، لوگ جھوٹ بولتے ہیں نتیجہ یہ کہ سارا و قت فیصلہ کے
لئے سچ کی تلاش میں گذر جاتا ہے، قواعد و ضوابت پر عمال نہیں چلتے لہذا
کوئی کام بھی صحیح نہیں سکتا، متعلقہ بار کونسل ، وکلاء کی غلط کاریوں کو
نظر انداز کردیتے ہیں، ۱۹۶۶ء تا ۲۰۰۰ء کے تمام مقدمات کواگلے سال ماہ جون
تک نمٹا نے کا عندیہ بھی ملا ہے۔ بقیہ ۰۰۰،۴۰؍ مقدمات بھی جلد نمٹانے کا
ارادہ ظاہر کیا ہے۔
اس دوران چیف جسٹس پاکستان نے بھی بار ہا اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا
ہے ، اﷲ سے دعا ء ہے کہ ان باتوں پر سختی سے عمل کرایا جائے تاکہ انصاف جلد
از جلد ہوتا ہو ا نظر آئے اور بقول کسے یہ نہ ہو کہ ا نصاف کے ملنے تک جاں
سے گذر گئے۔بے انصافیوں کی یہ انتہا ہے کہ کسی سادہ لوح شخص کو پولس نے
پکڑا اوراسے جیل تک پہنچادیا، کوئی اس کا سہارا نہ ہونے کے باعث ۳۵؍ سال
گزرنے کے بعد کسی فرشتہ نے جیل کا جا ئزہ لیا تو اسکے خلاف کچھ نہ ملا تو
اسے آزاد کردیا، جب وہ گھر کی جانب چلا تو راستہ تک بھول چکا تھا۔یہ ہے نا
انصافیوں کی حد، اﷲ سے ڈرنے والا تو کانپ جائے کہ کیا جواب دونگا اور کون
کون اسکا ذمہ دار ہوگا۔ والسلام |