’’ایک تو جرمن کو انگلش نہیں آتی، ڈرائیور
ہمیں ڈھونڈ رہا ہے اور ہم ڈرائیور کو……‘‘ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر اپنے
ایک دوست برادرم محمد یوسف اکبر جو ان دنوں جرمنی کے دورے پر ہیں، کا اظہار
خیال پڑھاتو حیرانی میں اضافہ ہو گیا۔ یہ تو معلوم تھا کہ جرمن لوگ انگریزی
نہیں جانتے لیکن اس حوالے سے صورتحال یہ ہو گی کہ پاکستانی مہمانوں کو
ہوائی اڈے سے لینے کے لئے جو ڈرائیور جائے گا، وہ بھی انگریزی سے نابلد ہو
گا، معلوم نہ تھا۔ یہ کون سا جرمنی ہے……؟ جی ہاں، وہی جرمنی کہ جو پاکستان
میں ’’تعلیم کے فروغ‘‘ کیلئے سب سے زیادہ معاونت و امداد دینے والے ممالک
میں شامل ہے۔ لیکن وہ معاونت و امداد جرمن زبان کی ترقی و ترویج کیلئے نہیں
بلکہ انگریزی زبان کی ترقی و ترویج کیلئے مہیا کی جاتی ہے۔ اگر جرمنی ہماری
یعنی پاکستانیوں کی ترقی چاہتا ہے تو اس نے خود انگریزی کو اپنے ہاں جگہ
نہیں دی تو پھر کیسے ترقی کر لی……؟ اور اگر وہ ہمیں ترقی یافتہ دیکھنا
چاہتا ہے تو ہمیں انگریزی کے بجائے جرمن زبان پڑھنے پڑھانے کے لئے امداد
کیوں نہیں دیتا؟ اپنی زبان میں ترقی یہ حال صرف جرمنی کا نہیں…… دنیا میں
ترقی کی معراج پر سمجھے جانے والے براعظم یورپ کے 50 کے قریب ملکوں میں سے
صرف برطانیہ ایسا ملک ہے جس کی زبان انگریزی ہے جبکہ دیگر سبھی ممالک کی
اپنی الگ الگ زبانیں ہیں اور کوئی ملک دوسرے ملک کی زبان کی ابجد سے بھی
واقف نہیں لیکن ہر کوئی ترقی میں ایک دوسرے سے آگے ہی نظر آ رہا ہے۔ اس
یورپ کا ایک ملک ہالینڈ بھی ہے جو پاکستان کے تعلیمی نظام کیلئے بے حد ’’فکرمند‘‘
ہے اور تعلیم کے نام پر پاکستان میں بے تحاشہ رقم پھینکتا ہے لیکن وہ بھی
اپنی زبان یعنی ’’ڈچ‘‘ کیلئے نہیں بلکہ انگریزی کیلئے…… آخر یہ ہمارے کیسے
مخلص دوست ہیں کہ جنہیں اپنے آپ سے زیادہ ہم سے پیار ہے اور جو ’’نعمت‘‘
ہمارے لئے پسند کر رہے ہیں، خود اس کے پاس بھی پھٹکنے کو تیار نہیں۔ اس
سوال کا جواب تو برسوں سے مملکت پاکستان کی ایک معتبر شخصیت جناب ڈاکٹر
محمد شریف نظامی دے رہے ہیں جو کہ پاکستان قومی زبان تحریک کے بانی اور صدر
بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے خود کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بیرون ملک سے حاصل
کی لیکن زندگی بھر کے تجربات اور تعلیم و تعلم کے میدان اپنی حیاتی کھپانے
کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر پاکستانی قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن
کرنا اور اسے تعلیم یافتہ بنانا ہے تو اسے اس کی قومی زبان اردو سے جوڑنا
اور اردو کو ہی ذریعہ تعلیم بنانا ہو گا۔ وہ جب اس حوالے سے گفتگو کرنے
لگتے ہیں تو قوم کا درد ان کی آنکھوں اور چہرے کے ایک ایک رویں سے نمایاں
ہونے لگتا ہے۔ آواز رندھ جاتی ہے اور گلا بیٹھنے سا لگتا ہے۔ وہ بتانے لگتے
ہیں کہ ہم ہر سال صرف انگریزی زبان کی کالی دیوی کے چرنوں میں لاکھوں بچوں
کو ذبح کر رہے ہیں کہ جس میں فیل ہونے والے طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
انگریزی میں فیل ہونے والے یہ طلبہ میدان تعلیم سے فرار ہو جاتے ہیں اور
پوری قوم کو جاہل اور پھر غلام رکھنے میں ملکی و غیر ملکی استعماری قوتیں
کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یہ کیا اس قوم کے ساتھ طرفہ تماشا نہیں کہ ترقی یافتہ
اقوام کی صف میں شامل کرنے کے دھوکے میں جس طرح اس کے بچوں کے گلے میں
انگریزی کا پھندا کس دیا گیا ہے، اس ظلم کی انتہاء دیکھئے کہ اس قوم کے
نونہالوں کو برائے نام اسلامیات کے چند حروف تک بھی انگریزی میں فیشن زدہ
عورتوں سے پڑھائے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد شریف نظامی کی یہ جدوجہد جاری
وساری ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے اس سلسلہ میں ایک بار پھر ’’قومی کانفرنس
برائے نفاذ اردو‘‘ منعقد کی جس میں ملک بھر سے جلیل القدر شخصیات شریک
ہوئیں۔ تقریب کے مہمان خصوصی بیرسٹر ڈاکٹر کوکب اقبال تھے کہ جن کی سالہا
سال سے سپریم کورٹ کے سرد خانے میں پڑی درخواست کو سماعت کیلئے منظور کرتے
ہوئے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے حکومت کو حکم دیا
تھا کہ وہ آئین پاکستان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قومی زبان اردو کو ہر
سطح پر نافذ کرے اور اس حوالے سے پیش رفت کی 90دن میں رپورٹ سپریم کورٹ میں
جمع کرائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا یہ حکم اپنی نوکری سے برخواستگی سے پہلے
آخری حکم تھا…… حکومت کا خیال تھا کہ منصف اعلیٰ گیا تو فیصلہ بھی گیا……
البتہ حکومت پنجاب نے اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر ڈالی جسے چند
روز پہلے سپریم کورٹ نے ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ حکم پر
عملدرآمد کے بجائے مزید مہلت مانگنے آ گئے ہیں۔ کانفرنس کے دوران وہ لمحہ
بڑا دلچسپ اور حیران کن تھا کہ جب سابق آئی جی پنجاب طارق سلیم ڈوگر نے
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آخر ہمیں انگریز کی چھوڑی ہوئی غلامی کی علامت ٹائی
کو اپنانے اور پہننے کی کیا ضرورت ہے……؟ اس پر بہاولپور سے آنے والے ممتاز
قانون دان مختار احمد فارانی جو کہ نواب آف بہاولپور کے مشیر خاص، اقوام
متحدہ میں پاکستانی مندوب رہ چکے ہیں اور جنہوں نے قیام پاکستان کی تحریک
میں قائداعظم کو بھی انتہائی نزدیک سے دیکھا، نے وہیں اپنی ٹائی اتار دی۔
ممتاز دانشور پروفیسر ڈاکٹر محمد اعجاز کہنے لگے کہ حکومت کا دعویٰ ہے
ہماری شرح خواندگی 55فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ شرح
35فیصد سے زیادہ نہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف انگریزی نظام تعلیم ہے جس
کی وجہ سے ہماری قوم جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی چلی جا رہی ہے۔ راقم
نے گفتگو میں کہا کہ اگر یہ انگریزی اس طرح ہماری گردنوں پر مسلط رہی تو
ہماری نسلیں کلمہ طیبہ پڑھنے سے عاری ہوں گی کیونکہ عربی کے بیشتر حروف و
حرکات کا انگریزی حروف تہجی میں متبادل نہیں جس کے نتیجے میں آج ہم دیکھ
رہے کہ عربی اور اردو ناموں، تراکیب اور اصطلاحات کا حلیہ ہی بگڑ چکا ہے۔
اردو دنیا کی واحد زبان ہے کہ جس میں ساری زبانوں کے حروف تہجی ادا کئے جا
سکتے ہیں اور کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اس لئے اردو کے نفاذ کی جدوجہد
کسی طور جہاد سے کم نہیں اور ڈاکٹر کوکب اقبال اور ڈاکٹر شریف نظامی جیسی
شخصیات گویا ہمارے لیے مسیحا ہیں۔
الامہ لائرز فورم کے صدر مخدوم جمیل فیضی کہنے لگے کہ انگریزی مسلط کرنے
والے جانتے ہیں کہ جس دن یہ قوم انگریزی سے نجات پانے میں کامیاب ہو گئی اس
دن ان نقالوں کی موت ثابت ہو گی، اس لئے وہ سخت پریشان ہیں۔ پروفیسر رضوان
الحق نے ایک ہی جملہ کہا کہ ہمارے جن وزیراعظم صاحب کو دنیا بھر میں
انگریزی میں تقریریں کرنے کا شوق ہے، ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس کے
بعد ملک کے عوام سے ووٹ بھی انگریزی میں مانگیں۔ اس جملہ کو شرکاء نے
بھرپور داد دی۔ کانفرنس میں بتایا گیا کہ آج کی دنیا کی سبھی ترقی یافتہ
اقوام صرف اور صرف اپنی زبان میں پڑھ لکھ رہی ہیں اور کسی پر انگریزی سے
مرعوبیت کا جن سوار نہیں۔
ڈاکٹر محمد شریف نظامی کی یہ کانفرنس مکمل ہوئی تو خیال آنے لگا کہ اﷲ
تعالیٰ واقعی بے دست و پا لیکن ایمان والوں کی مدد کرتا ہے۔ انگریز نے
ہمارے اوپر انگریزی کو مسلط رکھنے کے لئے صدیوں کی محنت کی اور اب تک اس کے
لئے دنیا بھر کا استعمار اپنی ساری قوتیں میدان میں جھونکے ہوئے ہے لیکن
ڈاکٹر کوکب اقبال اور ڈاکٹر محمد شریف نظامی کی معمولی ٹھوکر سے وہ شکنجہ
اب ریزہ ریزہ ہوتا نظر آ رہاہے۔ سپریم کورٹ سے مقابلے کے امتحانات اردو میں
کروانے کا حکم آ چکا ہے جو کہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی
کسی صورت اردو کیلئے کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ کیسی حیران کن بات ہے کہ
بانیٔ پاکستان کے 11اگست کے خطاب کو ہر وقت گلے کا ہار بنائے رکھنے والے ان
کے اسلام اور پھر اردو زبان سے متعلق ارشادات کا کبھی نام نہیں لیتے۔ اس
منافقت کے بہرحال تاروپود بکھرنے ہی تھے، جو اب بکھر رہے ہیں اور انگریز کی
اندھی غلامی سے نکل کر آزادی کی جانب سفر میں روشن صبح کی نوید سنائی دینے
لگی ہے۔ |