کیا معصوم اور بے گناہوں کو مارنا جائز ہے؟

کتنی بے حسی اور افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان ایک دوسرے کو مار رہے ہیں ۔ایک دوسرے کا خون بہارہے ہیں ،ویسے تو یہ مسئلہ ہمارے ملک کا صرف نہیں بلکہ پورے دنیا اور اسلامی ممالک میں زیادہ تر مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں لیکن پاکستان میں تو اسلام کا نام لینے والے معصوم اور بے گناہوں کو قتل کرنے کے بعد اسلامی جواز بھی پیش کرتے ہیں کہ کل یہ لوگ بڑے ہوں گے اور ہمارے خلاف کارروائیاں کریں گے لہٰذا ان کو مارنا جائز ہے۔آج ان درندوں اور برائے نام مسلمانوں کی وجہ سے اسلام کا روشن پہلو اور پوری دنیا میں امن اور بھائی چارے کادرس دینے والے دین کو بدنام کیا جارہاہے اور اس کھیل میں غیروں سے زیادہ مسلمان ملوث ہے ، ہر گروپ اور مکتبہ فکر اسلام کی اپنی تشریخ اور اپنی سوچ کو نافذ کرنے کیلئے سرگرم ہے جس کی وجہ سے اسلام کی دنیا بھر میں بدنامی ہورہی ہے لیکن بدقسمتی اب اسلام کو بدنام کرنے والے صرف دہشت گرد اور شدت پسند تنظیمیں ہی نہیں بلکہ وہ لوگ بھی نادانستہ طور پر شامل ہے جو اپنی سوچ کو ریاست یا حکومتوں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں جس کی تازہ مثال گزشتہ ایک مہینے میں ہونے والے واقعات ہے جو دنیا بھر اور پاکستان میں اسلام کی بدنامی کا باعث بن گئے ہیں ،ہمارے ان نادانوں کی وجہ سے اسلام عدم برداشت والا دین بن گیا ہے۔ ایک طرف ہمارے حکمران اور سیاست دان ہے جو ہر دہشت گرد واقعے کے بعد مذمتی بیانات جاری کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ہسپتالوں میں جاکر زخمیوں کی عیادت کرتے ہیں جس سے ہسپتال کا پورا نظام معطل ہوجاتا ہے اور عام لوگ مزید تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔واقعے کے بعد مالی مدد کے اعلانا ت اور ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم بھی ظاہر کیا جاتا ہے لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد حالات وہی کے وہی رہتے ہیں۔ کوئی خاص پلاننگ یا منصوبہ بندی عمل میں نہیں آتی جس کی وجہ سے دہشتگردوں کے خلاف ایک جامع پروگرام اور ایکشن عمل میں نہیں لایا جاسکا ۔ سچ تو یہ ہے کہ دس سال بعد بھی ہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے فورس اور ادارے نہ بنا سکے ، صرف باتیں ، وعدیں اور مذمتی بیانات سے کام لیتے اور وقت پاس کرتے ہیں ،دوسری طرف وہ مذ ہبی لوگ ہیں جودہشت گرد واقعے کے بعد مذمت تو نہیں کرتے لیکن ان واقعات کو جواز دینے کیلئے ردعمل قرار دیتے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ مذہبی لوگ کس چیز کا ردعمل کہتے ہیں ۔کس نے ان درندوں کو کہا ہے کہ تم لوگ ریاست کے معاملات کو ہاتھ میں لے لو اور اپنی منشا اور غیروں کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کرو۔ ہر ملک کا اپنا قانون اور پالیسی ہوتی ہے جس میں وقتاً فوقتاً تبدیلی بھی کی جاتی ہے اس پر عمل کرنا سب کا فرض ہوتا ہے۔اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہر آدمی اپنی مسلکی اور فلسفے کی دکا ن کھول لے ۔ اسلئے اسلام نے بڑے پیمانے سے لے کر تین آدمیوں کے ٹولے کو بھی کہا ہے کہ تم اپنا ایک امیر مقرر کروں اور ان کی بات کو مانوں وہ صحیح ہو یا غلط یا ان کی صوابدید پر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے لہٰذااسی طرح اسلام نے ریاست اور ملکوں میں حکمرانی کے بھی اصول بتائیں ہیں جس پر عمل کرنا ہر ایک پر فرض ہے ۔ معاشروں اور ملکوں کے تباہی میں بنیادی کردار یہی چیز ادا کرتی ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو دوسروں سے الگ سمجھے اور اپنا فلسفہ اور سوچ نافذ کرنے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ ہم بے گناہوں اور معصوم لوگوں کو قتل کرنے پر ایک تو نہیں ہوتے لیکن اپنی دکان چمکانے اور فائدے کیلئے قانون کو چیلینج بھی کرتے ہیں ، احتجاج ، جلو س ، سڑکو ں کوبلاک کرنا ، توڑ پھوڑ کرنا اور اپنی ذاتی فائدے کیلئے دھرنا دینے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، دوسرے لوگوں کو ہمارے اس عمل سے کتنا نقصان ہوتا ہے ، ملک کی کیا بدنامی ہوتی ہے اس سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ۔

وقت کا تقاضا ہے کہ پوری قوم اپنی سوچ اور عمل پر غور کرے کہ کسی کے کہنے پر عمل کرنے کے بجائے خو د سو چیں کہ میر ے کسی عمل سے عام آدمی کو کیا فائدہ اور نقصان ہوگا؟ کیا میں کسی کا ایجنڈا تو پورا نہیں کررہا ؟کیا میرے احتجاج اور دھرنے سے اسلام کا فائدہ ہو تا ہے یادنیا بھر میں رہنے والے مسلمان کو تکلیف اور غیروں کا ایجنڈا پورا ہو تا ہے۔آج ہمیں اپنی پارٹی ، فرقے ، تنظیم اور مسلک سے ہٹ کر صرف اور صر ف ایک انسان سوچنا چاہیے کہ میر ے عمل سے دوسرے انسانوں کو تکلیف نہ پہنچے ، تب معاشرہ پرامن بن سکتا ہے ۔ اسلام تو امن کا دین ہے اس میں کسی بے گناہ کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے ۔ اﷲ تعالیٰ خود رب العلمین ہے رب مسلمین نہیں یعنی اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کا نہیں بلکہ پورے انسانوں کا رب ہے۔
سانحہ لاہور گلشن اقبال پارک میں ہونے والا خود کش حملے پر ہر ایک افسردہ اور پریشان ہے کہ آخرکب تک یہ درندے معصوم کو قتل کرتے رہیں گے؟ہمارے حکمران اگر سنجیدہ ہیں تو دہشت گردی کو ہی سب سے بڑا مسئلہ سمجھیں ، سڑکوں اور پلوں کی سیاست سے باہر اگر ملک کے حقیقی مسائل کی جانب توجہ دیں ، پولیس پر لعن طن سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ پولیس کی نفری بہت کم اور ٹر یننگ بھی نہیں ہے۔ پولیس نفری میں اضافے کی اشدضرورت ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جو انسداد دہشگردی فورس بنائی ہے اس کو ایک الگ ادارہ بنایا جائے چند لوگوں کو دہشت گردی کے خلاف فورس قائم کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ بعض اوقات تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران دہشت گردی کو ختم کرنا ہی نہیں چاہتے ، ہر وقت صرف سیاست کرتے ہیں ۔ پنجاب میں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہے لیکن صوبائی حکومت فوج اور رینجرز سے مدد حاصل کرنے کے بجائے حیلے بہانے بنا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کا دھیان عوامی حکومت کے بجائے عسکری اداروں کی جانب جاتا ہے کہ یہ لوگ ملک کو دہشت گردی سے پاک کریں جو ان کی ذمہ داری بھی ہے لیکن سولین حکومت کو اپنی پالیسی اور سوچ واضح کرنا چاہیے جو اب تک واضح نہیں ہے ۔ پنجاب حکومت اگر انٹیلی جنس اطلاعات پر عمل اور پہلے سے آپریشن کر تی تو شاید یہ واقع رونما نہ ہوتا۔ لگتا ہے کہ اب عسکری اداروں نے پنجاب میں فل فلیج آپریشن کاآغازکر لیا ہے جو ایک خوش آئند اقدام ہے۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226163 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More