کرپشن کرپشن اور صرف کرپشن ۔

کرپشن یا بدعنوانی یہی سنتے سنتے ہم بوڑھے ہو ئے لیکن کبھی ہم نے اس ملک میں بدعنوانوں کو سزا پاتے نہیں دیکھا جب ہمارا سارا نظام ہی بدعنوانی کا مرتکب ہو تو ایمان دار کہاں سے آ کر ان بد عنوانوں کو پکڑیں گے، ملک توڑ کر بھی زمہہ داروں کا تعین نہ کیا گیا اور انہیں تمام مراعات دے کر خوب نوازا گیا کم از کم عوام تو اس تمام سے کسی نہ کسی طرح آگاہ ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ کس کس نے اور کب کب اس ملک کو برباد کیا آئین کی بالادستی کا خوب دھنڈورہ پیٹ کر قومی خزانے کو نہ صرف دونوں ہاتھوں سے لوٹا بلکہ پیروں کا استعمال بھی کر ڈالا، کیا یہ ملک اس لوٹ مار کے لئے بنایا گیا تھا ، لوگوں نے اپنی جان مال عزت و آبرو کی قربانی صرف اتنی سی بات کے لئے دی تھی کہ اس ملک میں بدعنوانی کا دور دورہ ہو چور اور ٹھگ اس ملک میں اشرافیہ میں شامل ہو کر اس ملک کی جڑوں کو کاٹنے کا کام بڑی ایمان داری سے کریں ۔

اس پر طرہ کہ میڈیا مادر پدر آزاد ہو کر پوری قوم کو ہر ہر معاملے کی آگاہی دے رہا ہے جس کو دونوں طرح کے عوام دیکھ رہے ہیں ایک وہ جو اسی طرز کو اختیار کرنے میں اس کرپٹ اشرافیہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں دوسرے وہ جن کے زہنوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے وہ غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ کر ملک و قوم کی بربادی کا باعث بن رہے ہیں اور اگر ان پر ہاتھ کسی سیاست دان کا ہو تو اس تخریب کاری میں مزید نکھار دیکھا جاسکتا ہے جو قوم ہر روز نت نئی خبروں کی صورت میڈیا پر دیکھتے ہی رہتے ہیں۔

کسی بھی شعبہ کو لے لیں ہر سو لٹیرے نظر آتے ہیں اور معصوم عوام ان لٹیروں کے جال میس پھنسے پھڑ پھڑا رہے ہیں ایمان داری ناقابل معافی جرم بن گئی ہے اور ایمان دارلوگوں کو معاشرہ میں رسوا کرنے کے نت نئے حربے اختیار کیے جاتے ہیں اورنہیں ان فٹ قرار دے کر اس کی صلاحیتوں کا مزاق بنا کر ملازمتوں سے بھی فارغ کر دیا جاتا ہے ۔

اور نا اہل افراد کا ٹولہ من مانی کاروائیں کر کے خوب دولت کماتا ہے اور عزت بھی کماتا ہے۔ کسی بھی شعبہ کو لے لیں ہر طرف کرپشن کے انبار ہیں اور مزے کی بات کوئی ڈر اور خوف بھی نہیں ہر کام ڈنکے کی چوٹ پر کیا جا رہا ہے نہ عدلیہ کا خوف نہ ان کے کرتوتوں کے افشا ہونے کا ڈر بڑے کروفر سے اشرافیہ کا لباس اوڑھ کر بڑے بڑے عالیشان مکانات اور محلات میں شاہانہ زندگی گزارتے ہیں۔ کسی ادارے کے اہلکاروں کو لے لیں قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب بڑے دھڑلے سے کر رہے ہیں اور وہ اسے اپنا اختیار سمجھ لر استفادہ حاصل کر رہا ہے۔ جس سے معاشرہ جنگل کا نمونہ پیش کر رہا ہے ۔

اب اس کمائی سے پروان چڑھنے والے کیا اس ملک کو کچھ دے پائیں گے چونکہ کیکر کا درخت لگا کر انگور کی فصل تو حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ اس ملک میں یہی کقھ دیکھتے ہم بوڑھے ہو گئے حالات میں بہتری کے امکانات معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں پہلے کچھ امید تھی لیکن اب ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا اس میں بہتری کی امید نہیں ہے۔ جہاں نوکریاں پیسے سے بکتی ہوں ہاں سفارش اور اقربہ پروری کے دور دورہ ہو تو ایسے میں جن کے تعلقات نہ ہو تو ان بچوں کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے ان حالت میں آپ خود غور کر سکتے ہیں۔ وہ پڑھے لکھے بچے کیا کریں گے ان کو بھی تو زندگی گزارنی ہے۔ وہ مایوس ہو کر کیا کچھ کر سکتے ہیں یہ تو حالات و واقعات اس کا تعین کریں گے۔

دھرے معیار کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ ایک بااختیار شخص کسی قانون اور ضابطہ کی پروا نہیں کرتا،کلیدی عہدوں پر فائز لوگ مقدمات کے باوجود بھی کسی کاروائی سے خوف زدہ نہیں جبکہ نیب کا ادارہ کرپشن کے خلاف کاروایاں کر کے چھوٹے لوگوں کی پکڑ دھکڑ کر رہا ہے اور اپنے اختیارات کو استعمال کر کے اپنی مرضی سے معاملات چلارہا ہے حکومت وقت میں شامل کلیدی افراد اس کی کاروائیوں سے مبرا ہیں اس میں بھی ایک سقم ہے کہ پکڑے جانے والے ایک مخصوص ہڑپ شدہ حصہ دے کر خود کو کاروائی سے بچا سکتے ہیں ، اور یہی حالیہ کاروائیایک ریٹائرڈ جنرل کے ساتھ کی گئی انہیں انٹرپول کے زریعے پکڑا گیا اور پھر ایک رقم دے کر انکا کیس سیٹل کر دیا گیا جو کہ اب برطانوی شہری ہیں ایسے محب وطن لوگ جو فوج میں رہ کر تمام فائد کشید کر کے اور لوٹ مار بھی کر کے محب وطن ہیں تو عام آدمی جو اس کرپشن کے سیلاب میں بہ رہا ہے کیسے پچ پائے گا۔ جب پتہ نہیں کتنے حلف اٹھانے والے بھی وہی کچھ کر رہے ہیں ایسے افراد کو تو ملک میں لا کر یہاں سزا دی جاتی تاکہ عام لو گ عبرت پکڑتے اس ادارے نے ان صاحب سے کچھ رقم وصول کر کے تمام معاملات سے مبرا کر دیا یہ ہے ۔

ہم نے مذہبی جہاد کے ثمرات اور مضمرات کا مزہ بھی اٹھایا اور مذہب کی آڑ میں تخریب کاری سے ہم جان نہیں چھڑا پائے ہر مکتب ہائے فکر کے لوگ اس مسعلے پر اپنے تحفظ کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن اصل لوگ اس سے لا تعلقی اختیار کر چکے ہیں اور جالی عالم اور دنیادی نمود و نمائش والے میڈیا پر نت نئے تجزیہ اور مباحثے کرتے نظر آتے ہیں جس سے معاشرہ میں ایک اور نئی بحث چھڑگئی اور ایک دوسرے پر اپنے خیالات ٹھونسنے اور خود کو راہ راست پر ہونے پر فخر کرتے ہیں مساجد کے ممبر پر براجمان کچھ لوگ اس مسلکی سمائل کے فروغ کے زمہ دار ہیں ایک دوسرے پر تہمت لگانے سے دریغ نہیں کرتے، ایسے میس ایک عام آدمی کس کو سچ جانے اور کس کی تقلید کرے اس سوچ کو میڈیا اور لائڈ اسپیکر کا استعمال کرکے معاشرہ کو ایک سنگین صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔

تاریخ کا مطالع کرنے سے یہ بات تمام لوگ جانتے ہیں کہ محمود غزنوی نے ہندستان پر سترہ حملے کئے اور ہر بار وہ فتح سے ہمکنار ہوا وہ سومنات پر حملہ کرتا تھا اس کے جواب میں تمام پنڈت اس کی مطلوبہ ڈمانڈ پوری کر کے اسے زر و جواہرات سے مالا مال کر کے سومنات کو بچا لیا کرتے تھے لیکن سترویں بار اس نے سومناتھ کا مند مسمار کر دیا بلکہ ر اور اس بت کو وہاں سے نکال کر غزنی کی مسجد کے باہر رکھ دیا تاکہ لوگ اس پر پیر رکھ کر مسجد میں جائیں۔ چونکہ اس نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ تاریخ میں بت پرست نہیں بلکہ بت شکن کہلوانا پسند کرے گا اس فتح کے بعد اس نے علماء سے رجوع کی کہ میں ہندستان جا کر فتوحات کرتا ہوں او لو گ میری اطاعت بھی کر تے ہیں اور اسلام بھی قبول کر لیتے ہیں لیکن دوسری بار میں جاتا ہو تو صورتحال وہی ہوتی ہے اور اسلام نظر نہیں آتا چونکہ لو گ واپس اپنے مذہب اختیار کر لیتے ہیں ، میں اس سلسلہ میں ناکام ہو گیا ہوں آپ میری مدد کریں تو ایسے میں علماء نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا اوہندستان کا رخ کیا ، آج بھی ان کے مزارات خاص و عام کے لئے فیض کا باعث ہیں اسطرح وہاں مسلم معاشرہ کی بنیاد پڑی اور اسلامی معاشرہ توانا ہوا اور مسلمانوں نے عرصہ دراز تک اپنی حکمرانی قائم ر کھی اورانگریز کی ریشہ دوانیوں سے اس حکومت کا خاتمہ ہوا لیکن انگریز اپنے منصوبہ کو نافذکرنے میں کامیاب میں ایک اور نئی بحث چھڑگئی اور ایک دوسرے پر اپنے خیالات ٹھونسنے اور خود کو راہ راست پر ہونے پر فخر کرتے ہیں مساجد کے ممبر پر براجمان کچھ لوگ اس مسلکی سمائل کے فروغ کے زمہ دار ہیں ایک دوسرے پر تہمت لگانے سے دریغ نہیں کرتے، ایسے میس ایک عام آدمی کس کو سچ جانے اور کس کی تقلید کرے اس سوچ کو میڈیا اور لائڈ اسپیکر کا استعمال کرکے معاشرہ کو ایک سنگین صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔

اور انہی انگریزوں کے دور میں مسالک اور مساجد پر کام ہوا اور تفرقہ بازی کو فروغ حاصل ہوا انہی کی مداخلت سے وہابی تحریک عرب علاقوں میں ایک زور و شور سے بپا ہوئی جس نے اسلامی خلافت کے خاتمہ میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ ہمارے شمالی علاقہ جات میں مساجد میں برطانیہ کے تربیت یافتہ یہودی مولویوں نے وہاں اسلام کا حلیہ بگاڑ کر ایک پر تشدد معاشرہ کی آبیاری کی چونکہ اس قوم نے برطانیہ کو شدید جانی نقصانات پہنچا کر عبرت کا نشان بنا دیا تھا ان سے بدلہ اس صورت لیا گیا کہ وہ ایک خونخوار قوم میں تبدیل ہوگئے ان میں وہ تمام برائیاں آج بھی ہیں جس کا ذکر کرنا اس لئے ضروری نہیں کہ پوری قوم آگاہ ہے جو اسلام سختی سے منع ہیں لیکن مذہب کے نام پر وہ ہتھیار اٹھا کر قتل و غارت سے دریغ نہیں کرتے انہوں نے طالبان میں گھس کر پاکستان کو کس کس طور نقصانات سے دوچار کیا اب افغانستان میں بیٹھ کر اپنا ایجنڈا پورا کر رہے ہیں۔

میرا مقصد کسی مکتب فکر کی دل آزاری نہیں مقصد معاشرہ کی بہتری ہے اپنے عقائد کو مضبوطی سے تھامیں لیکن دوسرے کو برداشت کریں کوشش کریں کہ سب مل کر قانون کی حکمرانی اس ملک میں قائم کریں خود بھی قانون کا احترام کریں اور اپنے عمل سے دوسرے کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کریں تب کہیں سالوں میں جا کر اس کے ثمرات قوم کو ملیں گے ورنہ تو آپ سب کو پتہ ہے کہ دشمن ممالک کے ایجنٹ کھل کر ہمارے معاشرہ میں قدم جما چکے ان میں مذہبی حلقے بھی ہیں تعلیمی ،عسکری اور سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں ان سے کیسے پچا جا سکتا ہے جب آپ میں خود اتنی برائیاں پروان چڑھ چکی ہوں، اب بھی وقت ہے اپنا رویہ تبدیل کر کے اس ملک میں بہتر معاشرہ کے قیام کی جدوجہد کریں اور یہی جہاد پورے ملک میں بلا رنگ و نسل اور مسلک اور مذہب کے کرنا ہو گا۔

تاریخ کا مطالع کریں اور فتح مکہ کو سامنے رکھ کر حضور کے رویہ دیکھ لیں کہ کس کس کو کس کس طرح معاف کیا ان کے حسن سلوک اصل میں اسلامی ریاست کے قیام کی بنیاد تھا اس موقع پر حضور کے ساتھ مختلف قبائل تھے اور ان میں سب مسلمان بھی نہ تھے لیکن انہوں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا اور فتح مکہ کے موقع پر اور ہمارے خصور کے حسن سلوک سے ایک بہت بڑی تعداد دائرائے اسلام میں داخل ہوئی اور وہ بھی جو ہمارے آقا کے شدید ترین مخالف بھی تھے اور انہوں نے بعدمیں اسلام کے سربلندی کے لئے کیا کیا عزیم ا لشان کارہائے نمایاں خدمات انجام دیں تاریخ گاہ ہے۔

اب بھی حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں اگر ہر شخص قانون کی بالادستی کے لئے کام کرے او ر اسکا احترام کرے ، عدلیہ کو آزادی سے کام کرنے کی جدوجہد کریں، تاکہ اس ملک کے لوگوں کو انصاف ملے ، تمام مذاہب اور مسالک کے لوگوں کے لئے دلوں میں گنجائش پیدا کریں درگزر سے کام لیں اور کسی کی د ل آزاری سے اجتناب کریں۔

کیا اللہ تعلی فرشتے بھیج کر اس معاشرہ کوٹھیک کریں گے۔ ہمیں خود کوشش کرنا ہوگی اور خود کو بدلنا ہوگا پھر اللہ کی مدد بھی ہو گی اور ہم ایک اچھا معاشرہ کا قیام کر سکیں گے۔
 
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75390 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More