شبانہ شیخ کی بے بسی !
(Nazia Elahi Khan, india)
ایک طرف دنیا بھر میں مسیحی برادری عاجزی ‘
انکساری ‘ ایثار ‘ قربانی اور تحمل وبرداشت کا سالانہ تہوار ایسٹر منارہی
تھی اورہندستانی معاشرہ ہولی کے رنگ و گلال میں ڈوبا ہوا مسرت کے لمحات
کشید کررہاتھا تو عین اسی وقت مغربی بنگال کے مالدہ کی رہنے والی شبانہ شیخ
تاریخ انسانیت کو شرمسار کردینے والے واقعہ سے گزر کر ایثار ‘
وفااورشوہرپرستی کا ایسانمونہ پیش کررہی تھی جس کی نظیر تاریخ انسانیت نے
بہت کم دیکھی ہے۔
دو سال کی شادی کے دوران مزید جہیز کے مسلسل مطالبہ پر انکار نے شبانہ کے
شب روزجہنم زار بنادیئے تھے ‘ وہ شوہر اور سسرال کے رویہ سے دلبرداشتہ تھی
تاہم حوصلہ‘ ہمت اور عزم کے سہارے زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی تھی لیکن شوہر
اقبال شیخ کامطالبہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہاتھاشبانہ کے حتمی انکار سے
چراغ پا ہوکراپنے ایک دوست کی مددسے شوہراقبال شیخ نے شبانہ کے پھول جیسے
چہرہ پر تیزاب پھینک دیا ۔پڑوسیوں نے اسے اسپتال پہنچایا جہاں اس کی جان تو
بچالی گئی لیکن اس کے چہرہ کو نقصان پہنچا‘ پھول جیسے عارض و رخسار میں
گڑھے پڑ گئے‘شاعروں کی تشبیہات کو حسن بخشنے والے ایک عورت کے لب لعلین
گویائی سے محروم ہوگئے ‘ جھیل کوغرق کردینے والی آنکھیں بینائی کھوبیٹھیں ۔
معاملہ ہوا‘ پولس نے اقبال شیخ کو گرفتار کیا ‘ ضمانت کی عرضی ضلع عدالت سے
منسوخ ہوئی‘ اقبال ہائی کورٹ میں درخواست گزار ہوا ‘ عرضی پر سماعت کیلئے
شبانہ شیخ کو بھی عدالت نے کلکتہ طلب کیا ۔ سماعت شروع ہوئی‘ گواہوں کے
بیانات ہوئے اور جب متاثرہ شبانہ اپنے نام کی پکار پر انصاف کی دہلیز تک
پہنچی ‘ اپنے چہرے سے پردہ ہٹایا اور سن گلاس اتار اتو اپنے نوک قلم سے سزا
اور جزا کا فیصلہ لکھنے والے فاضل ججوں کے ہوش اڑ گئے ‘ ریڑھ کی ہڈی میں
سنسنی دوڑ گئی ‘ مساوات مردو زن کا بلند بانگ دعویٰ سربل کے دھڑام سے زمین
بوس ہوگیا ۔سماعت کے دوران جب ججوں نے شبانہ شیخ کو بتایا کہ اسے طبی سہولت
اور مالی مدد دی جائے گی تو وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پائی۔عدالت
میں اس کے آنسوؤں کا سیلاب ابل پڑا۔
شبانہ کو اپنے روبرو طلب کرنے والی فاضل جج جسٹس اسیم کمار رائے اور جسٹس
سی ایس کرنانے کی ڈویزن بنچ کے ساتھ ساتھ کمرہ عدالت میں موجود ہرحساس شخص
اس وقت پانی پانی ہوگیا جب وفاکیش شبانہ شیخ نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کے
خلاف دائر شکایت واپس لینا چاہتی ہے اور اپنے سسرال لوٹنا چاہتی ہے۔ اسے ڈر
ہے کہ کچھ دنوں بعد اس کا کوئی خیال نہیں رکھے گا اور اس کی موت ہو جائے گی۔
کیس کی سماعت کے بعد ججوں نے فیصلہ دیا کہ متاثرہ خاتون اپنے سسرال واپس
لوٹ سکتی ہے، لیکن عدالت اس آزار کی تلافی کو یقینی بنائے گی۔
یہ کہانی اکیلی ایک شبانہ شیخ کی نہیں ہے نہ جانے ایسی کتنی شبانہ قدم قدم
پر گھریلو ‘ خاندانی اور سماجی تشدد کی شکار ہورہی ہیں ۔کچھ کی کہانیاں
باہرآجاتی ہیں اور کچھ کی گواہ گھر کی چہاردیواریاں بنتی ہیں ۔ان سب کے
باوجود عورتیں تحمل ‘ برداشت ‘ ایثاراور وفا کا ان مٹ نقش چھوڑرہی ہیں ۔
عورتوں پر ایسڈپھینکے جانے کے معاملے میں مغربی بنگال کا نمبر ملک میں
چوتھا ہے۔ ریاست میں ایسڈ اٹیک وکٹمس کی باز آباد کاری اور بحالی کا منصوبہ
بھی نافذ ہے لیکن اس کی حالت بھی ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے کے مصداق ہے
تیزاب حملے کی کسی متاثرہ کو شاید ہی کبھی مالی مدد ملتی ہے۔مغربی بنگال
میں صرف ایک سال میں تیزاب حملے کے 29 کیس سامنے آئے ہیں۔
عورتوں کے تحفظ کیلئے قانون بنائے گئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد اور ان کا
نفاذ نہیں ہورہاہے اس میں کچھ قصور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے تو
کچھ عورتوں کی ناواقفیت اور عدم بیداری ‘ ناخواندگی اور جہالت بھی اس کا
سبب ہے ۔کچھ عورتیں اپنے تحفظ کی خاطر بنائے گئے قانون کا استعمال نہیں کر
پاتی ہیں تو سیکڑوں ایسے کیسوں میں عورتوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کے
ساتھ ہو رہے واقعات تشدد ہیں اور اس سے بچاؤ کیلئے کوئی قانون بھی ہے۔
بالعموم معاشرہ میں جسمانی تشدد یعنی مار پیٹ، جان سے مارنا وغیرہ کو ہی
تشدد سمجھا جاتا ہے اور اس کیلئے رپورٹ بھی درج کرائی جاتی ہے۔ایسے معاملات
تعزیرات ہند کی دفعہ 498 کے تحت درج ہوتے ہیں ۔ اس دفعہ کا اطلاق سسرال
والوں کے مظالم( جس میں مار پیٹ سے لے کر قید میں رکھنا، کھانا نہ دینا اور
جہیز کیلئے تشدد کا نشانہ بناناوغیرہ آتا ہے) کے خلاف ہوتا ہے اور مجرم
قرار پانے پر 3 سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں جسمانی تشدد کے مقابلے میں خواتین کے ساتھ
ذہنی تشدد کے معاملات زیادہ پیش آتے ہیں جن کا عام طور پر کہیں ذکر نہیں
ہوتا ہے ان معاملات میں عورتوں کو سسرال میں من پسند کپڑے نہ پہننے دینا،
من پسند کام نہ کرنے دینا، اپنی پسند سے کھانا نہ کھانے دینابات بات پر
طعنہ زنی کرنا، منحوس وغیرہ کہنا، شک کرنا، میکہ نہ جانے دینا، کسی خاص شخص
سے ملنے پر روک لگانا، پڑھنے نہ دینا، کام چھوڑنے کا دباؤ ڈالنا، کہیں آنے
جانے پر روک لگانا وغیرہ یہ اور اس جیسے سارے معاملا ت ذہنی تشدد کے دائرے
میں آتے ہیں ۔
عام طور پر ایک حد تک عورتیں ان سب چیزوں کو برداشت کرتی ہیں، کیونکہ روایت
کے نام پر بچپن سے وہ یہ دیکھتی‘ سنتی اوربرداشت کرتی آتی ہیں، لیکن گھریلو
تشدد سے خواتین کے تحفظ ایکٹ 2005 ان حالات میں بھی عورت کی مدد کرتا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ گھریلو تشدد ایکٹ میں تمام خواتین کے حقوق کی حفاظت کا
امکان ہے۔
اس کے تحت شادی شدہ عورت کے ساتھ ساتھ غیر شادی شدہ، بیوہ بغیر شادی کے
ساتھ رہنے والی عورت، دوسری بیوی کے طور پر رہنے والی عورت اور 18 سال سے
کم عمرکی لڑکی اور لڑکے سب کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس قانون میں
گھر میں رہنے کا حق، تحفظ، بچوں کی کفالت اور پرورش کرنے کا حق عورتوں کو
ملتا ہے جو کسی اور قانون میں ممکن نہیں ہے۔آئی پی سی کی دفعہ 125 کے تحت
شادی شدہ خواتین کواپنے بچوں کی پرورش کا حق حاصل ہے۔
لیکن عملاً ایسے تمام قانون ضابطے اور آئینی پابندیاں اس وقت تک موثر نہیں
ہوسکتی ہیں جب تک عورتوں کو اس کی جانکاری نہ ہو ‘ حکومت قانون بنانے کے
ساتھ ساتھ اس کی جانکاری بھی عام کرنے کی کوشش کرے تاکہ دور افتادہ مواضعات
میں رہنے والی کوئی شبانہ اس کا شکار نہ بنے کوئی اقبال کسی شبانہ پر تیزاب
پھینک کر اپنی ’ مردانگی‘ کو اقبال مند نہ سمجھے ۔معاشرہ کایہ وحشیانہ
طرزعمل کہیں تصویرکائنات کا رنگ نو چ نہ لے |
|