نکاح کی ایک قابل تقلید تقریب

آج کل شادیوں کا سیزن ہے کسی ہال کو شادی کیلئے بک کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔گذشتہ ماہ کے آغاز سے ہی چار سے پانچ شادی کارڈز ہمارے ٹیبل پر پڑے ہوئے تھے ان تقریبات میں شرکت کرنا بہت ضروری تھا کیوں کہ قریبی رشتہ دار تھے اسلام نے رشتہ داروں کے بھی حقوق متعین کئے ہیں جن کو ادا کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اس وجہ سے ترجیحی بنیادوں پر ان میں شرکت کی ان میں ایک دو میں مردوخواتین کے الگ الگ باپردہ انتظامات تھے ایک شادی میں تو بینڈ باجا بھی نہیں تھا ،جبکہ ایک تقریب میں وہی فحاشی عریانی کابازار گرم تھا گانے اونچی آواز چل رہے تھے (نکاح ایک ایسا موقعہ ہے جسمیں میاں بیوی کی حقوق بیان ہونے چاہیں مگر بے حیائی عریانی فحاشی،فحش گانوں کے باعث ایسا میزبان کرنا مناسب نہیں سمجھتے جو کہ کھلی غلطی،گمراہی ہے میاں بیوی کے حقوق وفرائض کا علم نہ ہونے کے باعث ہزاروں ،لاکھوں جوڑے بہت جلدطلاقیں دینے کے بعد جدا ہوجاتے ہیں،علمائے کرام کو چاہیے کہ نکاح سے قبل ہال میں موجود سپیکر میں سنون نکاح ،میاں بیوی کے حقوق وفرائض پر مبنی خطبوں کا اہتمام کریں تاکہ بے حیائی کا خاتمہ ممکن ہو سکے ) جسے دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور اندر جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی عشاء کی اذان سنی تو مسجد کی طرف چل دیا نماز سے فارغ ہوکر آیا تو اﷲ کے کرم وفضل سے گانا بجانا بند ہوچکا تھا اور لوگ کھانے کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے کھانا کھایا تو رفوچکر ہونے میں ہی خیریت سمجھی ۔دل یہ سن اور دیکھ کر بہت پریشان ہورہا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھاکیونکہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں باجے سرنگیاں توڑنے آیا ہوں ہمارے ہاں ان کو اس قدر پروموٹ کیا جارہا ہے کہ اس گناہ کو عام کرنے والوں کو ہیرو قرار دیا جارہا ہے ہر مسلمان اس بے حیائی کی دلدل میں اس قدر پھنس گیا ہے کہ انھیں اکثر گلوکوروں اداکاروں کے نام تو یاد ہیں مگر نبی ﷺ ،ازواج مطہراتؓ ،چار بیٹیوںؓ،دامادوںؓ،خلفائے راشدینؓ،عشرہ مبشرہؓ،شہدائے ؓبدر وحنین، اولیاء ؒکے کے نام،اسلام کے بنیادی حرام وحلال کے مسائل شائد ہی کسی کو یاد ہوں ۔اسی پریشانی میں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے اپنے علاقہ کی مقامی مسجد میں گیا تو وہاں اعلان کیا گیا کہ تمام نمازی نماز ادا کرنے کے بعد تشریف رکھیں،بعد از نماز نکاح کی تقریب ہوگی یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیوں کہ اپنے علاقے میں مسجدمیں نکاح کبھی کسی کا ہوتے میں نے نہیں دیکھا تھا۔ نماز کے بعد لوگ وہیں مسجد میں بیٹھے رہے امام مسجدحضرت مولانا خالد نے مختصر خطبہ دیا جسمیں نبی ٔ پاک ﷺ کاا رشاد گرامی بھی ذکر کیا گیا کہ بہترین نکاح(شادی) وہ ہے جو مسجد میں کیا جائے ۔میاں بیوی کے حقوق وفرائض بھی بتائے گئے اس کے بعد نکاح ہوا شرینی تقسیم کی گئی ۔ہم سب گھروں کو چل دئیے جب عصر کے وقت نماز کی ادائیگی کیلئے مسجد گئے تو بچی کے اہل خانہ نے راقم کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ مغرب کے بعد کھانا ہے تشریف لائیں بندہ حاضر ہوا کھانے کا بندوبست انتہائی سادہ ،پرتکلف تھا،مسنون طریقے سے چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھایا تو دل کوبہت تسکین ہوئی استفسار کرنے پر اہل خانہ نے بتایا کہ خواتین کی دوعت کا انتظام بھی کیا گیا ہے مگر باپردہ گھر کی اوپر والی منزل پر،یعنی اسلامی طرز پر مبنی اس تقریب نکاح میں عورتوں کو نظر انداز ہر گز نہیں کیا گیا صرف پردے کا اہتمام کیا گیاتھا ۔

قارئین کرام! نکاح کی ان تقریبات میں سے مسجد میں ہونے والی تقریب ہمارے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے جس پر عمل لاہور جیسے روایات میں کھوئے شہر میں کہیں نظر نہیں آتا ۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مسنون طریقہ نکاح کو رواج دیں جس میں خرچ کم سے کم ہو ،بے حیائی عریانی فحاشی سے ماحول پاک ہو۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ نکاح کو آسان کر تاکہ زنا مشکل ہوجائے اگر نکاح کو مشکل کرو گے تو زنا آسان ہوجائے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں زنا کی جرم عظیم عام ہوتا جارہا ہے اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ نکاح کو مشکل ترین بنا دینا ہے ،لاکھوں مسلمان بچیاں موجودہ زمانے کی لوازمات پورے نہ ہونے کے باعث والدین کے گھروں میں بوڑھی ہورہی ہیں معاشرے کے ظالمانہ رسم ورواج نے ان کے نکاحوں کو ناممکن بنا دیا ہے ۔

اس سلسلے میں ہماری گذارش ہے کہ مسلمانوں کے تمام طبقات بلخصوص امیر لوگ نکاح کو آسان بنانے کیلئے مسجدوں کا رخ کریں سادگی سے شادی کریں تاکہ غرباء جو امیروں کے بنائے ہوئے رسم ورواج کے بندھن میں گرفتارہیں وہ اس سے خلاصی حاصل کر سکیں ۔آج صورت حال یہ ہے کہ امیروں نے دولت وثروت کی بنیاد پر شادی کو انتہائی مہنگا کرد یا غریب ان رسومات سے جان چھوڑانا چاہتا ہے لیکن امیررشتہ داروں نے رویے انھیں روکے ہوئے ہیں ،مسلمانوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ قرآن وسنت پر عمل کرنا لازم وملزوم ہے نہ کہ رسومات پر ۔۔ ہماری بربادی ہی اس لئے ہو رہی ہے کہ ہم نے اﷲ ورسولﷺ ،صحابہ کرامؓ،اہل بیت عظامؓ،اولیاء اﷲؒ کے راستوں کو خیر باد کہہ دیا ہے ۔اس پرفتن ماحول میں وہ لوگ جو نکاح مسجد میں کروا کر غیر شرعی،غیر اخلاقی،بے حیائی پر مبنی رسومات کو تر کئے ہوئے ہیں وہ مبارکباد کے مستحق ہیں انھیں چاہیے کہ عالمی سطح پر نکاح آسان تحریک کو منظم کریں مسلمانوں کو سادگی کی طرف لائیں تاکہ غرباء بھی آسانی سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرواسکیں ۔اس دور کا یہ بڑاجہاد ہوگا کیونکہ اس سے معاشرے میں زنا مشکل ہو جائے گا اور بے حیائی عریانی فحاشی اپنی موت خود مر جائے گی ۔اگر حکومتی سطح پر نکاح آسان تحریک مسلم ممالک میں اٹھائی جائے تو اس کے تادیر فوائد حاصل ہو سکتے ہیں مسلمان حکمرانوں بالخصوص پاکستانی حکمرانوں کو اس میں پہل کرنی چاہیے ۔ نکاح کے حوالے سے علمائے کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ جب بھی نکاح پڑھانا مقصود ہوتو لوگوں کو مسجد میں نکاح کروانے کی ترغیب قرآن وسنت کی روشنی میں دیں ۔

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245847 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.