ناقابل یقین رسم ’’اکی پیلن‘‘
(RAFI ABBASI, KARACHI PAKISTAN)
مرنے والے کے سوگ میں انگلیاں اور کان کاٹے
جاتے ہیں
قبیلہ دانی میں دنیا سے جانے والے عزیز سے محبت کا عجیب و غریب اظہار
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر ملک و مذہب میں حیات بعد از موت کا تصور موجود
ہے، غم منانے کے ساتھ ساتھ مرنے والے کے لیے، اپنے جذبات کا اظہار درحقیقت
دل سے ہوتا ہے، لیکن کئی مقامات پر رنج و غم کے اظہار رسومات کی شکل میں
کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں سوگوار خاندان اپنے پیاروں کی موت پر مختلف طور
سے رسومات ادا کرکے، انہیں اگلے جہاں میں چین و آرام پہنچانے کے لیے ممکنہ
کوششیں کرتے ہیں۔ ان کی ادائیگی یا تو اپنے مذاہب کے مطابق کی جاتی ہے یا
پھر ملکی و قبائلی ثقافت کی رو سے۔ بعض رسومات اتنی خوف ناک اور دہل دہلا
دینے والے طریقے سے ادا کی جاتی ہیں کہ ان کے تصور سے ہی کپکپی لگ جاتی ہے۔
مثلاً کسی زندہ شخص ، وہ بھی جو صنف نازک ہو، نذر آتش کرنا یا اپنے ہاتھوں
سے اپنی انگلیاں کاٹنا، ایسا کرنے سے وہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والے کی روح
کوسکون ملتا ہے، لیکن دوسروں کے لیے یہ روح فرسا واقعہ ہوتا ہے۔ایک وقت
تھا، جب ہندو مذہب میں شوہر کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ کو مردے کی چتا پر
بٹھا کر ستی کرنے کی رسم ادا کی جاتی تھی۔ مسلمانوں میں مردے کو قبر میں
اتارنے کے بعد اس کی بخشش، مغفرت اور ابدی زندگی میں چین و سکون اور دوزخ
کی آگ سے محفوظ رکھنے کے لیے فاتحہ و قرآن خوانی کا انعقاد کرکے اس کے
لیےدعا کی جاتی ہے۔ میت میں شریک افراد اور دیگر کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔
اس کے بعد اس کو ایصال ثواب کے لیےتلاوت قرآن پاک اور فاتحہ خوانی کے ساتھ
ساتھ کھاناکھلانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مذہبی رسم کے مطابق بیوہ عدت کرتی
ہے، اس دوران اس کی سرگرمیاں گھر کی چہار دیواری کے اندر ہی محدود رہتی
ہیں۔ نامحرم مردوں سے اس کے پردے کا اس حد تک خیال رکھا جاتا ہے کہ فون پر
کسی اجنبی مرد سے بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
انڈونیشیا ایک مسلمان ملک ہے۔ لیکن اس کے مختلف صوبوں اور جزائر میں آج
بھی ایسے قبائل آباد ہیں جو ہزاروں سال قدیم روایات پر کاربند ہیں ۔ ان کے
یہاںخوشی و غم منانے کے جداگانہ طریقے رائج ہیں۔ساڑھے چار ہزار سال قدیم
توراجا نسل کے لوگوں کے رہن سہن، بودوباش کے طریقے خطے کے دیگر افراد سے
جدا ہیں۔ یہ لوگ آج بھی ذات پات کی قید و بند میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ
نسل کے توراجا ’’تانا‘‘ کہلاتے ہیں، ان سے نچلے طبقے کو ’’بوڈا‘‘ اور
’’کونن‘‘ کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں غم و خوشی کے موقع پر تاناافراد اپنے
مذہبی پیشوا کے حکم پر انسانوں کی بھینٹ چڑھاتے تھے اور اس کے لیے ’’کونن‘‘
طبقے کے لوگوں کی قربانی دی جاتی تھی۔ اس ظالمانہ قتل پر انڈونیشیا کی
حکومت نے پابندی عائد کردی، جس کے بعد ان کے پیشوا نے اس رسم میں ترمیم
کرکے اسےبھینسوں کی قربانی میں تبدیل کردیا۔ اب کسی کے مرنے پر دو درجن
بھینیں ذبح کی جاتی ہیں۔ اس موقع پر وہاں لکڑی کی ایک عمارت تعمیر ہوتی ہے
جسے’’ٹونگ کونن‘‘ یعنی جماعت خانہ کہتے ہیں ۔ اس کے داخلی دروازے پر قربان
کی گئی بھینسوں میں سے ایک بھینس کا سر اور دیوار کے ساتھ زمین میں ان
بھینسوں کے چوبیس سینگ دبائے جاتے ہیں۔ بھینس کے مذکورہ سر کو خام شکل میں
دبانے کی بجائے انتہائی مہارت سے تراشا جاتا ہے اور اس کے دونوں جانب گلاب
کے پھول اورلکڑ ی سے تراشیدہ مرغ کے مجسمے بھی ایستادہ کیے جاتے ہیں۔
مذکورہ قبیلے کے عقیدے کے مطابق ان رسومات کی ادائیگی سے مرنے والے کی روح
کو ابدی سکون نصیب ہوتا ہے اور وہ اپنے لواحقین کے حق میں دعائیں کرتی ہے
جس کے بعد دیوتا ان لوگوں پر مہربان ہوجاتے ہیں۔ بھینسوں کی قربانی سے قبل
مرغوں اور بھینسوں کی لڑائی کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔انڈونیشیا کے ہی
گاؤں کے ایک قبیلے میں، مرنے والا اپنی آخری رسومات کا انتظام خود کرتا
ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے قبیلے کے لوگوں کی ضیافت کےاخراجات کے لیے
لواحقین لاش کو گلی اور محلوں میں لے کرجاتے ہیں۔وہ جس جس گلی یا بازار سے
گزرتے ہیں، لوگ لاش پر پیسے ڈال دیتے ہیں۔ اس تمام رقم کو اکٹھا کرکے اس کی
آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں اور قبیلے کے لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔
برازیل اور وینزویلا کے درمیان پائے جانے والے امیزون جنگلات میں یا تو
مامو قبائل کے لوگ آباد ہیں جوکیلے کا رس نکالتے ہیں اور مرنے والے کی
ہڈیوں کو پیس کر مذکورہ سفوف اس رس میں ملادیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دعوت کا
اہتمام کیا جاتا ہے اور مذکورہ رس قبیلے کے تمام لوگوں کو انتہائی اہتمام
سے پیش کیا جاتا ہے۔
انڈونیشیا کے صوبے وامیناپاپوا کے ضلع اوسیلومو کے اسکلوپ پہاڑ کے دامن میں
واقع ووسیلمو گاؤں میں دانی نام کا قبیلہ آباد ہے۔ اس کے افراد کا اظہار
غم کا طریقہ انتہائی اندوہ ناک ہے۔ وہ اپنے عزیزوں کی موت پر انتہائی عجیب
و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں۔ روتے ہوئے مٹی اور دھوئیں کی کالک اپنے چہرے
اور سر پر ملتے ہیں۔ اس کے بعد اپنی انگلیاں کاٹ دیتے ہیں، اسے ’’اکی
پیلن‘‘ کی رسم کہا جاتا ہے۔ قریبی رشتہ دار خواتین بھی اس رسم کی ادائیگی
میں مردوں سے پیچھےنہیں ہیں بلکہ وہ بھی اپنی انگلی کی اوپری پوروں کو کاٹ
دیتی ہیں۔ مذکورہ قبیلے کے عقیدے کے مطابق ، ان کی اس قربانی سے مرنے والے
کی روح کو ابدی سکون ملتا ہے۔ اگر وہ کوئی بزدل شخص ہوتا ہے تو اسے اگلے
جہاں میں مصائب کا سامنا کرنے اور طاقت و ہمت پیدا کرنے کے لیے لواحقین
اپنی انگلیاں قربان کرتے ہیں۔انگلیاں کاٹنے سے پہلے پوروں کو تیس منٹ کیلئے
ایک کپڑے سے باند ھ دیا جاتا ہے۔اس کے بعد انہیں کھول کر تیز دھار آلے کی
مدد سے انتہائی مہارت سے کاٹا جاتا ہے، اس کے بعد کٹی ہوئی پوروں کو خشک
ہونے کے لیےرکھ دیا جاتا ہے،بعدازاں ایک مخصوص جگہ پر دفنا دیتے ہیں۔ زخم
خوردہ حصےکا ایلوپیتھک دواؤں کے بجائےروایتی جڑی بویٹوں کے استعمال سے
علاج کیا جاتا ہے۔ دانی قبیلے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انگلیاں کاٹنے سے جو
درد اور تکلیف ہوتی ہے وہ درحقیقت اپنے کسی پیارے سے بچھڑنے کے غم کا اظہار
ہوتاہے۔ اس گاؤں میں لوگوں کی اکثریت انگلیوں کی پوروں سے محروم افراد کی
ہے، جنہیں دیکھ کر ہیبت طاری ہوجاتی ہے۔
اس گاؤں میں’’ کیویرک لوگو‘‘ نامی خاتون کا تعلق مذکورہ قبیلے سے ہے۔ وہ
سڑک کے کنارے بیٹھ کر رسیلے پھل فروخت کرتی ہے، لیکن جب وہ گھر جانے کے لیے
اپنا کاروبار سمیٹتی ہے اور ان پھلوں کو ایک ٹوکری میں ڈالنے کی کوشش کرتی
ہے تو اپنے ادھورے ہاتھوں کی وجہ سے اسےدشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پھلوں پر انگلیوں کی گرفت نہ پڑنے کی وجہ سے وہ اس کے ہاتھوں سے پھسل کر
لڑھکتے ہوئے دور چلے جاتے ہیں جنہیں وہ پکڑنے کے لیے بھاگتی ہے۔، اس کی کٹی
ہوئی انگلیاں اس بے رحمانہ رسم کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں، لیکن اس رسم کی
ادائیگی پر اسے کسی نے مجبور نہیں کیا۔وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے مختلف
ادوار میں اپنی خوشی سےمحروم ہوتی رہی ہے، اس کی کٹی ہوئی پوریں اپنے
پیاروں سے اس کی محبت و عقیدت کا والہانہ اظہار ہے۔اپنے تمام عزیزوں کے
بچھڑنے کے بعد دنیا میں تنہا رہ جانے والی 65سالہ خاتون کیویرک لوگو کا اس
بارے میں کہنا ہے کہ وہ جوانی کےدنوں سے ہی اپنی انگلیوں سے محروم ہوتی رہی
ہےاور اپنے ہر عزیز کی موت پر وہ اپنی انگلی کاٹ دیتی۔ جب اس کی والدہ کا
انتقال ہوا تو اس نے اپنی ایک انگلی قربان کی اور والد کے مرنے پر دوسری،
جب خاوند کا انتقال ہوا تو اس صدمے کے ہاتھوں ایسی نڈھال ہوئی کہ اپنی
تیسری انگلی کی پور قربان کردی۔کیویرک کےمطابق اس کے بعد میرے تین بچے یکے
بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہوئے، جن کی موت پر میں نے اپنی تین انگلیوں کی
قربانی دی۔ اس کے بعد دیگر قریبی عزیزوں کی اموات کی صورت میں اپنی دیگر
انگلیوں کی پوریں قربان کرتی رہی جس کی وجہ سے آج اس کے ہاتھوں میں صرف
انگوٹھے ہیں۔
دانی قبیلے کے افراد کے مطابق انگلیاں انسانی ہاتھ کا انتہائی اہم حصہ ہوتی
ہیں،ان کی وجہ سے ہاتھوں کی قوت اور یکجہتی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ ان سے نہ
صرف اشیاء پکڑی جاتی ہیں بلکہ ہتھیاروں پر بھی گرفت مضبوط رہتی ہے۔ انگلیاں
کاٹنے سے ان کا مقصد اپنے خاندان کے کسی عزیز کی موت پر رنج و غم کےاظہار
کے علاوہ اس نحوست کا بھی خاتمہ کرنا ہوتا ہے جو اس کے دنیا سے جانے کے بعد
مذکورہ خاندان پر نازل ہوتی ہے۔ اس قبیلے کے لوگوں میں سوگ کے اظہار کے
دیگر طریقے بھی رائج ہیں۔ بعض افراد اپنے کان کی قربانی دیتے ہیں ۔ چاقو یا
چھری کی مدد سے اپنے کان کا ایک حصہ کاٹ دیتے ہیں اور اسے خشک کرنے کے لیے
کچھ دن تک دھوپ میں رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اسے مخصوص جگہ پر دفن کردیا جاتا
ہے۔ اظہار غم کا یہ رواج جاپان میں قائم ’’یاکوزہ‘‘ نامی مافیا طرز کی
تنظیم نے شروع کیا تھا۔ اس کے اراکین مختلف غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث
تھے۔ اگر وہ کسی مشن میں ناکام ہوجاتے ، تو شرمندگی کے اظہار کے لیے ،خود
کو سزا دیتے ہوئے اپنی انگلیوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔ اس مافیا کے بعض
لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنے کے لیے انڈونیشیا کے دوردراز کے
پہاڑی گاؤں ووسیلمو میں آباد ہوگئے، لیکن ان کی غیر قانونی سرگرمیاں یہاں
بھی جاری رہیں اور اپنی ناکامی پر خود کو سزادینے کے لیے اپنےروایتی طریقہ
کار پریہاں بھی عمل کرتے رہے، جسے بعد میںیہاں کی مقامی آبادی نے ایک
مذہبی رسم کے طور پر اپنا لیا اور اسے ’’اکی پیلن‘‘ کا مذہبی نام
دیاگیا۔اپنے عزیز کے بچھڑنے پر اظہار رنج کے لیے تو کسی تیز دھار چاقو یا
چھڑی سے اپنی انگلی کی پور کاٹتے ہیں لیکن مذکورہ رسم بچے کی پیدائش کے
موقع پر مختلف طریقے سے ادا کی جاتی ہے۔ جب بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو ماں
اپنے ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی جسے چھنگلی کہتے ہیں، اپنے دانتوں کے ذریعے
زور سے کاٹتی ہے۔اس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نومولود طویل عمر
پائے،دوسرے لوگوں کی بہ نسبت مختلف عادت و اطوار کا حامل ہو اور معاشرے میں
نمایاں مقام پیدا کرے ۔ |
|