جناب طلعت حسین ۔ جناب رضا محمود
آغا اور جناب ندیم احمد خان۔
ہمیں فخر ہے ان جوانوں پر جنہوں نے فلسطینیوں کی ناکہ بندی توڑنے اور غزہ
کی ناکہ بندی توڑنے کی کوششوں میں عملی جدوجہد میں دنیا کے امن کے پروانوں
کے ساتھ اپنی جان کو خطرات میں ڈال کر دیا جس پر ساری قوم آپ پر فخر کرتی
ہے۔
آپ کا یہ جذبہ پورے پاکستانیوں کی فلسطینیوں سے یک جہتی کا آئینہ دار ہے۔
ان پر روا رکھے جانے والے سلوک پر تمام پاکستانی خون کے آنسو روتے ہیں۔ اب
وقت آ گیا ہے کہ ظلم کی سیاہ رات کا اختتام کیا جائے۔ فلسطین ان کے اصل
لوگوں مالکوں کو لوٹایا جائے۔
اس کو عملی شکل دینے کے لیے طاقت کا استعمال بھی ضروری ہے۔ پہلی کوشش
مسلمانوں کے ممالک سے مداخلت کا خاتمہ ضروری ہے۔ تجارتی تعلقت برابری کی
بنیاد پر ہونے چاہئیں نہ کہ آقا اور غلام بننے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم سے
تجارتی تعلقات رکھنے ہیں تو ہماری شرائط پر رکھیں نہ کہ ہمیں ڈکٹیشن دیں۔
جو جو ممالک اس یہودی ریاست کی مدد اور پیٹھ ٹھونک رہے ہیں ان سے تمام
ممالک تعلقات کا جائزہ لیں۔ اور انکے حدود کا تعین کریں اور انہیں ان حدود
سے آگے نہ بڑھنے دیں کہ وہ ہمیں یہ بتانے لگیں کہ آئی ایس آئی کا سربراہ
سویلین ہونا چاہیے۔
ہم نے تو کبھی یہ نہیں کہا کہ امریکہ میں یہودی لابی کا حمایت یافتہ صدر
نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ دنیا کے لئے امن کے مسائل کھڑے کرتا ہے۔ دنیا کا
امن صرف اسی وقت قائم رہتا ہے کہ تمام ممالک کی نظریاتی اور معاشرتی سرحدات
کا احترام کیا جائے۔ اور اس کے معادنی وسائل پر حریصانہ نظر رکھ کر اسے
چالبازیوں اور کک بیکس سے قبضہ میں لینے سے اجتناب کریں۔
بہرحال میرے قابل احترام دوست پاکستان کی فلسطینیوں کی مدد کرنے پر سارے
پاکستان کی ترجمانی کا حق ادا کر آئے۔ الله تعالیٰ ان کو جزائے خیر دیں۔
انہوں نے پاکستان کے عوام کے دل جیت لئے ہیں ہمیں ایسے ہی دلیر اور با عمل
جوانوں کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے ان جوانوں سے جو قائد پاکستان کے بعد
پاکستان کا تحفظ شایان شان طریقہ سے کرینگے۔ |