معلومات تک رسائی۔۔۔عوامی مسائل کے حل کی جانب ایک اہم قدم

آخر وہ کیا وجہ ہے کہ ہم سب کہتے ہیں کہ معلومات ضروری ہیں، کیا واقعی معلومات کے حصول سے شفافیت کو فروغ دیا جاسکتا ہے،معلومات عام ہونے سے کرپشن کے آگے پل باندھا جاسکتا ہے،طرز حکمرانی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے،افسران کو جوابدہ بنایا جاسکتا ہے آج کے اس کالم میں میں ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ آپ کو سمجھا سکوں کہ ایسا واقعی ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔؟

کجی نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔۔۔۔ارے بھائی کیوں ممکن نہیں۔۔۔۔اس لیے کہ اس ملک میں کبھی کچھ ٹھیک ہوا ہے کہ اب ٹھیک ہو جائیگا۔۔ایسا کونسا نرالا قانون بن گیا ہے کہ اب سب اچھا ہو جائیگا۔۔۔۔۔اس ملک میں پہلے کبھی قانون پر عملدرآمد ہوا ہے کہ اب ہوگا۔۔۔۔۔آج سے پہلے حکمرانوں نے عوام کی بات سنی ہے کہ اب سننے لگ جائیں گے۔۔۔۔ہاں خونی انقلاب آئے گا تو سب ٹھیک ہو جائیگا۔۔۔یہ سب وہ عوامی باتیں ہیں جو ملک بھر کے گلی محلوں اور چوراہوں پر زبان زد خاص و عام ہیں۔۔۔لیکن پھر بھی کوشش تو کی جاسکتی ہے

آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ اگران لفظوں میں ہی ان سوالات کا جواب دینا تھا تو اتنی تمہید باندھناکیوں ضروری تھی۔۔۔ہاں ضروری تھی۔۔کیونکہ اگر تمہید نہ باندھی جائے تو لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کی جاسکتی اور اگر شروع ہی میں سوالات کے جواب ڈھونڈنا شرو ع کر دیتا تو شاہد لوگوں کی دلچسپی کم ہو جاتی۔۔۔۔لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ ایک فضول بحث ہوگی یا شاید تمام تر بحث و تمحیص کے بعد اسکا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔جی نہیں۔۔۔۔۔۔ایسا نہیں ہے۔۔۔

تو پھر کیسا ہے۔۔۔آخر بات کو گھما پھرا کر کیوں کیا جاررہا ہے اس لیے کہ معاشرے میں بات کو گھما پھرا کر ہی بات کرنے کا رواج عام ہو چکا ہے ہم ہر بات کوکہنے سے پہلے تمہید باندھتے ہیں اور پھر اسکے آگے پیچھے الفاظ ملا کر اسکو سینڈ ویچ کرتے ہیں تاکہ بات بھی کر دی جاہے اورلوگ سمجھ بھی نہ سکیں۔۔۔۔لیکن میں ایسا کچھ نہیں کہنے والا کیونکہ میں تو سیدھی بات کرنے اور کہنے کا عادی ہوں اور سمجھتا ہوں کی بات کو دوٹوک اور سیدھا ہی ہونا چاہیے تاکہ سننے اور پڑھنے والا دونوں اس کو ٹھیک طرح سے سمجھ سکیں۔

اب آتے ہیں اس بات کی طرف جس کا ذکر میں نے سب سے پہلے کیاہے کہ معلومات کیوں ضروری ہیں۔۔۔۔کسی بھی مسئلے پر بات کرنے اور اسکے ممکنہ حل کیلئے آپ کومعلوم ہوکہ یہ مسئلہ کیوں اور کیسے شروع ہوا اور اسکی بنیادی وجہ کیا تھی۔۔۔۔۔۔اس کو حل کیوں نہیں کیا گیا جس کے باعث آج یہ مسئلہ گھمبیر صورتحال اختیار کر چکا ہے۔۔۔کہ اب اسکے حل ہونے کے دور دور تک اثرات نظر نہیں آرہے۔لیکن پھر بھی معاشرے میں ان لوگوں کی کمی نہیں ہے جو مسائل کے حل کیلئے اپنی کوششیں بروئے کار لاتے رہتے ہیں۔۔۔

میرے نزدیک مسائل انفرادی اور اجتماعی دو نوعیت کے ہوتے ہیں اور کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے ضروری ہے ہم اسکے بارے میں جانتے ہوں تاکہ اسکے ممکنہ حل کیلئے کوششیں کر سکیں۔عام طو رپر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انفرادی مسئلہ درپیش ہو تو اسکے حل کیلئے کوششیں بڑی زوروشور سے کی جاتی ہیں تاکہ اسکو جلد از جلد حل کیا جاسکے لیکن اجتماعی مسائل کے حل کیلئے اس طرح کی شدت نظر نہیں آتی شاید یہی وجہ ہے کہ اجتماعی مسائل وقت گذرنے کیساتھ ساتھ گھمبیر صورتحال اختیار کر جاتے ہیں اور پھر اسکے حل کی کوشش کرنے بارے سوچنا بھی محال ہو جاتا ہے۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ شہری اذیت ناک زندگی گذارنے کے باوجود اسکے حل کیلئے کوشش شروع نہیں کرتے۔۔کیونکہ ہر شخص یہی سوچتا ہے کہ۔۔۔۔۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔۔۔۔؟

جی ہاں بہت دلچسپ بات ہے نا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کیا یہ ممکن ہے۔۔۔جی ہاں ممکن ہے۔۔

حکومت پنجاب کی جانب سے دسمبر2013میں پنجاب شفافیت اور معلومات تک رسائی کے قانون کی منظوری کے ذریعے شاید شہریوں کو یہ موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ سکیں (یعنی ان مسائل کے حل کیلئے کوششیں شروع کر سکیں جس کا حکومت نے انہیں قانونی حق دیا ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ابھی بھی شہریوں کی جانب سے اس قانون کا استعمال اس طرح سے عمل میں نہیں لایا گیا جس طرح ہم سوچ رہے تھے۔

شہری جتنی شدت کیساتھ روزوشب مختلف مسائل پربحث کرتے ہیں اگر اتنی ہی شدت کیساتھ اس قانون کا استعمال شروع کر دیں توشاید بہتری کی امید کی جاسکتی ہے لیکن شہریوں کے سیخ پا ہونے سے مسائل حل نہیں ہوگے۔۔۔۔کیونکہ کوشش کیے بنا ہم بہتری کی امید نہیں رکھ سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو پھر کوشش کیسے اور کس طرح کی جاسکتی ہے۔۔۔اب پھر میں اپنے پہلے پیراگراف کی جانب آؤں گا کہ معلومات کیوں ضروری ہیں۔۔۔

جی ہاں۔۔۔کسی بھی مسئلہ کے ممکنہ حل کیلئے مسئلہ سے متعلق تمام تر ممکنہ معلومات بارے آگاہی از حد ضروری ہے اور اس کیلئے ہم پنجاب شفافیت و معلومات تک رسائی کا قانون2013کو استعمال میں لاسکتے ہیں۔

مثال کے طورپر اگر ہمارے شہر میں تجاوزات کی بھرمار ہے۔سڑکیں اور بازار سکڑ چکے ہیں پیدل چلنے کے علاوہ ٹریفک کے بہاؤ میں بھی لوگوں کو شدید مشکلات کاسامنا ہے ایسی صورتحال میں ہم اس قانون کا سہارا لیتے ہوئے مختلف قسم کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں کہ تجاوزات کے خاتمہ کیلئے کتنا بجٹ مختص کیا جاتا ہے،پچھلے ایک سال کے دوران تجاوزات کے خاتمہ کیلئے کتنے آپریشن کیلئے گئے ان پر کتنے اخراجات ہوئے۔تجاوزات کے خاتمہ کیلئے مجاز اتھارٹی کون ہے،کونسی وجوہات پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جاسکتا ہے۔۔اور اب تک شہر میں تجاوزات کے خاتمہ کیلئے آپریشن کیوں نہیں کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ

اسی طرح اگر شہر میں سیوریج /نکاسی آب کا مسئلہ ہے تو ہم قانون کا سہارا لیتے ہوئے مختلف ڈسپوزل ورکس اسٹیشنز کی کارکردگی،ان پر خرچ کی گئی رقوم، ان کے چلائے جانے کے اوقات کار سمیت ان پر نصب جرنیٹرز کو چلانے کیلئے خریدے گئے ڈیزل کی تفصیلات بھی حاصل کر سکتے ہیں تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں شہر تو گندے پانے سے ڈوبا ہوا ہے لیکن ڈسپوزل ورکس اسٹیشنز کاغذی طو رپر چالو ہیں اور ان پر لاکھوں روپے کا ڈیزل بھی خرچ کیا جارہا ہے۔۔۔آخر کیوں؟

اگر شہر میں کوئی ترقیاتی منصوبہ پچھلے دو تین سالوں سے مکمل نہیں ہو رہا اورسست روی کا شکار ہے تواسکی وجوہات جاننے کیلئے ہم قانون کا سہارا لے سکتے ہیں اور کسی بھی ترقیاتی منصوبے کے ورک آرڈر کی کاپی حاصل کرکے متعلقہ محکمے سے باز پرس کر سکتے ہیں کہ منصوبے کی بروقت تکمیل میں کونسی روکاوٹ ہے تاکہ اسے دور کیا جاسکے۔

اگر شہر میں صحت و صفائی کی صورتحال انتہای خراب ہے تو ہم قانون کی مدد سے ٹی ایم اے میں تعینات سینٹر ی ورکرز کی تعداد،مکمل کوائف سمیت انکے ڈیوٹی اوقات بمعہ جائے ڈیوٹی کی تفصیلات حاصل کرسکتے ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ اصل میں کون کون سے سیاسی افراد کے چمچے چیلے بطور سینٹری ورکر بلدیہ میں بھرتی ہیں اور گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں۔

اگرہمارے شہر میں آئے روز مختلف غیر قانونی ہاؤسنگ سکیموں کا اجراء ہو رہا ہے جو ٹی ایم اے سےNOCحاصل کیے بغیر شہریوں کو لوٹ رہی ہیں تو اس بارے میں بھی قانون کا سہارا لیتے ہوئے ہم ٹی ایم اے کی منظور شدہ سکیموں کی لسٹ حاصل کر سکتے ہیں تاکہ لوگوں کی جمع پونچی لٹنے سے محفوظ رہے۔

اب یہ بات کہ کیا کسی ایک شخص کی درخواست سے مسئلہ حل ہو جائیگا۔۔۔یقینا ایسا ممکن نہیں ہے لیکن۔۔۔۔اگر ہر شہری اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اجتماعی مسائل پر ایسی درخواستیں دینا شروع کر دے تو ایک ایک اور دو گیارہ ہوتے ہیں کے مصداق وہ وقت دور نہیں جب اجتماعی مسائل کے نشاندہی سمیت انکے حل کیلئے اجتماعی آوازیں اٹھنا شروع ہوں گی اورمسائل حل ہونا بھی شروع ہو جائینگے۔لیکن آواز اٹھانا شرط ہے۔اس لیے شہری اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ایسے تمام اجتماعی مسائل پر آواز اٹھانا شروع کریں۔پنجاب شفافیت و معلومات تک رسائی کے قانون کو استعمال میں لائیں اور اسکی مدد سے چھوٹے چھوٹے مسائل کو اجاگر کریں اسکے بارے معلومات اکٹھی کریں کیونکہ جیسے جیسے عوام کوچھنا شرو ع کریگی ویسے ویسے ہی حالات بہتر ہونا شروع ہونگے۔۔ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں اور باقی اللہ پر چھوڑ دیں کیونکہ اگر ہم نیک نیت اور خلوص دل کیساتھ مسئلہ حل کرنے کیلئے کوششیں شروع کریں گے تو اللہ کی مدد بھی ہمارے ساتھ ہوگی اور ہم پھر نہیں کہیں گے کہ قانون تو بہت آئے لیکن اس پرعملدرآمدنہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ پھر شہری عملدرآمد کروائیں گے۔
Faisal Manzoor Anwar
About the Author: Faisal Manzoor Anwar Read More Articles by Faisal Manzoor Anwar: 21 Articles with 16424 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.