خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کیلئے
قانون سازی کے حوالے سے قائم پارلیمانی کمیٹی میں خواتین گھریلو تشدد بل
2009ءکے حوالے سے شور شرابا شروع ہوا ۔ بل کی مختلف شقوں پر کئی ارکان کے
شدید تحفظات کی وجہ سے ڈیڈلاک برقرار رہا۔ اس موقع پر جے یو آئی (ف) کے
مولانا فضل الرحمن نے بل کے خلاف سخت آواز اُٹھائی اور اتنا ہی نہیں بلکہ
انہوں نے اس انتہائی سنجیدہ معاملے پر انتہائی سخت الفاظ میں تنقید کرتے
ہوئے کہا کہ ہمیں آزادی اور آوارگی میں فرق کرنے کی ضرورت ہے‘ ہم عورت کی
آزادی کے قائل ہیں آوارگی کے نہیں۔ مولانا فضل الرحمان کہہ رہے تھے کہ تحفظ
حقوق خواتین بل کے مطا بق خا تون کے سا تھ تشدد کر نے وا لے خاوندکو پو لیس
48گھنٹے کےلئے اس کے گھر سے باہرنکال دے گی‘اگر تمام اختیارات خوا تین کو
دیئے جارہے ہیں تو جہاں جہاں مردوں کا نا م استعما ل ہو تا ہے وہا ں خواتین
کا نا م استعما ل کر نے کی بھی اجازت دےدی جائے۔
جس ملک کے سیاست دان اپنی خواتین کے حوالے سے ایسی پست ذہنیت رکھتے ہوں اس
ملک کی خواتین کی ترقی اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم اور تشدد کے واقعات
میں کمی کی توقع ہی عبث ہے۔ یہ بھی کیا کم ہے کہ آج سے 7سال قبل یعنی
2009ءمیں قومی اسمبلی میں گھریلو تشدد کے خاتمے سے متعلق بل منظور کیا گیا
تھا بعض مذہبی جماعتوں کے اعتراضات کی وجہ سے آج تک اس پر قانون سازی نہیں
ہوسکی۔
عورت کو اسلام نے بہت بلند درجے پر فائز کیا ہے۔ ایک آوارہ ‘ بدقماش یا پھر
دہشت گرد کی ماں بھی ایک عورت ہے اور ایک سائنس دان‘ ملک کے سربراہ ‘ مولوی
یا کسی دوسرے شریف انسان کی ماں بھی ایک عورت ہی ہے ۔ عورت جب دنیا کی سب
سے بڑی اذیت سے گزر کر ایک بچے کو پیدا کرتی ہے تو اس کے ذہن کے کسی بھی
گوشے میں اس کی خراب تربیت کی بابت کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ہر ماں اپنے
بچے کو دنیا کا بہترین اور کامیاب ترین انسان دیکھنا چاہتی ہے ‘ وہ اپنی
”بساط “کے مطابق تعلیم و تربیت دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن بچہ اپنے ماحول
سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ جب ایک بچہ دوران پرورش بات بے بات اپنی ماں کو اپنے
با پ سے زدوکوب اور بے عزت ہوتے دیکھتا ہے تو اس کے نزدیک باپ انتہائی غلط
ہوجاتا ہے اور ایسی مثالیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں کہ بچے اپنے باپ کے دشمن
بن جاتے ہیں یہاں تک کہ بعض جگہوں پر بچوں کے باپ کو قتل تک کرنے کی کوشش
کرتے ہوئے پائے گئے۔ اگرایسا نہیں ہوتا اور بچے کا معصوم ذہن اپنی ماں کو
غلط قبول کرلیتا ہے ‘ یہ بھی بچے ہی کےلئے غلط ہوتا ہے ۔ وہ اپنی ماں کی ہر
بات کا اُلٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ اس کے سامنے اس کی ماں کو غلط
قرار دیا جاتا ہے۔یہ بہت معمولی لیکن نہایت حساس نکتہ ہے جسے ہمارے گھر
وںکے مرد سمجھنے کےلئے تیار ہی نہیں ہے۔ بیوی کیلئے ہتک آمیز الفاظ کے
استعمال میں انہیں کوئی عار ہی محسوس نہیں ہوتی۔ انہیں اس بات کا علم ہی
نہیں ہے کہ جانے انجانے میں وہ اپنے اولاد کے ذہنوں میں کیا فتور پیدا
کررہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی تنقید یہ کہہ رہی ہے کہ اگر مرد عورت پر تشدد کرتا ہے
تو وہ یہ اس کا حق ہے‘ عورت کو یہ حق حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ خود پر ہونے
والے ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے۔
ہماری عورتوں کے خمیر میں مردوں کی غلامی ہے ‘ ہماری ماﺅں اور ان کی ماﺅں
نے پیدا ہونے کے بعد اپنی بیٹیوں کو باپ‘ بھائیوں اور پھر شوہروں کے آگے
زبان بند رکھنے کی جونصیحت کی ہے اس کی بازگشت ہماری آنے والی نسلوں تک بھی
پہنچ رہی ہے۔
سوا دو کروڑ کی آبادی والے اس وطن عزیز میں کتنے مرد ہیں جو عورتوں کی
زیادتی کا شکار ہیں؟
کتنی عورتیں ہیں جنہوں نے مردوں کے چہروں کو تیزاب سے جھلسا دیا ؟
کتنے مرد ہیں جن کو عورتوں نے سرعام ننگا کر کے گھمایا؟
ایسی کتنی مثالیں ہیں جہاں عورتوں نے مرد کی معمولی سی بات پر طیش میں آکر
علیحدگی اختیار کرلی ہو؟
ایسی کتنی خبریں نظر سے گزرتی ہیں جس میں عورت نے جذباتی ہوکر مرد کو زندگی
کی قید سے آزاد کردیا ہو۔
ایسے کتنے واقعات ہیں جس میں عورتوں نے غصے میں آکر مردوں کے نازک اعضاءکو
مضروب کردیا ہو؟
ایسا اسلئے نہیں ہے کہ عورت میں ایسا کرنے کی طاقت نہیں ہے بلکہ ایسا اسلئے
ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک مخصوص روایت کا پروردہ ہے۔ جہاں عورتیں اپنے
شوہروں‘ بیٹوں‘ بھائیوں اور باپ کو کھانا کھلانے کے بعد کھانا کھانے میں
خوشی محسوس ہوتی ہے۔
یہ وہ معاشرہ ہے جہاں عورتیں ساری عمر مردوں کی غلامی میں گزارنے کے باوجود
اپنے بچوں کے مستقبل کے پیش نظر اُف نہیں کرتیں۔یہ وہ پاکستان ہے جہاں آج
بھی 52 فیصد خواتین گھریلو تشدد کے واقعات کے بارے میں رپورٹ نہیں کرتی ہیں
اور آپ یقین کرلیں کہ اس میں ایسی‘ ایسی پڑھی لکھی اور جدید ماحول کی
پروردہ خواتین بھی شامل ہیں جن کے نام منظر عام پر آجائیں تو لوگ دانتوں
میں اُنگلیاں دبالیں ‘جب کسی بھی وجہ سے ایسے نام سامنے آجائیں تو ایسا ہی
ہوتا ہے۔
میرے کہنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتوں کو بے لگام چھوڑ دیا جائے۔
جہاں خواتین غلط ہیں وہاں انکے خلاف بندشیں لگائی جائیں اور اسلامی شعار کے
مطابق ان سے سلوک کیا جائے لیکن معاشرے میں خواتین کی عزت و مقام کےلئے
بنائے بنائے جانے والے قوانین کا مضحکہ اُڑانا اور ان کی مخالفت کرنا
صریحاً غلط ہے ۔ہو سکتا ہے کہ پیش کئے جانے والے بل کے کچھ نکات ‘ کچھ
لوگوں کو قابل عمل نہ لگ رہے ہوں تو اس میں ترمیم کی جاسکتی ہے لیکن ایسے
قوانین پر عمل درآمد ضروری ہے تاکہ عورتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے
سامنے بند باندھے جاسکیں۔
عورتوں کی قانون سازی کے حوالے سے بے شمار دیرینہ مطالبات ہیں جن کا پورا
ہونا نہایت ضروری ہے مثال کے طورپرگھریلوتشدد‘چھوٹی عمرکی شادیاں‘ جائیداد
اور وراثت کی منتقلی اورمقامی حکومتوں میں عورتوں کی موثر شمولیت ۔یہ وہ
مطالبات ہیں جن پر عمل درآمد حکومتی ترجیحات میں شامل ہونے چاہئیں لیکن
افسوس یہاں تو عورتوں کی تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق بھی خاطر خواہ
توجہ نہ حاصل کرسکے۔عورتوں کادیرینہ مطالبہ رہاہے کہ جنسی تشدد‘زیرجنسی
یاغیرت کے نام پرقتل ہونے والی عورتوں کوانصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری
ہے لیکن قوانین ہونے کے باوجود پولیس‘عدلیہ ان قوانین کوانصاف فراہم کرنے
میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ ستم ظریفی تویہ ہے کہ جن عورتوں نے انصاف کے
حصول کیلئے احتجاجاََ اپنی زندگیوں کاخاتمہ کرلیاان کو بھی قابل توجہ نہ
سمجھا گیا۔
میں آج 8مارچ کے موقع پر تمام قارئین سے صرف ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ وہ
صرف ماﺅں کی نہیں بلکہ تمام خواتین کی عزت کریں ‘ وہ بیٹیاں ہوں‘ بہنیں ‘
بیویاں ‘ ساتھ کام کرنے والی خواتین ہوں یا پھر سر راہ کسی بھی حوالے سے
نظر آنے والی خواتین ۔ خواتین کو نمبروں میں تقسیم نہ کریں ‘ جس طرح اپنی
بہن اور بیٹی کی عزت کو مقدم رکھتے ہیں اسی طرح سے ہر عورت کی عزت کا
احترام کریں ۔یقین کریں کہ خواتین نہ آزادی چاہتی ہیں اور نہ ہی آوارگی ‘
وہ چاہتی ہیں تو صرف اور صرف عزت ۔ اپنے گھر سے ‘ اپنے لوگوں سے اور ہر اس
جگہ جہاں وہ جاسکتی ہے۔
ہر عورت عزت کی حقدار ہے ‘میں کہنا چاہتی ہوں کہ اپنی عورتوں سے کہ وہ اپنے
بیٹوں اور بھائیوں کی تربیت کچھ اس انداز میں کریں کہ وہ خواتین کا ویسا ہی
احترام کریں جیسا کہ ہمارے پیارے رسول اپنی زوجات اور بیٹی کا کیا کرتے تھے
۔ |