ماورائے عدالت قتل
(Sohail Ahmad Mughal, Lahore)
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جعلی اور
فرضی پولیس مقابلوں میں لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے میں سندھ اور
پنجاب پولیس کا کوئی ثانی نہیں ہے دونوں صوبوں کی پولیس مسلسل عدلیہ کی
تضحیک کرتے ہوئے پے در پے فرضی مقابلوں میں لوگوں کا قتل عام کررہی ہے جبکہ
پولیس کا کام ملزمان کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے۔ کسی
کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے نہ کہ پولیس
کا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق چند روز قبل کراچی کے علاقے ملیر میں ہونے والا
پولیس مقابلہ بھی فرضی ثابت ہوا ہے جس میں ملیر پولیس نے 4مبینہ دہشت گردوں
کو ہلاک کیا تھا ۔ اس مشکوک مقابلے میں ہلاک ہونے والے 2 افراد کے ہاتھوں
میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں جبکہ دونوں آپس میں بندھے ہوئے تھے۔اس سلسلہ
میں انتہائی معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مرنیوالے چاروں افراد پہلے سے پولیس
کی حراست میں تھے ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے بھی ایس ایس پی
ملیر راؤ انوار کے فرضی پولیس مقابلوں پر کئی سوال اٹھ چکے ہیں۔ پولیس کے
مطابق مرنیوالے چاروں افراد دہشت گرد تھے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ وہ دہشت
گردہی تھے تو اس وقت جب ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آچکا ہے اور
کئی دہشت گرد اپنے انجام تک پہنچ چکے ہیں تو کیوں نہ ان کوبھی انصاف کے
کٹہرے میں لا کر کھڑاکیا جاتا اور عدالت میں ان کے خلاف ثبوت پیش کیے جاتے
اور یہ فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیا جاتا کہ وہ دہشت گرد ہیں یا نہیں۔اس سے
پہلے پنجاب اور سندھ پولیس پر یہ الزام بھی لگ چکے ہیں کہ چھوٹے موٹے جرائم
پیشہ افراد کو گرفتار کرکے ان کے ورثاء سے رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور
رقم نہ ملنے کی صورت میں یا تو پولیس مقابلے میں پار کردیا جاتا ہے یا کسی
سنگین مقدمے میں ملوث کردیا جاتا ہے۔یعنی اگر مطلوبہ رقم مل جائے تو ملزم
تھانے سے ہی باعزت بری کردیا جاتا ہے اور اگر نہ ملے تو فوراََ سزائے موت
کی سزا بھی سنا دی جاتی ہے اور پولیس مقابلے کا رنگ دیکر قتل کردیا جاتا
ہے۔اسی طرح پنجاب کے ایک شہر جو صوبائی دارلحکومت سے چند کلو میٹر دوری پر
واقع ہے میں کچھ عرصہ قبل ایک عجیب و غریب پولیس مقابلہ ہوا جس میں جاں بحق
ہونے والے ایک شخص کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ عیاں ہوا کہ مرنیوالے ایک
شخص نے پولیس مقابلے سے 24 گھنٹے قبل تشدد کے باعث دم توڑا ۔اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ کہاں ہے قانون کی بالا دستی اور انصاف؟ انسانی حقوق کی نام
نہاد تنظیمیں اس طرح کے سینکڑوں واقعات پر کیوں آنکھیں بند کرلیتی ہیں ۔ایک
محتاط اندازے کے مطابق رواں صدی میں اب تک ہزاروں افراد کو جعلی و فرضی
پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کیا جاچکا ہے ۔اب تو اس ملک کی پولیس
کو دیکھ کر شہریوں میں احساس تحفظ پیدا ہونے کی بجائے خوف و وحشت طاری
ہوجاتی ہے ۔دراصل لوگوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارنا ہماری پولیس کا
پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومتی ایوانوں سے
لیکر انصاف کے ایوانوں تک اس صورتحال کے تدراک کیلئے سنجیدگی سے کوئی کوشش
نہیں کی گئی ہے ۔جو نہ صرف ایوان اقتدار بلکہ ایوا ن انصاف کے مکینوں کی
کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔معاشرے میں قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں ہی
لاقانونیت کے مظاہر عام ہوتے جارہے ہیں ۔ پنجاب اور سندھ سمیت پورے ملک میں
پولیس افسران جس طرح اپنے تئیں ملزمان اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے چلے
ہیں یہ بجائے خود بد ترین دہشت گردی اور جرم ہے اس سے معاشرے میں اشتعال
اور پرتشدد رویوں کو فروغ مل رہا ہے اور ملک کیلئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں
۔ اگر ملک میں عدل و انصاف کا وجود کسی بھی درجے میں ہے تو سپریم کورٹ آف
پاکستان کو فوری طور پر پنجاب اور سندھ سمیت ملک بھر میں ہونے والے جعلی و
فرضی پولیس مقابلوں کا از خود نوٹس لینا چاہیے اور ایسے غیر ذمہ دار، کرپٹ
اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے ’’ہلاکو خاں‘‘پولیس افسران و
ملازمین کو فی الفور عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے اور ان کے خلاف
دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ |
|