درختوں کا زیادہ سے زیادہ لگانا
انسانی زندگی کے لئے مفید سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ آکسیجن پیدا کرنے کا سب سے
بڑا قدرتی ذریعہ درخت ہی ہیں۔ زندہ رہنے کے لئے صاف آب و ہوا کا ہونا ضروری
ہے۔ سائنس بہت پہلے ہی بتا چکی ہے۔ مگر اب حکومت پنجاب کی طرف سے محکمہ
جنگلات نے بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہمارے ملک میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوجوان نسل کے لئے اہم مسئلہ زندہ
رہنے کے لئے برسرروزگار ہونا ہے۔ آفت زدہ انتظام حکومت سے لے کر آلودہ آب
وہوا تک انسان معاشی و معاشرتی ناہمواریوں کا شکار رہتا ہے۔ آفت زدگی ٹھیک
کرنے کی طرف ابھی تک توجہ نہیں ہے۔ البتہ آلودگی کے خاتمہ کے لئے ایک اچھا
پروگرام تشکیل دیا گیا ہے۔ پنجاب کے بے روزگار زرعی، ویٹرنری اور فارسٹری
گریجوایٹس کو پچیس ایکڑ اراضی جنگلات لگانے کے لئےآلاٹ کی جائے گی۔ تاکہ وہ
وہاں پودوں کی شجرکاری کریں۔ تناور درخت بننے تک آلودگی سے پاک آب و ہوا
میں زندہ رہیں۔ پھر انہیں کاٹ کر بھوک مٹانے کے لئے ایندھن کے طور پر
استعمال میں لا سکیں۔ صرف ایندھن سے بھوک تو نہیں مٹائی جا سکتی تو ظاہر ہے
ان میں سے بیشتر فروخت کئے جائیں گے۔ تاکہ سبزی ترکاری کا بھی انتظام کیا
جا سکے۔ آئیڈیا تو برا نہیں ہے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کہ فارمولہ کو ذہن
میں رکھ کر پروگرام تشکیل دیا گیا ہے۔
اب اگر کسی کو ہماری مدد کی ضرورت ہو تو بلا معاوضہ حاضر ہیں۔ کیونکہ
اٹھارہ سال پہلے بے روزگاری کے خاتمے کے لئے بھی کچھ ایسا ہی پروگرام اپنی
مدد آپ کے تحت شروع کیا تھا۔ بیس ہزار کے قریب سفیدہ، پاپولر اور سمبل
لگانے کا شرف حاصل ہوا مگر چند سو سے زیادہ تناور درخت نہ بن پائے۔ دس سال
پال پوس کر جوان کیا۔ بیچنے پر جو رقم ہاتھ لگی اتنی نا کافی تھی کہ
بےروزگاری تو ختم نہیں ہوئی البتہ ہاتھ کھلا ہو گیا۔
جیسا کہ اس سے پہلے بھی سرکاری سطح پر بے روزگاری ختم کرنے کے لئے پیلی
ٹیکسی کے پروگرام کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ ملک کا کروڑوں کا زر مبادلہ خرچ
کرنے کے بعد بھی وہ ٹیکسی کہیں دیکھائی نہیں دیتی ہیں۔ میری طرح بہت سے لوگ
ایسے بےروزگاروں کو جانتے ہوں گے۔ جنہوں نے مرسڈیز ٹیکسیاں گھروں میں چولہا
جلانے کے لئے ایندھن بھر کر سڑکوں پر دن رات چلائی ہوں گی۔ اور آج بھی وہ
ٹیکسیاں پیلے رنگ میں ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ مسافروں کو لانے لے جانے میں
بھاگ رہیں ہوں گی۔ مگر ایسا دیکھنے میں نہیں آتا۔ صرف ایل پی ٹی کی نمبر
پلیٹ چغلی کرتی ہے کہ بے روزگاری کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ انہیں مزید محنت
کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
بے روزگاری ختم کرنے کا پروگرام آغاز کرنے کے بعد حکومت اپنے فرض منصبی سے
فارغ ہو چکی۔ حکومتی کارکردگی سے صرف کبوتر کی طرح آنکھ بند کر کے مسائل کی
بلی سے اوجھل رکھنے کی ہر دور میں کوشش کی جاتی ہے۔ مسائل کی بلی سبز باغ
دیکھ دیکھ کر موٹا ہونے والے عوامی اُمنگوں کے کبوتر ہڑپ کر کے موٹی ہو چکی
ہے۔ جسے تھیلے میں ڈال کر بار بار باہر پھینکا جاتا ہے۔ مگر ہر بار وہ لوٹ
کر واپس آ جاتی ہے۔ جسے دیکھتے ہی اُمنگ و آرزو کے کبوتر آنکھیں موندھ لیتے
تھے۔ اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ کیونکہ اُمنگیں آ بیل مجھے مار کی
بجائے آ بلی مجھے کھا کے فارمولہ پر عمل پیرا ہو چکی ہیں۔
سیاسی داؤ پیچ اس انداز میں استعمال کئے جاتے ہیں کہ مسائل کی جڑیں تو وہیں
رہتی ہیں۔ مگر توجہ اصل موضوع سے ہٹا دی جاتی ہے۔ جیسے بجلی کی آنکھ مچولی
کو پانی کی بندش اور دریاؤں میں پانی کے کم بہاؤ کا نتیجہ قرار دے دیا جاتا
ہے۔ مگر چالیس سال سے کالا باغ ڈیم سرد خانے میں پڑا ہے۔ جو صرف بحث کی
فائلوں سے مکمل کیا گیا ہے۔ وہ کیا وجوہات ہیں کہ چند ہزار افراد کے حق کی
آواز بلند کر کےاٹھارہ کروڑ عوام پر لوڈ شیڈنگ اور بھاری بلوں کی بجلی گرا
دی جاتی ہے۔ لیکن ابھی تک کسی بھی خفیہ ہاتھ یا بیرونی مداخلت کا ا لزام
کسی کے سر نہیں لگایا گیا۔
انتظام مملکت چلانے کے لئے سیاسی شکاریوں پر تکیہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ
اٹھارہ کروڑ عوام کی بھلائی و بہتر مستقبل کے لئے کسی بھی طرح کا کوئی ایسا
ادارہ جو تھنک ٹینک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سرے سے اس کا وجود ہی نہیں
ہے۔ جو حکومتیں اپنے پانچ سال کی مقررہ مدت معیاد کو پورا کرنے کے لئے پر
اُمید نہیں ہوتیں۔ وہ کیا پچاس سالہ پروگرام تشکیل دے پائیں گی۔ یہاں تو
پانچ نکاتی پروگرام، پیپلز پروگرام اور تعمیر وطن جیسے ہی پروگرام فائلوں
کی زینت بنتے ہیں۔ جن کے نام سے ملک کی ترقی چاہے نہ نظر آئے مگر سڑک پر
لگے کتبہ پر لکھے پروگرام سے سیاسی پارٹی کا نام معلوم ہو جاتا ہے۔ نالے کا
پل ہو، محلے میں بچوں کے کھیلنے کا پارک ہو یا محلے کا ٹیوب ویل تعمیر کرنے
پر ایم این اے کا نام کتبہ کی زینت بنتا ہے۔
بچے جب ضد کریں یا انہیں منانا ہو تو ایک عدد لالی پاپ وہ کام کر جاتی ہے۔
جو ماں باپ بہن بھائی لاکھ محبت سے نہ کر پائیں۔ جب الیکشن کے دن قریب آتے
ہیں تو دھڑا دھڑ سڑکوں پر پیچ ورک شروع ہو جاتا ہے۔ جنگلے پینٹ قبرستانوں
کی چار دیواری کی تعمیر ریت سے شروع ہو جاتی ہے۔ جو کچھ عرصہ بعد پھر وہی
ریت رہ جاتی ہے اور اینٹیں، جنگلے غائب۔ ہمیں صرف ایک ہی سبق بار بار دیا
جاتا ہے کہ
پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ |