پا کستان کی معروف روحانی گدی کا موجودہ جوان گدی نشیں
صبح سے اب تک ہمیں اپنی دنیا وی کا میابیاں ، اثر و رسوخ لمبی چوڑی جا گیر
، ذاتی شوروم محل نما بنگلہ ۔ مریدوں اور غلاموں کی فوج مزار گھر اور
ڈرائینگ روم کی آرائش اور مہنگے ڈیکو ریشن پیسز اور نوادرات سے مسلسل متا
ثر یا مرعوب کر نے کی کو شش میں لگا ہوا تھا اُس کا چہرہ تکبر غرور سے چمک
رہا تھا وہ اپنی صبح سے اب تک کی ڈرامے با زیاں یا کو ششوں کا ہم سے خرا ج
تحسین ما نگ رہا تھا ۔ ہم لو گ جو روحانی کما لات ، توجہ ، روحانی فیض اور
اولیا اﷲ کی ایمان افروز با تیں سننے آئے تھے اپنی بے نور اندھی روحوں کا
زنگ صاف کر انے آئے تھے۔ اپنی کثافتوں کو لطافتوں میں بدلنے آئے تھے صدیوں
کی پیا سی روحوں کو سیراب کر نے آئے تھے روحانی تشنگی بجھا نے آئے تھے
کیونکہ اِس میں کو ئی شک نہیں تھا کہ جس بزرگ کے نام پر یہ عیش و عشرت کی
زندگی با دشاہوں کی طرح گزار رہا تھا ایسے نیک بزرگوں کے قدموں سے اٹھنے
والے غبار کے چند ذرات اگر کسی گنا ہ گار پر پڑ جا ئیں تو وہ چوروقطب کے
عہدوں پر فا ئز ہو جا تے ہیں ایسے بزرگوں کی صحبت میں گزرا ہوا ایک ایک
لمحہ صدیوں کی جھوٹی عبادت پر بھا ری ہو تا ہے ۔ میں اپنے سامنے بیٹھے فلمی
ہیرو کی مانند گدی نشین کو دیکھ کر بار بار یہ سوچ رہا تھا کہ یہ دنیا وی
طور پر خو ش قسمت ہو تے ہیں ایسے نام نہا د گدی نشین جو اپنے آبا ؤ اجداد
کی ریا ضت عبا دت کے ثمرات سے دنیا وی طور پر فیض یا ب ہو تے ہیں وطن عزیز
کے معصوم سادہ لو ح لو گ جو ق در جوق غلاموں کی طرح اِن کی چوکھٹ پر اپنی
پیشانیاں رگڑتے ہیں کہ اپنے بزرگوں کی طرح یہ بھی کن فیکون کے مقام پر فا
ئز ہو نگے ۔ اِن کے ابر و چشم سے لوگوں کی خالی جھولیاں مرادوں سے بھر جا
ئیں گی اِن جا گیردار نما گدی نشینوں کے شاہانہ اندازز کو دیکھ کر غریب زا
ئرین بھی اپنی غربت کو امارت میں بدلنے کے خواب دیکھتے ہو ں گے جبکہ آنے
والے معصوم لو گ اِس بات سے بلکل بے خبر ہو تے ہی ں کہ مو جودہ گدی نشین نے
نہ تو عبادات مجا ہدات اور رتجگوں سے اپنی کثافت کو لطافت میں بدلا ہے اور
نہ ہی قرب الہی کے لیے اپنی روح و جسم کو کڑی عبادات سے گزارا ہے یہ تو
شروع دن سے ہی منہ میں سونے کا نوالا لے کر پیدا ہو تے ہیں اور پھر اپنے
آبا و اجداد کی طویل کرامتوں کے بل پر عوام کے دلوں اور دولت پر حکمرانی کر
تے ہیں ہم صبح سے اِس انتظار میں تھے کہ پیرصاحب اپنی فلسفیا نہ روحانیت پر
مبنی گفتگو سے اپنی عبا دات ، مجا ہدے اورذکر اذکا ر سے ہما ری علمی پیا س
کو بجھا ئیں گے اعما ل اصغر کے ساتھ رو حا نیت تصوف میں اعما ل اکبر کے آسا
ن طریقوں سے ہما ری راہنما ئی کر یں گے ہم جو تصوف کے مو تی چننے آئے تھے
تصوف کی خو شبو سے اپنی روحوں کو معطر کر نے آئے تھے لیکن ابھی تک پیر صاحب
دنیاوی چکا چوند اور شاہا نہ انداز سے ہمیں ذبح کر نے پر تُلے ہو ئے تھے ۔
صوفی درویش ، تصوف ، روحانیت اہل تصوف کی شان مو جو دہ دور میں ما دیت پر
ستی کے مقابلے پر تصوف اور اہل حق کا کردار یا مو جودہ معا شرے میں طبقاتی
تضا د اور مختلف فرقوں کا آپس میں کا فر کا فر کی گردان کے خلاف کو ئی مجرب
نسخہ بتا ئیں گے ۔ معا شرے کے بگڑتے ہوئے ڈھانچے کو درست سمت گا مزن کر نے
کا طریقہ بتا ئیں گے مو جودہ دور میں اہل حق اور روحانی سلسلوں کا مثبت کر
دار لیکن یہاں اسلام ، تصوف اور صوفیاء کے کردار پر ایک لفظ بھی نہیں بو لا
گیا تھا بلکہ مسلسل دنیا وی کا رناموں کا پر چار کیا جا رہا تھا اِس سے ما
دی لو گو ں کو تو متا ثر کیا جا سکتا ہے میرے جیسے تصوف کے طالب علموں کو
نہیں گدی نشیں صاحب اپنے اصل کا م کی بجا ئے جا گیر داروں فلمی اداکا روں
یا سیاستدانوں کی طرح اپنے شاہا نہ طرز معا شرت سے ہمیں مسلسل متا ثر کر نے
کی کو شش کر رہے تھے اِس سلسلے میں اپنی کی گئی کو ششوں کو کامیا ب تیر
سمجھ کر ہما رے چہروں پر تعریف کے تاثرات تلا ش کر رہے تھے ۔ وہ جب بھی کو
ئی کا م کر تے تو معنی خیز فخریہ نظروں سے میری طرف دیکھتے ۔ میں فطری صلح
جو انسان اُن کی ساری کو ششوں کو خا موشی سے دیکھ رہا تھا ۔ اب پیر صاحب نے
ہم پر اپنا کامیاب آخری وار کر نے کا ارادہ کیا ۔ اب انہوں نے اعلان کیا کہ
کھا نے کا وقت ہو گیا ہے آئیں ہم ڈائینگ ٹیبل پر چلتے ہیں با قی با تیں
وہیں ہو نگیں ۔ پھر وسیع و عریض ڈائیننگ روم میں داخل ہو ئے وہاں جو منظر
تھا اُس نے ہم سب کو ششدر کر دیا ہم حیرت کے مجسمے بنے وسیع و عریض بہت زیا
دہ ڈائیننگ کر سیوں والی ٹیبل کو دیکھ رہے تھے ہم 5لوگ تھے لیکن وہاں تو
پچاس لوگوں کا کھانہ لگا ہوا تھا ۔دیو ہیکل لمبی چوڑی ڈائینگ ٹیبل انواع
اقسام کے کھانوں مشروبا ت کو لڈ ڈرنکس ، سلاد ، چٹنیاں ، دہی رائتے دیسی
گھی ، گرما گرم پرا ٹھوں سے سجی ہو ئی تھی ۔لذیز گر ما گرم کھا نوں کی بھا
پ اور خوشبو سے کمرہ مہکا ہوا تھا ۔ میں نے زندگی میں اتنی بڑی ڈائیننگ
ٹیبل اوراتنے زیا دہ کھا نے اتنی بڑی مقدار میں نہیں دیکھے تھے ۔ پیر صاحب
کی مخصوص نشست تھی جس پر وہ براجمان ہو گئے ہم بھی اُن کے سامنے مو دب ہو
کر بیٹھ گئے اب پیر صاحب گو یا ہو ئے تما م کھا نے دیسی گھی مکھن اور زیتون
کے تیل میں بنا ئے گئے ہیں کھا نے کی ٹیبل پر انواع و اِقسام کے کھانوں میں
تیتر بٹیر مرغابی مچھلی اور پتہ نہیں کیا کیا بڑے بڑے سائز کے شکا ری پرندے
سالم بھون کر ہما رے سامنے رکھ دئیے گئے اِسی دوران خا دم بڑے بڑے تھالوں
میں سالم بکرے جن کے اندر چاول تھے سجا ئے ہو ئے ہما رے سروں پر آکھڑے ہو
ئے یہ پیر صاحب کا آخری مہلک وار تھا جس سے وہ ہمیں زیر کر نا چاہتے تھے ۔
پیر صاحب کے تربیت یا فتہ ملازم اب ہما ری پلیٹوں میں کھا نے سجانے لگے
سونے چاندی کے پانی سے مزین برتنوں میں کھا نا ہما رے سامنے پیش کیا جا نے
لگااور پیر صاحب کے با غات کا تا زہ پھلوں کا جوس بھی ،پیر صاحب اپنے
کھانوں اور جو سز کی تعریفیں کر رہے تھے ۔ بلا شبہ یہ میری زندگی کا لذیز
اور شاہانہ ترین کھا نا تھا ایسا کھا نا با دشاہوں جا گیرداروں کا تو ملتا
ہے ہم جیسے فقیروں کے مقدر میں کہاں مجھے پیر صاحب کا یہ طریقہ واردات لگ
رہا تھا اِسطرح وہ کسی بڑے مرید کو پھانستے یا کسی بڑے آدمی کو اپنی دام
میں لا نے کے لیے کر تے ہو ں گے اور اِس میں کو ئی شک نہیں کہ گوشت پو ست
کا بنا انسان پیر صاحب کے شکا ری پھندے میں پھنس جا تا ہو گا ۔ پیر صاحب نے
صبح سے اب تک ہمارے ساتھ جو جو کا روائیاں ڈالی تھیں اُن کے بعد اِس ما دی
معا شرے کا کو ئی بھی بندہ نہیں بچ سکتا تھا ۔ پیر صاحب با ر بار میرے چہرے
کے تا ثرات کو گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے کیونکہ اُن کا آج کا ٹا رگٹ شاید
میں تھا وہ یہ ساری کا روائی مجھے مرعوب کر نے کے لیے کر رہے تھے میں حیران
پریشان دیکھ رہا تھا کہ مجھ فقیر سے پیر صاحب کو کیا کام ہو سکتا ہے وہ تو
خو د دنیاوی خدا بنے بیٹھے تھے کھا نے کے بعد سویٹ ڈشز کا نہ ختم ہو نے
والا سلسلہ پھر خوشبو دارقہوہ جا ت ایک لا متنا ہی سلسلہ تھا جو ختم ہو نے
میں نہیں آرہا تھا میں حیران پریشان کہ جس کا م کے لیے میں یہا ں لا یاگیا
ہوں وہ کام کیا ہے اور پیر صاحب مجھے یہاں لا نے کا مقصد کب بتائیں گے ۔ |