آج کل ہم خود کشی،معمولی بات پر دوسرے کا
قتل اور بندوق کی نوک پر لوٹ مار بمعہ سب سے اہم دہشت گردی کی خبریں روز
مرہ بریکنگ نیوز کے حوالے کچھ زیادہ ہی پڑھتے اور سُنتے رہتے ہیں ۔ اسکی
وجہ زیادہ تر وہ انسانی رویہ ہے۔ جو احساسِ محرومیت،عزت و آبرواور من پسند
زندگی گزارنے کیلئے اپنایا جاتا ہے۔اسکے لیئے کوئی جان دیتا ہے،کوئی دوسرے
کی جان لے لیتا ہے اور کوئی چھین لیتا ہے ۔دُکھ تو اس بات کا ہے کہ ان
واقعات پر افسوس کرنے والے پھر بھی اپنا رویہ نہیں بدلتے ۔جسکی جھلک ہمیں
دُنیا بھر میں حکومت سے ادارے اور خواص سے عوام تک عام نظر آتی ہے۔
سوال سب کے سامنے اہم یہ ہے کہ روز مرہ ایسے واقعات پڑھنے کے بعد بھی کسی
پر اثر کیوں نہیں ہوتا؟کیا ہم موجودہ دور میں اخلاقی رویئے و قدریں بھول
چکے ہیں؟
کیا ہم ایک دوسرے سے ناراض ہیں یا خوف زدہ؟
بالکل ہم ناراض بھی ہیں اور خوف زدہ بھی۔
کیوں ؟
یہ ہم بھی نہیں جانتے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو ہماری گفتگو میں ہر فرد اور
نظام سے خفگی کی عام جھلک نظر آتی ہے۔ اس دُکھ میں جو لکھا جارہا ہے وہ بھی
نظام سے بد دِلی کا حال ہے۔ لہذا سامعین یا قاری فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ
خوشخبری کون دیگا؟سب سے آسان کام ہے دِل بھر کر تنقید کر کے ایک اچھی سی
تجویز دے دینا ۔وہ لاگو کیسے ہو گی فیصلہ دوسروں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔اسطرح
روایتی نوعیت کی گفتگو و مضامین نے سامعین و قاری کو معاشرے سے بد دِل کر
دیا ہے۔ قاری تو کوئی بھی ہوسکتا ہے ۔عوام سے خواص تک۔لہذا ہر کوئی یہ سمجھ
کر کہ سب کچھ تو بگڑ گیا ہے وہ اپنے معیار پر معاملے کو پرکھنے کیلئے
احتیاطی طور پر جو طریقہ کا ر اپناتا ہے وہ اگلے کیلئے منفی بن جاتا ہے۔
یہاں لمحہِ فکریہ یہ ضرور ہے کہ جسکو اگلے کا رویہ منفی نظر آتا ہے اُس میں
حقیقت کا رنگ بھی ضرور ہو تا ہے۔
بس یہی وجہ بن رہی ہے کہ ہم سب ایک دوسرے سے ناراض ہیں اور جو تحمل مزاج ہے
وہ خوف زدہ ہے کہ کہیں اُسکے ایک جُملے سے اگلا ناراض نہ ہو جائے اوراگر
زندگی سے متعلقہ کوئی کام اُس سے پڑ ہی گیا ہے تو کہیں وہ کرنے سے انکار نہ
کر دے۔
آج بے شمار مضامین ایسے شائع ہو رہے ہیں جن میں رویئے میں تبدیلی، ڈیپریشن
سے بچنے کے طریقے،صبر سے ہی کامیابی ہے،محنت اور لگن سے آپ دوسرے کا دِل
جیت سکتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ اِن سب کے بعد بھی جس سے واسطہ پڑتا ہے
اگر وہ ناراض ہو یا اصولوں سے خوف زدہ ہو کر ہی حق کا ساتھ نہ دے تو پھر
اُس کہانی کا اختتام وہی نفسا نفسی کا عالم ہو گا جس کی ابتدائی جھلک ہم سب
اپنے گرد ونواح میں دیکھ رہے ہیں۔
کاش! آئندہ ہمیں ایسی گفتگو و تحریریں سننے و پڑھنے کو ملیں جن میں یہ کُھل
کر بیان کریں کہ آج قدرت نے جو کچھ ہمیں عنایت کیا ہے وہ ایک حیران کُن
سائنسی ترقی کے زُمرے میں آتا ہے۔برائی کا وجود کبھی بھی نہیں ،کہیں بھی
ختم نہیں ہوسکتا لیکن اس دور میں جو سہولتیں ہمیں روز بروز میسر آرہی ہیں
یہ ہم سب کیلئے روزانہ کی خوشخبری سے کم نہیں۔یہی سوچ خواص سے عوام تک
مُثبت رویئے کی بنیاد بن سکتی ہے۔
اب غور کریں کہ ہم ناراض یا خوف زدہ کیوں ہیں؟ |