گونجتی شہنائیاں ، مہکتی فضا، کھنکھتی ہنسی،
خشبو دار کھانے، بجتے ساز، کھڑکتے برتن، گاتے لوگ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باتیں
بناتے رشتہ دار یہ ہے ایک پاکستانی شادی کا حال۔ ذیادہ تر مڈل کلاس
پاکستانی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور شہنشاہیت سے بھرپور شادی نہ کرے ایسا ہو نہیں
سکتا ایسا سوچ نہیں سکتا۔ معاشرے میں ناک انسان کی دو وقتوں پر بنتی ہے جب
بورڈ کے پر چوں کا رزلٹ آنا ہو گھر کے بچوں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا شادی ہو گھر کے بچوں کی۔
یہی وجہ ہے کہ گھر کے لوگ شادی خانہ آبادی انتہائی عالیشان بنانے میں اور
گھر کے باہر کے لوگ غلطیوں پہ غلطیاں بتانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ شادی کے
لئے ویسے تو سب سے ضروری جو چیز ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہوتا ہے ایک عدد
دُلہا اور ایک عدد دُلہن۔ایک قاضی صاحب تو رہ گئے۔ ویسے تو محاورہ ہے کہ جب
میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی جبکہ سچ تو یہ ہے کہ قاضی صاحب رضا مندی
نہ دیں تو ہمارے ہاں شادی پایہ تکمیل تک پہنچانا ناممکن ہو جائے۔
جدھر ہم رہتے ہیں مطلب کہ لوگوں کے بیچ۔۔۔۔۔یہ انسان کو دو صورتحال میں
سکون نئیں لینے دیتے۔ ایک جب شادی نہ ہو رہی ہو تب کہ کیوں نہیں ہو رہی
دوسرا تب جب ہو جائے تو شکوے کرتے پائے جاتے ہیں کہ بس بیوی اور سسرال کو
ہی ییارے ہو گئے ہو۔ مطلب کبھی بھی نہیں چین لینے دیتے۔ انسان اور کچھ کرے
نہ کرے بس لوگوں کا منہ بند کرنے میں پوری زندگی ہلکان رہتا ہے اور یہی وجہ
ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوری زندگی بھی ہلکان ہی رہتا ہے اور آخر وقت پہ
بھی۔۔۔۔۔۔۔۔اکثر کسی کی طرف سے کوئی صدمہ ہی انسان کو ہارٹ اٹیک تک لے کر
گیا ہوتا ہے۔
شادی بیاہ پہ تو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاہے جس بھی
عبداللہ کو دیوانہ ہوتا دیکھ کر کہا گیا ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ چوںکہ ہمارے
ہاں کام شام تو کوئِی خاص لوگوں کو ہوتا نہیں اسی لئے کسی بھی عبداللہ (اللہ
کے بندے) کی شادی ہو آس پاس کے تھوڑے کم قریبی رشتے دار اور ٹھیک ٹھاک دور
کے رشتے دار دیوانہ ہونا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ سب حسب توفیق مشورے دینا،
مسئلے حل کرنا، تقریب منعقد کرنا اور سب سے بڑھ کر بھنگڑا ڈالنا اپنی ذمہ
داری سمجھتے ہیں۔
دنیا بھر میں شادی کے موقعوں پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ناراض
پھوپھیاں منائی جاتی ہیں۔شادی کی خوشی میں اوپر سے غصے کا تڑکا نہ لگایا
جائے تو اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ خوشیوں کو نظر نہ لگ جائے اسی وجہ سے
کچھ رشتے دار خوشی کا مزہ دوبالا کرنے کے لئے منہ سجا کر اور گال پھلا کر
ضرور بیٹھتے ہیں۔اصل میں اسطرح نظر لگنے سے خوشی بچ جاتی ہے۔
شادی کی رسموں میں مجھے تو سب سے مزے کی رسم وہ والی لگتی ہے کہ جب دُلہے
کو گھوڑی چڑھایا جاتا ہے ظاہر ہے ایک گدھے کا گھوڑے پر سوار ہونے کا یہ
منظر تو ایسے موقعوں پر ہی دیکھا جاسکتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر جب کہ
گھوڑا ادب و احترام میں بھا گتا بھی نہیں کہ کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو بھی
ایسا ہی گدھا نہ سمجھ لیا جائے۔
شادی خانہ آبادی سے پہلےاور صرف پہلے ہی ایک کام ہوتا ہے اور وہ یہ کہ
انسان کو شادی کا شدید شوق ہوتا ہے اور شادی کے کچھ عرصے بعد سمجھ میں نہیں
آتا کہ اتنا شوق کیوں تھا آخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر چوں کہ یہ حماقت سب ہی
زندگی میں ایک دفعہ ضرور کرتے ہیں پر کچھ لوگ اتنے بہادر ہوتے ہیں وہ ایک
دفعہ سے ذیادہ دفعہ بھی کر لیتے ہیں۔
ہمارے ہاں شادی کے موقعوں پر سب سے ذیادہ اکڑ دکھانے کا موقعہ لڑکے کے
خاندان کو دیا جاتا ہے۔ اسکی وجہ صرف اتنی سی ہوتی ہے کہ امریکہ میں بھی
برسر اقتدار جماعت کا انتخابی نشان گدھا ہے سو امریکہ کی تقلید کی جاتی ہے
اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گدھی والے دب جاتے ہیں اور گدھے والے اکڑتے
پھرتے ہیں۔
کیونکہ ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ شادی بینڈ باجوں اور ڈھول تاشوں کے بغیر
نامکمل سمجھی جاتی ہے سو یہی وجہ ہے کہ اتنے ڈھول پیٹے جاتے ہیں کہ دُلہے
میاں کا کان کا پردہ متاثر ہو جاتا ہے اور ساری زندگی وہ بیوی کے اشاروں پر
ناچتا ہے اور کان سے سن نہیں سکتا اور اسی لئے سب پھر اسکے لئے یہی کہتے
پائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جورو کا غلام ہو گیا ہے |