دنیا میں کل مسلمان اور دیگر مذاہب اعداد و شمار

یہ حقیقت ہے کہ مسلمان دنیا میں ایک عظیم قوم ہیں کیونکہ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے زیادہ حکمرانی مسلمانوں کی رہی لیکن اس حکمرانی کے سنہری دور میں آج کے حکمران نہ تھے گزشتہ روز میں ایک اخبار میں کالم پڑھ رہا تھا جس میں مسلم قوم کی یکجہتی اور تعداد بتائی گئی اس تناسب سے اس وقت کرہ ارض پر تقریباً 1476233470 مسلمان آباد ہیں۔ جن میں سے ایک ارب ایشیاء میں، 400ملین افریقہ،44ملین یورپ میں اور 6ملین امریکہ میں رہتے ہیں۔ دنیا میں ہر پانچواں انسان مسلمان ہے۔ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد کے ساتھ مسلمانوں کا تناسب کچھ اس طرح سے بنتا ہے کہ ہر ہندو کے مقابلے میں2 مسلمان اور ہر یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان۔ تو پھر سوچئے کہ اس قدر کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان اس قدر بے وقعت اور کمزور کیوں ہیں؟وجہ صاف ظاہر ہے:اسلامی کانفرنس تنظیم یعنی او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 57ہے اور ان تمام مسلم ممالک میں یونیورسٹیوں کی کل تعداد500ہے یعنی30 لاکھ مسلمانوں کے لئے صرف ایک یونیورسٹی اس کے برعکس امریکہ میں 5758یونیورسٹیاں موجود ہیں اور ہندوستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد 8407 ہے۔2004ء میں شنگھائی جیا ڈونگ یونیورسٹی نے کارکردگی کے اعتبار سے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی اور حیران کن طور پر درجہ اول کی500 یونیورسٹیوں میں مسلم ممالک کی کوئی ایک بھی یونیورسٹی جگہ نہ پا سکی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی (یو این ڈی پی)کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق پوری عیسائی دنیا میں شرح خواندگی تقریباً 90 فیصد ہے اور15عیسائی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ اس کے بلکل برعکس مسلم ممالک میں اوسط شرح خواندگی تقریباً 40 فیصد ہے اور کوئی ایک بھی مسلم ملک ایسا نہیں جہاں شرح خواندگی سو فیصد ہو۔ عیسائی دنیا میں تقریباً 98فیصد پڑھے لکھے یا خواندہ افراد وہ ہیں جنہوں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی ہے جبکہ مسلم ممالک میں ایسے خواندہ افراد جو پرائمری پاس ہیں ان کی شرح 50 فیصد ہے عیسائی ممالک کے 40 فیصد خواندہ افراد نے یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم حاصل کی ہو۔ مسلم ممالک میں ہر دس لاکھ مسلمانوں میں سے 230 سائنسدان ہیں جبکہ امریکہ میں ہر دس لاکھ افراد میں چار ہزار سائنسدان موجود ہیں اور جاپان میں ہر دس لاکھ افراد میں سے پانچ ہزار سائنسدان ہیں۔ پوری عرب دنیا میں ہمہ وقتی محققین کی کل تعداد پینتیس ہزار ہے اور ہر دس لاکھ عربوں میں صرف پچاس تکنیک کار موجود ہیں۔ عیسائی ممالک میں یہ تناسب ہر دس لاکھ افراد میں ایک ہزار تکنیک کاروں کا ہے۔ مزید برآں مسلم دنیا تحقیق اور تعلیم و ترقی پر اپنی مجموعی پیداوار کا صرف اعشاریہ دو فیصد خرچ کرتی ہے جبکہ عیسائی دنیا اپنی مجموعی پیداوار کا پانچ فیصد حصہ علم و تحقیق اور ترقی کی مد میں صرف کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں علم و آگہی اجاگر کرنے اور اس کی ترویج کی صلاحیت انتہائی کم ہو کر رہ گئی ہے۔

معاشرے میں علم و آگہی پھیلانے کی نشاندہی ان دو چیزوں سے بھی ہوتی ہے کہ ہر 2000 افراد کے لئے روزانہ کتنے اخبارات شائع ہوتے ہیں اور ہر دس لاکھ افراد کے لئے کتنی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ہر 1000 افراد کے لئے 23 روزنامہ اخبارات شائع ہوتے ہیں جبکہ سنگا پور میں یہ تناسب ہر ہزار افراد کیلئے360 اخبارات ہے۔ برطانیہ میں ہر ایک کے لئے2000 کتابوں کی اشاعت ہوتی ہے جبکہ مصر میں دس لاکھ افراد کے صرف20 کتب شائع کی جاتی ہیں۔ نتیجہ:۔ مسلم دنیا علم و آگہی پھیلانے میں ناکام ہو رہی ہے۔ علم کے استعمال کی نشاندہی کرنے والا ایک اہم عنصر یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ کسی ملک کی مجموعی برآمدات میں سے اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی برآمدات کا شرح تناسب کیا ہے۔ پاکستان کی کل برآمدات میں سے اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی برآمدات کا تناسب صرف ایک فیصد ہے۔ یہی تناسب سعودی عرب میں صرف0.3 فیصد، کویت، مراکش اور الجیریا میں بھی یہ تناسب0.3 فیصد ہے جبکہ سنگاپور میں یہ تناسب اٹھاون فیصد ہے۔ نتیجہ: مسلم دنیا اپنے علم کو بروئے کار لانے میں ناکام ہو رہی ہے۔ مسلمان دنیا میں کمزور کیوں ہیں؟ کیونکہ ہم اپنے لوگوں کو علم و آگہی نہیں دے پا رہے۔ مسلمان کیوں کمزور ہیں؟ اس لئے کہ ہم علم کی ترویج و اشاعت نہیں کر پا رہے۔ مسلمان کیوں بے وقعت ہیں؟ اس لئے کہ ہم علم کو بروئے کار ہی نہیں لا رہے اور مستقبل تو انہیں معاشروں کا ہوگا جن کی بنیاد علم و آگہی پر رکھی گئی ہے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ او آئی سی کے رکن مسلم ممالک کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) دو کھرب ڈالرز سے بھی کم ہے جبکہ صرف امریکہ سالانہ بارہ کھرب ڈالرز کی اشیا اور روزگار پیدا کرتا ہے، چین آٹھ کھرب ڈالرز سالانہ، جاپان 3.8 کھرب ڈالرز اور جرمنی2.4 کھرب ڈالرز کی مجموعی پیداوار GDP کا حامل ہے۔ ( مساوی قوت خرید کی بنیاد پر؟) تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر اجتماعی طور پر پانچ سو ارب ڈالرز کی مصنوعات اور روزگار سالانہ پیدا کرتے ہیں جبکہ صرف سپین ایک کھرب ڈالرز کی مصنوعات و روزگار سالانہ پیدا کرتا ہے اسی طرح کیتھولک پولینڈ میں یہ شرح چار سو نواسی ارب ڈالرز اور بدھ تھائی لینڈ میں پانچ سو پینتالیس ارب ڈالرز ہے۔ (مسلمانوں کی مجموعی پیداواری آمدنی باقی دنیا کے مقابلے میں بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90678 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.