اپنی ہر سوچ کو محسن نہ علاقائی کر

خدا اس ملک کو اپنی حفظ و امان میں رکھے جانے کتنی بے شمار دعائیں اس ملک کی سلامتی کی ضمانت بنتی ہیں تبھی تو مشکل ترین حالات میں بھی یہ ملک قائم ہے اور رہے گا انشااللہ۔ دعائیں تو اپنی جگہ سلامتی کی ضمانت ہیں لیکن کچھ فرائض ہمارے بھی ہیں جن کو ہم بحیثیت قوم بہت کم ترین ذمہ داری کے طور پر بھی نہیں لے رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کا وجود باہمی خلوص، محبت اور اخوت کا مرہون منت ہے قومی یکجہتی کی ضرورت ہر معاشرے میں ہمیشہ اٹل ہے۔ اس وقت پاکستان بیرونی سازشوں کی وجہ سے جن مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے ان حالات میں قومی یکجہتی ہمارے وجود کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے لیکن ہم اکثر اوقات انتہائی غیر ذمہ داری اور غیر حب الوطنی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں یقیناً اس سب کچھ میں غیر ملکی ہاتھ کارفرما ہوگا لیکن آلہ کار ہمارے اپنے لوگ ہوتے ہیں اگر ترکھان کے پاس ہتھوڑی اور آری نہ ہو تو وہ لکڑی کیا چیرے اور کیا ڈھالے۔ ہمارے اندر خرابی بہت اندر سے اور بہت چھوٹے درجے سے آتی ہے۔

میری چار سالہ بیٹی شام کو کھیل کود کر آئی تو پٹھان کے لمبے لمبے کانوں کا گانا ساتھ لائی جب اسے بتایا گیا کہ یہ بری بات ہے تو اچھا کہتے ہوئے بڑے فخر سے کہا مجھے دوسرا بھی آتا ہے اور تب پنجابی کی شان میں ایک قصیدہ سنایا گیا۔ اب ظاہر ہے چار سالہ بچی نہ قافیہ ملا سکتی ہے نہ ردیف۔ وہ یہ سب کچھ باہر بچوں سے سیکھ کر آئی اور نہ ہی باہر کھیلتے ہوئے سات آٹھ نو سال کے بچے شاعر تھے انہوں نے یہ سب کہیں اور سے سیکھا اور جب اس عمر سے بچہ یہ سب ذہن نشین کر لیتا ہے تو پھر اس کی نظر میں نہ چاہتے ہوئے بھی دوسرے کی یہ خامیاں نظر آنے لگتی ہیں اور یوں ایک تعصب جنم لینے لگتا ہے جو مد مقابل کی طرف سے نفرت کا سبب بن جاتا ہے۔ اور پھر وہ حالات جنم لیتے ہیں جس کا مظاہرہ اکثر اوقات ہمارے ملک میں دیکھنے میں آتا ہے۔ کراچی کے حالیہ حالات اسی ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک خود کو لسانی اور نسلی طور پربرتر بلکہ عظیم سمجھتا ہے اور دوسرے کی نسل بلکہ زبان میں بھی دل کھول کر نقص نکالے جاتے ہیں اور یہی اختلافات اور اعتراضات بڑھ کر فسادات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسی ذہنیتیں دشمن کا آلہ کار بننے فخر محسوس کرتی ہیں۔

بلوچستان کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں نسلی تعصب کو مسلسل ہوا دی جارہی ہے دوسرے صوبوں کے لوگ جو نسل درنسل بلوچستان میں آباد ہیں نہ خود کو بلوچی کہلانے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی بلوچی انہیں اپنانے پر آمادہ ہیں۔ یہی حال پنجاب، سندھ اور سرحد کا ہے انہی صوبوں کے ڈومیسائل رکھنے کے باوجود ہم انہیں اپنانے پر تیار نہیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ اپنے علاقے کو چھوڑ دیا جائے اور وہاں سے تعلق ختم کر دیا جائے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں۔ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کو اپنایا مکہ کو فتح بھی کیا تو وہاں واپس جا کر نہ بسے لیکن مکہ کی محبت آپ کے دل میں رہی۔ اپنے شہر اپنے گاؤں سے محبت فطری ہے اپنی نسل پر فخر بھی غیر فطری نہیں لیکن دوسرے کو کمتر سمجھنا اور اسکی تحقیر کرنا ہرگز فطری نہیں بلکہ ناجائز ہے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ باہر کی دنیا میں ہمارا تعارف صرف پاکستان ہے اگر ہم اس حقیقت کو اپنی نجی زندگیوں کا حصہ بنالیں کہ ہم سب حضرت آدم علیہ السلام کے قابل فخر بیٹے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار ہیں ہم مسلمان ہیں تو یقیناً ہم اس تعصب کو جڑ سے اکھاڑ پھینک سکیں گے. لیکن مسئلہ یہ ہے کہ علاقائی کے ساتھ ہم مذہبی تعصب میں بھی بری طرح مبتلا بلکہ جکڑے ہوئے ہیں یعنی نہ ہم قومی یکجہتی میں مثالی ہیں نہ مذہبی رواداری میں. ہم اگر پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان اور کشمیری ہیں تو ہم شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی بھی ہیں۔ یوں طرح طرح کے تعصبات نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا نہ ہم نے بحیثیت قوم خود کو مضبوط کیا اور نہ ہی ہم نے ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونے کی کوشش کی۔ ہمارے بہت سارے فیصلے علاقائیت کی نظر ہو جاتے ہیں این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق رائے خوش آئند ہے لیکن عملی اقدامات کی ضرورت اس سے بڑھ کر ہے۔ حکومتی سطح پر بھی اور عوامی اور سیاسی سطح پر بھی۔ ہمارے آج کل کا سب سے طاقتور ذریعہ میڈیا ہے اگر ہم اسے مؤثر طور پر استعمال کریں تو میرے خیال میں ہم کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اگرچہ ہمارا نیوز میڈیا ایک مثبت کردار ادا کر رہا ہے تاہم اسے اپنی انٹرٹینمنٹ میں اس چیز کو اشد طور پر شامل کرنا ہوگا۔

ہمارے دانشوروں کو عوامی سطح پر قومی یکجہتی پر زور دینا ہوگا۔ بحیثیت استاد میں طلبا کی سطح پر اس چیز کی شدید کمی محسوس کرتی ہوں کہ ہماری آج کی نسل اپنی تاریخ سے بے بہرہ ہوتی جا رہی ہے ہمیں نہ صرف یہ سب کچھ نصاب میں شامل کرنا ہوگا بلکہ ایسی ہم نصابی سرگرمیوں کو بھی سکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک لازمی قرار دیا جائے کہ طلبا کسی علاقائیت کے تربیت لے ہی نہ سکیں اور نہ ہی ان ہاتھوں میں کھلونا بن سکیں جو ہمارے ملک کے دشمن ہیں۔ ہمیں اپنی نئی نسل میں یہ سوچ راسخ کرنا ہوگی کہ ہماری بقا صرف اور صرف قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری میں ہے۔ مجھے محسن احسان کا ایک شعر بہت پسند ہے اور دل چاہتا ہے کہ اسے اپنے ملک کی ہر دیوار پر لکھوا لوں شاید میری قوم کے غیر ضروری احساس تفاخر میں مبتلا گروہ اس سے کچھ سیکھ کر قوم اور ملت کا مطلب سمجھ جائیں اور اس بات کا ادراک کر لیں کہ طاقت، قوت اور عزت اتفاق اور قومی اتحاد میں ہے بصورت دیگر ان کا وجود کھوکھلا اور دیمک زدہ ہے۔ محسن نے متنبہ کیا
یہ تعصب تجھے گھن کی طرح کھا جائے گی
اپنی ہر سوچ کو محسن نہ علاقائی کر
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 553439 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.