زندگی کو بچا کر چلیں

کوئی شخص جب کسی جھاڑیوں سے بھر پورراستے پر بے احتیاطی کے ساتھ چلے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کا انجام کیا ہوگا اور ہم اس کو کیا بولیں گئے ۔۔۔؟؟؟اس کے نتیجے میں اس کے جسم میں کانٹوں کا چبھنا ، کپڑوں کا پھٹنا ، زخمی ہو نا،تھکاوٹ و پریشانی اس کا مقدر بن جائیں گئے۔ منزل تک اول تو پہنچ ہی نہیں پاتا اگر پہنچ بھی جائے تو بہت دیر کے ساتھ پہنچ پاتا ہے۔ اس کو منزل پر پہنچ کر اپنی ناکامی کا احساس ہوتا ہے اور اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔۔۔اب وہ آدمی کیا کرے گا۔۔۔۔؟ کیا وہ کانٹوں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو گا۔۔۔۔؟ کیا سب کانٹوں کو ختم کرنا اس کو مقصد حیات بن جائے گا۔۔۔؟ کیا وہ لوگوں سے گلے شکوے کرنے لگے گا۔۔۔۔؟یا پھر وہ آہ و پکار کرنے لگے گا ۔۔۔۔؟ تاکہ دنیا میں کوئی اور شخص کانٹوں میں نہ الجھ سکے۔کو ئی بھی زندہ یا باہوش انسان کبھی بھی ایسا نہیں کرے گا۔ بلکہ اس کے بر عکس وہ یہ کرے گا کہ وہ اپنی نادانی کا احساس کرے گا۔ اور اپنے آپ سے یہ سوال کرے گا کہ اﷲ رب العزت نے دو آنکھیں دی تھیں تو راستہ دیکھ کر اپنے آپ کو کانٹوں سے بچا کر کیوں نہیں چلاہو ں میں۔۔۔۔؟ تم اپنے آ پ کو ان کانٹوں سے سمیٹ کر نکل سکتے تھے مگر تم نے لاپرواہی کی اور کانٹوں میں الجھ کر اپنا ٹائم اور اپنی طاقت دونوں ضائع کیے سو کیے ساتھ میں تم منزل تک پہنچنے میں بھی کافی پیچھے رہ گئے ہو۔

کبھی آپ نے اس بات کا اندازہ لگایا ہے کہ گلاب کا پھول کس قدرخوبصورت و حسین ہوتا ہے۔ مگر اس پھول تک پہنچے میں کتنے کانٹے آپ کو روکنے کے لیے ہمہ تن کھڑے رہتے ہیں، جس طر ح یہ پھول خوبصورت ہے اور اس کو پانے کے لیے کانٹوں سے پچنا ہو گا۔ اس طرح اپنی منزل کو بھی پھول سے تشبیہ دو کہ ہماری منزل کس قدر خوبصورت و حسین ہے ۔ ایک اور بات جو منزل جس قدر حسین و دلکش ہو گی وہ اتنی ہی خطرناک بھی ہو گی۔ اس کی راہ میں اس قدر زیادہ کانٹے ہوں گے۔ یہ دنیا بھی بظاہر بڑی خوبصورت اور دلکش ہے مگر اندر سے یہ بے شمار کانٹوں کو جنم دیئے ہوئے ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو چاہے جس قدر دور رکھنا چاہے بھی تو نہیں رکھ پاتا جب بھی آپ کسی خوبصورت پھول کو تھوڑنا چاؤ گئے تو کانٹے راستہ روکیں گئے۔ مگر آ پ کی منزل اس پھول سے خوبصورت ہے اور کسی کی فلاح کے لیے ہے تو پھر آپ کو ان معمولی کانٹوں کی فکر مندی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ کو صرف دنیا کی خوبصورتی کو حاصل کرنا مقصود ہے تو پھر اور بھی مشکل ہو گا۔ آج کی دنیا میں ایسے بے شمار لوگ موجو د ہیں جو کہ انسانی کانٹوں کے درمیان بڑی بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں، پھر جب یہ ہی کانٹے ان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچاتے ہیں تو پھر یہ ہی واویلا مچاتے نظر آتے ہیں، کانٹوں کو برا کہتے ہیں۔ اور اپنی نادانی کو دوسروں کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ایسے تمام لوگوں کو جاننا چاہیے کہ جس طرح درختوں کی دنیا سے کانٹے ختم کرنا نا ممکن سی بات ہے بالکل اسی طرح سماجی دنیا سے بھی کانٹے نما افراد کا ختم ہونا بھی ناممکن ہے، اس دنیا میں بہترین زندگی تب ہی گزر سکتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو کانٹے دار لوگوں سے بچا کر چلیں تو تب، ورنہ کانٹے اپنی فطرت سے باز نہیں آئیں گئے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔کانٹوں بھری زندگی کا مزہ تب ہی آتا ہے کہ جب آپ تمام مشکالات اور پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر اپنے آپ کو اپنے رب کے حضور سربجود کر کے پیش کرتے ہیں تو پھر آپ کو احساس ہو گا کہ اس سخت و تند زندگی کا آسان حل کیا ہے۔
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182542 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More